Koyel Aur Kawwa - Article No. 2084

Koyel Aur Kawwa

کوئل اور کوا - تحریر نمبر 2084

کوا اپنی بے وقوفی اور کوئل کی چالاکی پر کئی دن تک افسردہ رہا

ہفتہ 9 اکتوبر 2021

تابش لطیف
ندی کے کنارے لیموں کا پیڑ لگا تھا اس کے قریب ہی آم کا درخت تھا۔لیموں کے پیڑ پر کوے کا گھونسلا تھا جب کہ آم کے درخت پر کوئل نے گھونسلا بنا رکھا تھا۔لیموں کے پیڑ کی شاخ پر بیٹھ کر کوا ”کائیں کائیں“ کرتا جب کہ آم کی ڈال پر بیٹھ کر کوئل کو کو کرتے ہوئے گاتی۔دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں پرندوں کا رنگ کالا تھا۔
موسم بہار میں کوئل نے اپنے گھونسلے میں انڈا دیا،ادھر کوے کی مادہ نے بھی اپنے گھونسلے میں انڈے دیے۔
کوا دن بھر باہر دانہ دنکے کی تلاش میں اِدھر اُدھر اُڑتا پھرتا جب کہ ”کوی“ گھونسلے میں بیٹھی انڈوں کی رکھوالی کرتی۔کوئل کو یہ آسانی میسر نہیں تھی،وہ اپنے آشیانے میں اکیلی رہتی تھی،اسے کھانے کی تلاش میں باہر بھی جانا پڑتا تھا،اس صورت میں وہ انڈے کی حفاظت نہیں کر سکتی تھی۔

(جاری ہے)

اسے ایک ترکیب سوجھی کہ کیوں نہ اپنا انڈا کوے کے گھونسلے میں رکھ دیا جائے۔کوے کی بیوی تو دن بھر گھونسلے ہی میں بیٹھی رہتی ہے، وہ اپنے انڈوں کے ساتھ میرے انڈے کی بھی حفاظت کرے گی۔ایک دوپہر جب کوی اپنے گھونسلے میں اونگھ رہی تھی،کوئل چپکے سے اپنا انڈا اس کے گھونسلے میں رکھ آئی۔
کوے کی بیوی بے چاری سیدھی سادی تھی،حالانکہ کوا اپنی چالاکی کی وجہ سے بدنام ہے لیکن اس میں ریاکاری اور مکاری نام کو نہیں تھی۔
گھونسلے میں ایک انڈا زیادہ ہو گیا تو بھی اسے پتا نہیں چلا۔وہ انڈے سہتی رہی،کچھ دنوں بعد ان میں سے بچے نکل آئے۔انہیں دیکھ کر کوا اور اس کی بیوی بہت خوش ہوئے۔
کوی نے کوے سے کہا ”کائیں کائیں کائیں“ کتنے پیارے بچے ہیں۔کالے کالے چمک دار،کوا دن بھر محنت مشقت کرکے دانے لاتا، دونوں میاں بیوی اپنی چونچ سے سارے بچوں کو دانے کھلاتے،ان کے ساتھ کھیلتے اور انہیں کہانیاں سناتے۔
کوے نے بچوں کو چلنا سکھا یا۔ ایک دن اس نے اپنی مادہ سے کہا کہ ”چلو اب ہم بچوں کو بولنا سکھائیں۔“
لیموں کے پیڑ پر کوے نے اپنا اسکول کھولا۔اسکول کی گھنٹی بجی،اور پڑھائی شروع ہو گئی۔کوے نے بچوں سے کہا ”بولو کائیں کائیں کائیں۔ “سب بچوں نے اس کی آواز میں آواز ملا کر ”کائیں کائیں“ کہا لیکن ایک بچے کے منہ سے ”کو،کو،کو“ کی آواز نکلی۔
یہ آواز سن کر کوا چونکا لیکن اس نے بچے سے کہا،”کو کو نہیں ،کائیں کائیں بولو“۔سارے بچے کائیں کائیں کرنے لگے لیکن وہ بچہ بدستور”کو کو“ کرتا رہا۔کوے نے اسے چونچ مار کر کہا”ٹھیک سے بولو،کائیں،کائیں،کائیں“ پر اس بچے کو بولنا آتا ہی نہ تھا۔کوے کا سر پھر گیا۔
اس نے کہا ”یہ بچہ بالکل بدھو ہے،اسے کچھ نہیں آئے گا۔
“ کچھ دنوں کے بعد سارے بچوں کے پنکھ نکل آئے اور کوے نے انہیں اُرنا سکھایا ۔ایک دن بارش ہو رہی تھی، کوئل آم کی ڈال پر بیٹھ کر گانے لگی ”کو،کو،کو،کو۔“ اس کے ساتھ ہی کوے کے گھونسلے سے ایک بچہ اُڑا اور کو کو کو، چلاتے ہوئے کوئل کے گھونسلے کی طرف چلا گیا۔کوے نے یہ ماجرا دیکھ کر کوی سے کہا ”ارے ارے یہ تو کوئل کا بچہ ہے،اپنی ماں کی آواز سن کر یہ اس کے گھونسلے میں گیا ہے۔
افسوس ہم نے اپنے گھونسلے میں اس کی پرورش کی۔“ کوا اپنی بے وقوفی اور کوئل کی چالاکی پر کئی دن تک افسردہ رہا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔کوئل اب بھی کوے کی بے خبری میں اس کے گھونسلے میں اپنے انڈے رکھ آتی ہے،جب بچے نکلتے ہیں تو سب ہی ایک رنگ کے ہوتے ہیں،بڑے ہو کر جب وہ بولنا سیکھتے ہیں تو کائیں کائیں کی بجائے کو کو کرتے ہیں تو اس وقت کوے کو اپنی حماقت کا احساس ہوتا ہے پھر وہ اور اس کی مادہ انہیں مار کر اپنے گھونسلے سے بھگاتے ہیں۔

Browse More Moral Stories