Kitni Chali Cycle - Article No. 1639

Kitni Chali Cycle

کتنی چلی سائیکل - تحریر نمبر 1639

”شور کیوں مچاتے ہو۔ابھی پندرہ منٹ بھی نہیں ہوئے․․․․تمہیں نو دن سائیکل چلانی ہے۔“ہم نے غصے سے کہا۔

بدھ 22 جنوری 2020

بچپن میں ہمارا شمار اپنی گلی کے بد تمیز اور انتہائی شریر بچوں میں ہوتا تھا۔حالانکہ ہم بد تمیز تو ذرا بھی نہیں تھے،ہاں البتہ شریر ضرور تھے،کیونکہ شرارتیں کرنا تو ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ہمارے ساتھیوں میں ایک بے حد سیدھے سادے اور بھاری بھر کم جسم کے مالک،ٹینک نما ٹمو صاحب بھی تھے۔جب وہ چلتے تو ان کی دھپ دھپ سے بے چاری زمین کانپ کانپ جاتی اور جب وہ سائیکل پر سوار ہوتے تو ان کے ناقابل برداشت بوجھ سے اس بے زبان سائیکل کا دم گھٹنے لگتا۔
اور اس کی دل خراش چیخیں ہمیں دور سے ہی سنائی دے جاتیں۔
چوں․․․․․․اُوں․․․․چاں!
اس گوشت کے پہاڑ سے مونا علی تو سخت الرجک تھی۔جہاں کہیں اسے پتلا ہونے کا کوئی نسخہ یا ٹوٹکا ہاتھ آتا،جھٹ ٹمو صاحب کی خدمت میں پیش کردیتی،طرح طرح کی ورزشیں بتاتی،اُچھلنے کو دنے کے مشورے دیتی۔

(جاری ہے)

لیکن ٹمو صاحب تھے کہ ان کے کان پر جوں تو جوں مکھی تک نہ رینگتی اور وہ پیٹو بکرے کی طرح ہڑپ ہڑپ مونگ پھلی چھیل چھیل کر کھائے چلے جاتے جیسے کہ مونا علی نے اُن سے کچھ کہا ہی نہیں۔

ہم سب ساتھیوں کو اکثر ٹمو صاحب پربے حد غصہ آتا،لیکن پھر بھی اُس گوشت کے پہاڑ سے کُٹی کرنا کسی کوبھی کسی صورت گوارانہ تھا․․․․․!
اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹمو صاحب میں ہزار خامیوں کے باوجود بھی دو ایک خوبیاں ایسی تھیں کہ انہیں کسی بھی صورت نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔مثال کے طور پر باغ سے آم ہم چراتے اور مار ٹمو صاحب کھاتے․․․․․․کرائے پر سائیکل لے کر ہم چلاتے اور کرایہ ٹمو صاحب ادا کرتے․․․․․گلی میں کرکٹ کھیلتے ہوئے کسی کے مکان کی کھڑکی کا شیشہ ہم سے ٹوٹتا اور سزا ٹمو صاحب بے چارے کو ملتی۔
ان باتوں کے علاوہ ٹمو صاحب کے اور بھی بے شمار فائدے تھے،جن کا ذکر کرنا ہمارے بس میں نہیں ․․․․․لیکن صاحب، اس کے باوجود ٹمو صاحب کا موٹاپا ہمیں ہر وقت شدت سے کھٹکتا رہتا۔ایک دن ہم سب ساتھی مونا علی اور ٹمو صاحب کے انتظار میں بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے کہ ہاتھ میں ایک اخبار لہراتے ہوئے مونا نے دور سے ہانک لگائی:
”بن گیا کام!“اُس کے چہرے پر مسکراہٹ ہی مسکراہٹ تھی۔

”ارے مونی !کیا ہوا،کوئی پرائز بونڈ نکل آیا ہے؟“ہم سب نے بیک زبان پوچھا۔وہ ہمارے سامنے اخبار پھیلاتے ہوئے بولی:” بھئی!یہ خبر پڑھو!“
اور پھر خود ہی اونچی اونچی آواز میں پڑھنے لگی:
”250پونڈ وزن کے ایک آدمی نے مسلسل 9دن تک سائیکل چلائی،جس سے اس کا وزن 150پونڈ رہ گیا․․․․․“
”ارے مونی!تم تو خود ہی پڑ پڑ بولے جارہی ہو،مجھے سکون سے خبر پڑھنے دو۔
“ہم نے کہا۔مونا پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئی۔
ہم نے پوری خبر بڑے اطمینان سے پڑھ لی تو ایک دم ہمارے ذہن میں ٹمو صاحب کو سمارٹ بنانے کا خیال آیا۔پھر ہم نے اپنے اس خیال سے تمام ساتھیوں کو آگاہ کیا۔ایک لمحے کے لئے تو سب کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے ،لیکن اگلے ہی لمحے سب منہ لٹکا کر بیٹھ گئے۔
مونا اداسی سے بولی:”وہ موٹو ہر گز نہیں مانے گا۔

”مانے گا کیوں نہیں۔“ہم نے کہا۔”ضرور مانے گا․․․․․میرے ذہن میں ایک ایسی چٹ پٹی ترکیب ہے․․․․کہ بس،آنے دو ذرا پہاڑی بکرے کو۔“
”آگیا ۔“عامر چلایا۔”پہاڑی بکرا آگیا۔“
”ارے ٹمو کے بچے کہاں مر گئے تھے۔“ہم نے کہا۔
”جلدی سے اِدھر آؤ اور سنو،آج ہم نے ایک زبردست پروگرام بنایا ہے۔“
ٹمو صاحب جلدی سے سائیکل سے نیچے اترے․․․․․بس گرتے گرتے ہی بچے․․․․․اور ہانپتے کانپتے آکر ہمارے پاس بیٹھ گئے۔

”کیا پروگرام ہے؟“ٹمو صاحب نے پھولے ہوئے سانس سے پوچھا۔
”پہلے یہ بتاؤ․․․․تم نے سائیکل چلانی کس سے سیکھی ہے؟“ہم نے کہا۔
”کیوں ،کیا بات ہے؟“انہوں نے پوچھا۔
”ایمان سے بہت ہی اچھی چلاتے ہو۔“ہم نے اپنی ترکیب کو با اثر بنانے کے لئے مکھن لگانا شروع کیا۔
ٹمو صاحب پہلے ہی کسی گول گپے سے کم نہ تھے،اپنی تعریف سن کر اور بھی پھول گئے۔
ہمیں اپنی ترکیب کے ناکام ہوجانے کا خطرہ محسوس ہوا۔ہم نے دل میں سوچا․․․․․․تعریف کرنا ٹھیک نہیں․․․․․کوئی اور حربہ آزمانا چاہیے․․․․ایک دو لمحے دماغ پر زور دیا۔دماغ نے فوراً ہی ایک شاندار ترکیب بتادی۔ہم نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا:”ارے ٹمو !ہم نے سوچا ہے اب تم ایک گاڑی ضرور خرید لو۔“
”گاڑی خرید لوں؟“ٹمو صاحب کو حیرت کا کرنٹ لگا۔
وہ اچھل کر ہم سے دور جا بیٹھے:”ابو سے سائیکل بھی رو رو کر لی ہے ،تم کہتی ہو گاڑی خرید لو یہ ناممکن ہے․․․․!“وہ اپنا پچیس پونڈ وزنی سر ہلاتے ہوئے بولے۔
”ارے بابا․․․․․!گھبراتے کیوں ہو۔ہم تمہیں گاڑی دلوائیں گے۔“ہم نے کہا۔
”وہ کیسے ؟“ٹمو صاحب خوشی سے لرزنے لگے۔
”بہت ہی آسان طریقہ ہے․․․․یہ خبر پڑھو ۔
شاید تمہاری موٹی عقل میں کچھ آجائے۔“
یہ کہہ کر ہم نے اخبار ٹمو صاحب کے آگے کر دیا۔
”شکیل احمد نے مسلسل 9دن تک سائیکل چلا کر ایک سابقہ ریکارڈ توڑ دیا۔حکومت پنجاب کی طرف سے اسے دس ہزار روپے کا چیک دیا گیا۔اس کے علاوہ پانچ ہزار روپے کا نقد انعام شہریوں نے دیا۔“
”باپ رے باپ!سائیکل چلانے پر اتنا بڑا انعام!“ٹمو صاحب نے ابھی آدھی خبر ہی پڑھی تھی کہ اُچھل کر کھڑے ہو گئے۔

”ہم چاہتے ہیں تم بھی سائیکل چلاؤ اور ایک بڑا انعام جیتو!“مونا علی بے تابی سے بولی․․․․․”انعام میں ملنے والی رقم سے میں تمہیں قسطوں پر ایک گاڑی لے دوں گی،اور پھر مزے ہی مزے․․․․․!“
”ٹھیک ہے․․․․ٹھیک ہے!“ٹمو صاحب انعام کے لالچ میں مان گئے۔
”ہم سبز رنگ کی گاڑی خریدیں گے․․․․․․پھر سارا دن اس میں گھومیں گے․․․․پوں ․․․․․پوں․․․․․․پوں ․․․․پوں کرتی ہوئی ہماری گاڑی جدھر سے بھی گزرے گی،لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھیں گے․․․․․․ہائے اُس وقت کتنا مزا آئے گا․․․․․!“
ٹمو صاحب کا خوشی کے مارے بڑا حال ہورہا تھا۔
وہ خیالی پلاؤ کی دیگیں پکاتے ہوئے اپنی سائیکل کی طرف بڑھے․․․․تو ہم نے ان کی جیب سے پچاس روپے کے دو نوٹ نکال لیے۔
”میری جیب سے یہ نوٹ کیوں نکال لیے ہیں!!“ٹمو صاحب کا دل ڈوبنے لگا۔”ارے بابا!انتظام وغیرہ بھی تو کرنا ہے۔“پھر تو ٹمو صاحب ہمارا ہر مطالبہ مانتے گئے۔تھوڑی سی بات چیت کے بعد اگلے دن ٹھیک 9بجے جناح ہال میں سائیکل چلانے کا پروگرام مرتب ہوا اور ٹمو صاحب اور ہم سب اپنے اپنے گھروں کوچلے گئے۔

اگلے دن ہم ابھی سورہے تھے کہ ٹمو صاحب اپنی سائیکل کے ساتھ آن دھمکے۔ہم آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ بیٹھے اور انہیں بتایا:”ٹمو صاحب!جناح ہال میں سائیکل چلانے کی اجازت نہیں مل سکی۔“
یہ سنتے ہی ٹمو صاحب نے دھواں دھار رونا شروع کر دیا اور آسمان سر پر اٹھالیا:”ہائے میرے پچاس پچاس روپے کے دو نوٹ۔“
”ارے بابا!تمہارے روپے محفوظ ہیں۔
“ہم نے بڑی مشکل سے انہیں چپ کرایا اور انہیں مکان سے باہر لے گئے۔تھوڑی دیر کے بعد سب ساتھیوں کے آجانے پر مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ جناح ہال کی بجائے کمیٹی پارک میں ٹمو صاحب سائیکل چلائیں گے،جس پر ٹمو خوش ہو گئے۔
ہم سیدھے اپنے گھر گئے۔چچا جان کی شادی کے دس سالہ پرانے کالے پیلے جتنے بھی ہار کھونٹی پر لٹکے تھے،وہ سب اُتار لائے اور ٹمو صاحب کے گلے میں ڈال دیے۔
پھر ہم سب ان کے پیچھے پیچھے تالیاں بجاتے کمیٹی پارک پہنچ گئے۔گلی کے کچھ بچوں نے دیکھا تو پاکستان زندہ باد ،ٹمو زندہ باد کے نعرے لگائے۔
ہم نے ٹمو صاحب کو سائیکل پر سوار کیااور بہترین دعاؤں کے ساتھ ٹمو صاحب نے سائیکل چلانے کا آغاز کیا،جب دس منٹ گزرے تو وہ زور سے چلائے:”کتنی چلی سائیکل؟“
ہم نے محسوس کیا کہ ٹمو صاحب شدت سے کانپ رہے ہیں۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر چلائے:”ہائے میری ٹانگیں․․․․کتنی چلی سائیکل!“
”شور کیوں مچاتے ہو۔ابھی پندرہ منٹ بھی نہیں ہوئے․․․․تمہیں نو دن سائیکل چلانی ہے۔“ہم نے غصے سے کہا۔
”نو دن !“ٹمو صاحب نے چیخ ماری۔”ہائے مرا“اور اس کے ساتھ ہی وہ دھڑام سے نیچے گرے اور قلا بازیاں کھاتے ہوئے ایک بنچ کے پاس آرام سے لیٹ گئے۔ہم اُن کی طرف دوڑے ۔ٹمو صاحب بے ہوش پڑے تھے لیکن ان کے منہ سے برابر آواز آرہی تھی ۔”کتنی چلی سائیکل ،کتنی چلی سائیکل،کتنی چلی سائیکل․․․․․ہائے میں مرا․․․․․ہائے میں مرا․․․․․!“

Browse More Moral Stories