Kuala - Article No. 1688

Kuala

کوالا - تحریر نمبر 1688

آسٹریلیا کی قیامت خیز آگ کی نذر ہونے والی معصوم مخلوق کے نام

جمعہ 20 مارچ 2020

سیدہ نازاں جبیں کی پُر تائثر تحریر
”مجھے بہت نیند آرہی ہے ۔“ایک کوالا نے انگڑائی لیتے ہوئے دوسرے سے کہا۔
”ہاں سو جاؤ۔ میں بھی سورہا ہوں پھر اٹھ کر کھانا کھائیں گے۔“دوسرے کوالا نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔
ابھی انہیں بیٹھے ہوئے اور اونگھتے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اچانک دور سے شور شرابے کی آوازیں آنے لگیں۔
وہ دونوں ایک دم بیدار ہو گئے اور سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔
”یہ کیسی آوازیں ہیں؟“ایک کوالا نے دوسرے سے پوچھا۔
”پتا نہیں ،چلو نیچے اتر کر دیکھتے ہیں۔“دوسرے نے جواب دیا۔
وہ دونوں درخت سے نیچے اتر گئے اور آگے بڑھنے لگے ۔جیسے ہی تھوڑی دور گئے تو ایک دل دہلا دینے والا منظر ان کا منتظر تھا ۔

(جاری ہے)

آسمان نارنجی رنگ کا ہو چکا تھا۔

ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا اور سب جانور افراتفری میں ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے ۔
”آگ۔۔۔آگ۔۔۔بھاگو۔۔۔جلدی۔۔۔!!“کوئی جانور ان کے قریب سے یہ کہتا ہوا بھاگ نکلا۔
کک ۔۔۔کک ۔۔کیا۔۔۔آ۔۔آ۔۔آگ لگ گئی!مگر کیسے؟“ایک کوالا کے منہ سے مارے خوف کے بے ربط الفاظ نکلے۔
”بھاگو۔۔جلدی بھاگو۔۔۔جلدی کرو۔“دوسرا کوالا اپنے ساتھی کو کھینچتا ہوا بھاگنے لگا۔

اچانک آگ کا ایک بھڑکتا ہوا شعلہ ان کی طرف لپکا۔وہ دونوں بری طرح سٹپٹا گئے اور جان بچانے کے لئے اندھا دھند بھاگنے لگے ۔وہ اپنی دانست میں بہت تیز بھاگ رہے تھے مگر ہائے ری قسمت!وہ شعلہ ان سے زیادہ تیز رفتار نکلا اور دونوں کو آدبوچا اور دونوں کوالا کے ہاتھوں اور پیروں کو جلا ڈالا۔دونوں کی چیخیں نکل گئیں ۔آن کی آن میں اس تباہ کن آگ نے پورے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
وہ دونوں معصوم کوالا بہت ہی سہم گئے تھے ۔کہیں سے جانوروں کے رونے اور چیخنے کا شور سنائی دے رہا تھا،کہیں سے لکڑیوں کے چٹخنے کی آوازیں آرہی تھیں تو کہیں درختوں کے پتے اور جھاڑیاں جھلس رہے تھیں اور جل جل کر گرتے ہوئے قد آور درختوں نے تو دونوں معصوم کوالا کو شدید خوف زدہ کر دیا تھا۔”امی ۔۔۔امی ۔۔۔کہاں ہیں آپ؟ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز ہمارے پاس آجائیں ۔
“ایک کوالا نے روتے ہوئے اپنی ماں کو آواز دی ۔
”ابو۔۔۔ابو۔۔۔یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟پلیز ہمیں بچالیں۔“دوسرا کوالا بھی مدد کے لئے اپنے باپ کو پکارنے لگا۔مگر کوئی نہ آیا۔نہ جانے ان کے والدین کہاں تھے ۔کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔دیکھتے ہی دیکھتے کئی کوالا اور دوسرے جانور جل کر ختم ہو گئے !
وہ دونوں معصوم کوالا ڈرے سہمے بھاگتے رہے اور شدید خوف میں مبتلا ہوتے رہے ۔
جان تو سب ہی کو پیاری ہوتی ہے آخر۔ایسی خوف ناک آگ انھوں نے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔وہ دونوں کوالا زور زور سے رونے لگے اور اپنے ماں باپ کو یاد کرنے لگے اور ساتھ ہی آسمان کی طرف منہ کر کے دعائیں مانگنے لگے۔
کوالا(ایک ریچھ نما جانور)درختوں پر رہنے والا آسٹریلیا کا مقامی جانور ہے ۔یہ سبزی خور ممالیہ ہے ۔کوالا جنوبی آسٹریلیا ،کوئنز لینڈ،نیو ساؤتھ ویلز اور وکٹوریہ میں پایا جاتاہے جو کہ آسٹریلیا کے مشرقی اور جنوبی ساحلی علاقے ہیں۔
یہ اپنی جسامت اور نقوش کے اعتبار سے آسانی سے پہچانا جاسکتاہے ۔یہ بغیر دُم والا ایک ہٹا کٹا جانور ہے ۔اس کا سر بڑا،کان نرم ملائم اور ناک چمچے کی شکل سے ملتی جلتی ہے ۔کوالا کے جسم کی لمبائی 60سے 85سینٹی میٹر ہوتی ہے اور اس کا وزن 4سے 15کلو ہوتاہے۔اس کی کھال کا رنگ گرے اور چاکلیٹی براؤن ہوتاہے۔کوالا مشرقی آسٹریلیا میں رہتے ہیں جہاں یو کلپٹس کے درخت وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔
ان کے تیز پنجے اور پیروں کی انگلیاں آسانی سے انہیں اونچائی پر رکھتی ہیں ۔کوالا کے لئے یو کلپٹس کے درخت ہی سب کچھ ہیں ۔یہ خوراک کے طور پر اس کے پتے کھاتے ہیں اور زیادہ پانی بھی نہیں پیتے کیونکہ زیادہ ترنمی ان کو یوکلپٹس کے پتوں سے مل جاتی ہے ۔ہر ایک کوالا بہت زیادہ مقدار میں ان پتوں کو کھاتاہے ۔
جنگل کی اس خوفناک آگ سے جنوبی آسٹریلیا میں کم از کم25,000کوالا موت کے منہ میں چلے گئے!جس کے نتائج اتنے تباہ کن ہیں کہ کوالا کی نسل کی ختم ہونے کا خطرہ ہے ۔
یہ گول مٹول روئیں والے ممالین جانور 1920اور1930کی دہائیوں میں اپنی کھال کے لئے وسیع پیمانے پر شکار کیے جاتے تھے اور اس کے علاوہ دیگر ماحول دشمن اقدامات سے ان کی آبادی بہت کم ہو کر لاکھوں سے ہزاروں کی تعداد میں ہوگئی تھی۔
آگ ایک درخت سے دوسرے درخت تک تیزی سے پھیلتی ر ی۔شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے ۔دونوں ننھے کوالا امیدوبیم کی کیفیت میں خوف وہراس کا شکار ہو کر بیٹھے تھے کہ اچانک انھوں نے کچھ انسانوں کو اپنی جانب آتا دیکھا۔

”ارے وہ دیکھو!کچھ لوگ ہماری طرف آرہے ہیں۔“ایک کوالا نے دوسرے سے کہا۔
”یہ لوگ کیوں آرہے ہیں ؟مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔“دوسرے کوالا کے لہجے میں خوف تھا۔
دونوں کوالا بچے اتنے سہمے ہوئے تھے کہ لوگوں کو اپنے قریب آتا دیکھ کر دوبارہ رونے لگے ۔اتنے میں وہ لوگ ان کے نزدیک پہنچ گئے ۔کچھ لوگوں نے کافی جانوروں کو آگ میں سے نکالا ،کسی نے کپڑے ڈال کر بچایا تو کوئی پانی کا چھڑکاؤ کر رہا تھا۔
ان دونوں کو بھی کسی نے بہت پیار سے اپنی گود میں اٹھالیا اور جنگل سے باہر لے گئے ۔باہر بہت سی گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں ۔ان لوگوں کی گود میں جاکر بچوں کا ڈر خوف جاتا رہا اور وہ قدے پر سکون ہو گئے ،جیسے کسی پنا گاہ میں آگئے ہوں۔ پھر ان لوگوں نے دونوں کوالا کے زخموں پر مرہم لگایا ،انہیں پانی پلایا اور دوائیں بھی دیں۔یہی عمل باقی تمام جانوروں کے ساتھ کیا گیا۔
دونوں کوالا مارے تشکر کے ان لوگوں سے لپٹ گئے جیسے کہ ان کا شکریہ ادا کررہے ہوں۔ پھر ان دونوں کوالا اور دوسرے جانوروں کو گاڑی میں بٹھانے کے بعد کچھ لوگ پھر سے جنگل کی طرف چلے گئے اور کچھ وہیں موجود رہے ۔
”یہ لوگ ہمیں بچانے کے لئے آئے ہیں۔“ایک کوالا نے دل میں سوچا۔
”شکر ہے اللہ!ہم بچ گئے ۔“دوسرا کوالا بھی دل ہی دل میں شکر ادا کر رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد پھر بہت سارے لوگ ایک ساتھ آتے دکھائی دئیے۔جب وہ سب ایک جگہ جمع ہوگئے تو انھوں نے قطاریں بنالیں اور پھر زمین پر جھک گئے ۔
”ارے ،کیا کر رہے ہیں یہ لوگ اب؟“دونوں کوالے حیران پریشان ہو کر سوچے جارہے تھے ۔پھر انہوں نے ان لوگوں کو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا۔
”یہ لوگ دعا مانگ رہے ہیں۔“ایک کوالا نے دل ہی دل میں کہا۔

اور پھر دعا ہو گئی قبول ۔۔۔موسم بدلا اور بارش ہونے لگی۔یہ مسلمان تھے جو بارش کے لئے اپنے رب کے حضور ”نماز استسقا“پڑھ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائیں سن لیں ۔نماز استسقا بارش کے لئے پڑھی جاتی ہے ۔جنگل کی آگ اب صرف اور صرف بارشوں سے ہی رک سکتی تھی ۔اس نماز میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی اور عیسائی بھی شامل ہو گئے تھے کہ اب دعا کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
بے شک انسان کے پاس تمام تر سہولیات وٹیکنالوجیز موجود ہیں مگر کبھی کبھی ایسی ناگہانی آفات آجاتی ہیں کہ انسان بے بس ہو جاتاہے اور سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی مدد نہیں کر سکتا۔اب بھی مسلسل بارشوں کی ضرورت ہے تاکہ جنگل کی آگ مکمل طور پر بجھ جائے اس لئے دعاؤں کی بہت ضرورت ہے ۔آئیے ہم سب بھی اللہ کے حضور دعا مانگتے ہیں کہ اللہ ان معصوم جانوروں پر رحم کرے اور جنگل کی آگ بجھ جائے ۔آمین۔

Browse More Moral Stories