Lalach Ka Injaam - Article No. 1763
لالچ کا انجام - تحریر نمبر 1763
لومڑ مزے سے لالچی بطخ کو منہ میں دبائے بھٹ کے اندر داخل ہوا۔
بدھ 8 جولائی 2020
(جاری ہے)
”کچھ ملایا خالی ہاتھ لوٹ آئی ہو․․․؟“اس نے بڑی بے صبری سے سوال کیا۔لومڑی نے اپنے نکھٹو شوہر کو گھور کر دیکھا،پھر کہا۔”اس شدید سردی میں بھلا کیا مل سکتا ہے․․․؟“
”تو کیا اب پھر باسی روٹی کے ٹکڑے کھانے پڑیں گے․․․؟“لومڑ نے جھنجھلا کر کہا تو بھوری آنکھوں والی لومڑی کو اپنے کاہل شوہر پر غصہ آگیا اور بولی۔”کام کے ناکاج کے دشمن اناج کے․․․کبھی خود بھی خوراک تلاش کر لیا کرو۔“یہ کہتے ہوئے لومڑی نے ڈبے میں روٹی کے باسی ٹکڑے نکالے اور لومڑ کے آگے رکھ کر بولی۔”جب تک خوراک کا بندوبست نہیں ہو جاتا ہمیں انہی ٹکڑوں پر گزارہ کرنا ہو گا۔“یہ کہہ کر وہ روٹی کے ٹکڑے کھانے لگی۔لومڑ نے ان ٹکڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔”رات کو باسی ٹکڑے کھانے سے میرے دانتوں میں درد ہو رہا ہے،میرا تو دل چاہ رہا ہے کہ آج گوشت کھاؤں۔مجھے امید ہے کہ میری خواہش ضرور پوری ہوگی۔“
لومڑی نے کہا۔”تم چاہتے ہو کہ ہر چیز تمہیں بیٹھے بٹھائے مل جائے۔میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی جو تم جیسا نکھٹو اور کاہل شوہر ملا ہے جسے کھلانابھی خود ہی پڑتا ہے۔“یہ کہہ کر وہ کچھ دیر بڑ بڑاتی رہی،پھر خاموشی سے روٹی کے باسی ٹکڑے چبانے لگی۔بھوکے لومڑ نے کچھ دیر تک اپنے سامنے رکھے ہوئے روٹی کے ٹکڑوں کی طرف دیکھا تک نہیں لیکن جب بھوک نے ستایا تو منہ بناتے ہوئے ایک ٹکڑا اٹھا کر چبانے لگا۔ابھی وہ ٹکڑا چباہی رہا تھا کہا آسمان پر پھڑپھڑاہٹ کی آواز سنائی دی،پھر چار بطخیں نیچے زمین پر اتر آئیں۔انہوں نے لومڑ اور لومڑی کو روٹی کے ٹکڑے چباتے ہوئے دیکھا تو ان کے قریب آگئیں کہ شاید وہ روٹی کے کچھ ٹکڑے کھانے کے لئے پھینک دیں۔لومڑی نے بڑی مشکلوں سے روٹی کے ٹکڑے جمع کیے تھے،اس لئے اس نے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ان کی طرف نہ پھینکا لیکن لومڑ نے روٹی کا ایک بڑا ٹکڑا بطخوں کی طرف پھینک دیا۔چاروں بطخیں روٹی کے ٹکڑے پر لپکیں۔
ان میں سے جو صحت مند بطخ تھی،اس نے روٹی کا ٹکڑا حاصل کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے ہڑپ کر گئی۔لومڑ نے دوسرا ٹکڑا پھینکا تو وہ بھی اسی بطخ نے کھا لیا،تیسرا ٹکڑا بیچ میں گرا اور چاروں بطخیں اس پر تیزی سے جھپٹیں لیکن یہ ٹکڑا بھی تگڑی بطخ لے اڑی۔یہ دیکھ کر لومڑی ،لومڑ پر چلائی۔”پاگل تو نہیں ہو گئے جو روٹی کے ٹکڑے اس طرح ضائع کر رہے ہو․․․؟“لومڑ نے کہا۔”یہ خشک ٹکڑے کھا کر میرے پیٹ میں درد ہو گیا ہے،اس لئے میں ان بطخوں کو کھلا رہاہوں۔“یہ کہتے ہوئے اس نے
چوتھا اور پانچواں ٹکڑا بھی بطخوں کی طرف پھینک دیا۔تگڑی بطخ یہ ٹکڑے بھی کھا گئی۔اس کی ساتھی بطخوں نے احتجاج کیا تو اس نے ان کی خوب پٹائی کی۔بطخ کی یہ حرکتیں دیکھ کر لومڑی نے کہا۔”کتنی لالچی ہے یہ بطخ ،اپنی ساتھی بطخوں کا حصہ بھی کھا رہی ہے۔“لومڑ نے کوئی جواب نہیں دیا۔اب وہ روٹی کے ٹکڑے صرف اسی لالچی بطخ کی طرف پھینکنے لگا۔دوسری بطخوں کا حصہ کھا کھا کر تگڑی بطخ کا پیٹ پھول گیا۔اس نے اتنا کھا لیا کہ اب اس سے ادھر ادھر دوڑنا بھی مشکل ہو گیا۔’‘’بس کرو،تم نے تو سارے ٹکڑے اسی لالچی بطخ کو کھلا دیے ہیں۔“لومڑی نے چلا کر لومڑ سے کہا لیکن اس نے لومڑی کی بات پر کوئی دھیان نہ دیا۔یہ دیکھ کر لومڑی بہت خفا ہوئی اور بڑبڑائی ہوئی اپنے بھٹ کے اندر چلی گئی۔تگڑی بطخ ٹکڑوں کے لالچ میں لومڑ کے قریب آچکی تھی۔لومڑ بھی جان بوجھ کر ٹکڑے اپنے قریب گرا رہا تھا۔جیسے ہی تگڑی بطخ تھوڑا سا قریب آئی ،اس نے اچھل کر بطخ کو پکڑ لیا۔اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس سے بھاگانہ گیا،یہ دیکھ کر دوسری بطخیں فوراً اڑ گئیں۔
لومڑ مزے سے لالچی بطخ کو منہ میں دبائے بھٹ کے اندر داخل ہوا۔اس نے بطخ کے پر نوچے اور گوشت لومڑی کو پیش کرتے ہوئے کہا۔ ”میں نکھٹو اور کام چور سہی لیکن اتنا احمق بھی نہیں کہ اپنی ساری خوراک ایسے ہی کسی کو کھلادوں،اب تمہاری سمجھ میں آگیا ہو گا کہ میں سارے ٹکڑے اس لالچی بطخ کو کیوں کھلا رہا تھا۔آؤ اس سرد موسم میں بطخ کے گرم گرم گوشت کامزا اڑائیں۔“لومڑی جو کچھ دیر پہلے لومڑ پر بے حد خفا تھی،اب اسے لومڑ دنیا کا عقلمند جانور دکھائی دے رہا تھا۔اس نے کہا۔”تم واقعی بہت چالاک ہو،میں تمہیں مان گئی۔“اس کے بعد دونوں نے مل کر لالچی بطخ کے مزیدار گوشت کی دعوت اڑائی۔
Browse More Moral Stories
نیلی پری
Neeli Pari
نابینا فقیر کی دانشمندی
Nabina Faqeer Ki Danishmandi
غریب شہزادہ۔۔۔تحریر: مختار احمد
Ghareeb Shahzada
پانی کا فیصلہ (پہلا حصہ)
Pani Ka Faisla - Pehla Hissa
بڑھاپے کا سہارا
Burhapay Ka Sahara
آزادی کی کاوشیں
Azaadi Ki Kavishein
Urdu Jokes
ایڈیٹر افسانہ نگار سے
editor afsana nigaar se
دماغ کا کینسر
dimag ka cancer
اپنا چمچہ
apna chamcha
جیسے کو تیسا
jaise ko taisa
مائیک میں کرنٹ
mic mein current
موسم کی تبدیلی
Mausam ki tabdeeli
Urdu Paheliyan
لکھنے کا ہے ڈھنگ نرالا
likhne ka hai dhang nirala
آج ہے اس کا گھر گھر نام
aaj hai uska ghar ghar naam
سر کے بل چلتا ہے فرفر
sar ke baal chalta hy far far
مت جانو کچھ ایسا ویسا
mat jano kuch aisa waisa
یا وہ آتا ہے یا وہ جاتا ہے
ya wo aata hai ya wo jata hai
اک گھر کا اک پہرے دار
ek ghar ka ek pehredaar