Lalach Ki Saza - Article No. 1212

Lalach Ki Saza

لالچ کی سزا - تحریر نمبر 1212

ملا کی عمر کا زیادہ ترحصہ بادشاہوں کے درباروں میں ہی گزرا۔وہ ہنس مُکھ اور بذلہ سنج شخص تھا ۔بادشاہ اکثر اُس پر انعام واکرام کی بارش کرتا رہتا تھا۔

بدھ 24 اکتوبر 2018

ساجد کمبوہ
پیارے بچو! آپ نے ملا نصرالدین کا نام تو ضرور سنا ہو گا اور اُسکے کارنامے بھی ضرور پڑھے اور سنے ہو نگے ۔ملا کی عمر کا زیادہ ترحصہ بادشاہوں کے درباروں میں ہی گزرا۔وہ ہنس مُکھ اور بذلہ سنج شخص تھا ۔بادشاہ اکثر اُس پر انعام واکرام کی بارش کرتا رہتا تھا۔
بادشاہ کے دربار میں اُس سے حسد کرنے والے بھی تھے وہ بادشاہ کے کان بھرتے رہتے تھے ،آخر ایک دن اُنہیں موقع مل ہی گیا ۔

بادشاہ کے مخالف کا مُلا سے آمنا سامنا ہوا۔مُلا نے اُسکے سلام کا جواب دیا ،اُس نے مُلا کا حال چال پوچھا ۔بس اتنی سی بات کا بتنگڑ بنا کر بادشاہ کو ملا سے بد ظن کر دیا ۔بادشاہ ملا سے ناراض ہو گیا اور محل میں اُس کا داخلہ بند کر دیا ۔
چند ماہ تک تو مُلا اپنی جمع پونجی خرچ کرتا رہا۔

(جاری ہے)

کہتے ہیں یوں کھانے سے قارون کا خزانہ بھی خالی ہو جاتا ہے اور دیناروں سے بھرے کنویں بھی خالی ہو جاتے ہیں۔

کئی ہمدردوں نے ملا سے کہا کہ وہ بادشاہ سے معافی مانگ لے ،مگر ملا کا کہنا تھا کہ عزت نفس بھی کوئی چیز ہوتی ہے ،میری خطا نہیں تو کیوں معافی مانگوں ؟آخر انسان میں اَنا بھی ہونی چاہئے۔
چند ٹکوں کی خاطر بادشاہ کے ہاں ماتھا ٹیکوں ۔بادشاہ میرا خدا نہیں ،میرا رازق اللہ ہے ،وہ ہی روزی دے گا۔ملا نے جمع پونجی ساتھ لی اور ملک یمن جانے کی تیاری کرلی کہ وہاں کے بادشاہ کے ہاں نوکری کر لے گا ۔
وہ ایک گھنے جنگل کے قریبی گاؤں سے گزرا ۔رات وہاں گزاری دیکھا کہ وہاں کے لوگ بندروں سے بہت تنگ تھے ۔
بندر اُن کے کھانے پینے کا سامان ٹوپیاں اور برتن اُٹھا کر لے جاتے تھے ۔ملا کو ایک خیال سوجھا اور لیوں پر مسکراہٹ آگئی ۔اُس نے اعلان کیا کہ وہ بندروں کا تاجر ہے اور اُنہیں دوسرے ملک میں لے جا کر بیچتا ہے ۔اُسے بڑی تعداد میں بندردرکار ہیں ۔
ایک بندر کے سو دینا ر دے گا۔وہ بھی نقد ۔بندر لاؤد ینار لے جاؤ۔شروع میں گاؤں والوں نے سمجھا کہ بوڑھا پاگل ہے ،یہاں اتنی تعداد میں بندر پھرتے ہیں ،یہ سو دینار میں خرید رہا ہے ،کچھ دیہا تیوں نے کہا کہ بوڑھے کے دعویٰ کو آزمانا چاہئے۔
اُن کی حیرت کی انتہانہ رہی ،جتنے بندر آئے اُس نے سو سودینار کے عوض خرید لئے۔اب تو گاؤں میں بندر پکڑ نے کا مقابلہ شروع ہو گیا ۔
لوگ سارا دن بندر پکڑتے اور بوڑھے سوداگر کو بیچ دیتے ۔کچھ بندر سمجھ گئے اور کچھ ویسے ہی کم ہو گئے۔اب بوڑھے سوداگرنے اعلان کیا فی بندر دو سودینار دے گا۔ دیہاتیوں کو چسکا لگ چکا تھا ،وہ باقی ماندہ بندروں کی تلاش میں نکل پڑے جو کسی کے ہاتھ لگتا وہ دو سو دینار میں سودا گر خرید لیتا ۔
آس پاس بندر کم ہو گئے ،لوگ جنگلوں سے پکڑ پکڑ کر لانے لگے ،بوڑھا سودا گرفی بندر دو سودینار دیتا گیا ۔
اُس نے فی بندر پانچ سودینار کا اعلان کر دیا ۔بڑی مشکل سے دو تین بندر ملے۔اب سوداگر نے اعلان کیا کہ جب وہ اپنے مُلک سے ہو کر آئے گا تو فی بندر ہزار دینار میں خریدے گا،باقی بندر اپنے نوکر کے سپرد کئے ۔اگلے دن لوگوں نے دیکھا کہ ایک سفید داڑھی والا بوڑھا بندروں سے بھرے کمروں کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ۔
دیہاتی آئے اور اُسکی منت سماجت کرنے لگے کہ وہ ہمیں بندر بیچ دے ،اتنے بندروں میں چند ایک کم ہونگے تو کونسا سوداگر کو پتہ چلے گا مگر اُس نے انکار کر دیا ۔
دیہاتیوں نے جنگل چھان مارا مگر کوئی بندر ہاتھ نہ لگا ۔وہ پھر اُس خادم کے پاس آئے اور کہا کہ ہمیں کچھ بندر بیچ دے ۔اِس پر خادم نے آٹھ سودینار مانگے اُنہوں نے سات سو دینار فی بندر پر سودا کیا۔
اگر ایک بندر ہزار دینار میں بکے گا تو پھر بھی مفت میں تین سودینار منافع ہو گا ۔اُس خادم نے خاموشی کے
وعدہ پر چند ایک بندر بیچ دےئے اور با قیوں کو رات کے مختلف اوقات کاوقت دے دیا۔
دیہاتیوں نے سونا چاندی قیمتی جانور دھڑا دھڑ بیچ کر بندر خرید لئے ۔اب اُنہیں سوداگر کاا نتظار تھا۔
ہفتہ دس دن گزر گئے ،نہ خادم رہا اور نہ ہی سوداگر آیا ۔اب گاؤں والوں کو احساس ہوا کہ اُن کے ساتھ دھوکا ہوا ہے ۔وہ بندر خرید نے اور بیچنے والا ایک ہی شخص تھا۔اب سب پچھتا رہے تھے کہ لالچ کیا اور اس کی سزا بھی مل گئی ۔دیکھا بچو لالچ بُری بلا ہے اس سے بچو․․․․․․!

Browse More Moral Stories