Lalchi Dost (pehli Qist) - Article No. 1680

Lalchi Dost (pehli Qist)

لالچی دوست (پہلی قسط) - تحریر نمبر 1680

بن مانس ہر روز سعید سے اس جگہ ملنے لگا- بھیڑ بکریاں ادھر ادھر گھاس چرتی پھرتی تھیں اور سعید بن مانس کے ساتھ جنگل میں گھومتا پھرتا تھا- اب اسے بن مانس سے ذرّہ بھر بھی خوف محسوس نہیں ہوتا تھا

جمعہ 6 مارچ 2020

تحریر: مختار احمد


وزیرآباد ایک چھوٹا سا اور خوبصورت گاؤں تھا- سعید اس گاؤں میں رہتا تھا- وہ پندرہ سال کا ایک صحت مند اور خوبصورت لڑکا تھا- جب وہ دس سال کا تھا تو اس کی ماں گردن توڑ بخار میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے کوچ کر گئی تھی اور اس واقعہ کے ٹھیک ڈیڑھ سال کے بعد اس کا باپ بھی ایک کنویں میں گر کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا- اور اب سعید اتنی بڑی دنیا میں بالکل تنہا رہ گیا تھا-وزیر آباد سے اٹھائیس میل دور شہزاد نگر نامی ایک شہر تھا-جس میں سعید کی رشتے کی ایک چچی رہتی تھی- اگر سعیدچاہتا تو وہ اپنی چچی کے پاس بھی جا کر رہ سکتا تھا- مگر وہ ایک خوددار لڑکا تھا- اس کو یہ بات گوارہ نہیں تھی کہ وہ کسی پر بوجھ بنے- اس لیے باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد اس نے گزر اوقات کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے-وہ گاؤں میں ایک شخص کے پاس ملازم ہو گیا- اس شخص نے سینکڑوں کی تعداد میں مرغیاں پال رکھی تھیں اور اس کا نام رحیم تھا- رحیم مرغیوں کے انڈوں کا بیوپاری تھا اور گاؤں والوں کے ہاتھوں مرغیوں کے انڈے فروخت کرتا تھا-
اس نے گنوں کے کھیتوں کے دوسری طرف ایک بڑے سے میدان میں کافی ساری جگہ پر قبضہ کر رکھا تھا- جہاں پر جالی دارڈربوں میں مرغیاں بند ہوتی تھیں- ان ڈربوں کے اطراف میں گھاس پھوس اور بانسوں کی مدد سے ایک چار دیواری قائم کردی گئی تھی- رحیم دن بھر اپنا ڈیرہ وہیں جما ئے رکھتا تھا- وہ چار پائی پر لیٹے لیٹے حقہ گڑ گڑ ا تا رہتا اور جب چلم میںآ گ سرد ہو جاتی تو وہ بڑی کاہلی سے اٹھ کر مرغیوں کے ڈربوں کا جائزہ لینے لگتا، اور وہاں سے انڈے اٹھا اٹھا کر ایک ٹوکری میں جمع کر لیتا- شام ہوتے ہی وہ انڈوں کی ٹوکری اٹھاتا، گھاس پھوس کی بنائی ہوئی چار دیواری میں چونکہ کوئی باقاعدہ دروازہ موجود نہیں تھا اس لیے وہ اس میں چار پائی کھڑی کر کے لگا دیتا اور گاؤں میں پہنچ کر وہاں کی گلیوں میں بلند آواز سے انڈے بیچتا پھرتا-اس کاروبار میں اسے کافی فائدہ ہوا تھا- جب اس کے پاس چار پیسے جمع ہو گئے تو اسے مرغیوں کو دانہ پانی دینا، ان کے انڈے جمع کرنا اور انڈوں کو گلیاں گلیاں بیچنا برا سامحسوس ہونے لگا اور وہ سنجیدگی سے سوچنے لگا کہ ان تمام کاموں کو انجام دینے کے لیے اسے کوئی ملازم رکھ لیناچاہئیے-
انہی دنوں سعید کے باپ کی موت بھی واقع ہو گئی تو رحیم نے سعید سے اس بارے میں بات کی- اس نے سعید سے کہا-"دیکھو سعید- تمھارے باپ کا سایہ سر سے اٹھ چکا ہے- اب تمہیں خود ہی یہ زندگی گزارنا ہے- اس لیے تمہیں محنت کرناہوگی- اس محنت کا معاوضہ حاصل کر کے ہی تم اپنا پیٹ پال سکتے ہو، اگر تم چاہو تو میں تمہیں اپنے مرغی خانے میں نوکری دے سکتا ہو"-اندھے کو کیا چاہئیے، دو آنکھیں، سعید نے فو ر ا حامی بھرلی تھی اور یوں وہ رحیم کے مرغی خانے میں ملازم ہو گیا-اور وہاں پر بڑی محنت سے کام کرنے لگا-
رحیم نے مرغی خانے میں ہی ایک سائبان بنوا لیا تھا اور وہ سارا دن چار پائی پر لیٹا حقے کی نے منہ میں دبا ئے سعیدکو مرغی خانے میں کام کرتا دیکھتا رہتا تھا- دن یونہی گذرتے رہے- سعید اس نئی مصروفیت سے بے حد خوش تھا-جب شام کو وہ انڈوں کی ٹوکری اٹھاے گاؤں کی گلیوں میں انڈے فروخت کرنے کے لیے صدائیں لگاتا تو گاؤں والے اس کی بیحد تعریف کرتے کہ ماں باپ کے مرنے کے بعد وہ محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال رہا ہے-
رحیم اپنی جگہ خوش تھا کہ سعید نے آ کر اس کے کاروبار کومزید چمکا دیا ہے- اس کی بہتر دیکھ بھال نے مرغیوں کو بھی بیحد مسرور کر دیا تھا- وقت پر دانا پانی ملنے پر وہ خوش ہوکر زور زور سے کڑ کڑ ا کر اپنے پر پھڑپھڑا تی تھیں اور اب ان کے انڈے بھی زیادہ بڑے اور خوبصورت ہونے لگے تھے جنہیں گاؤں والے بڑی خوشی سے خریدتے تھے- مگر یہ نہ جانے کس کی بدقسمتی تھی کہ گاؤں میں ایک رات بڑے زورکی بارش ہوئی- کسان تو بیحد خوش تھے کہ بارش ان کی فصلوں کے لیے بے حد مفید ہوتی ہے- مگر رحیم اس بارش سے بیحد خوفزدہ اور فکرمند ہو گیا تھا- وہ جانتا تھا کہ اکثربارشوں کے بعد مرغیوں کی ایک وبائی بیماری پھوٹ پڑتی ہے جس کی لپیٹ میں آ کر مرغیاں چوں بھی نہیں کرتیں پٹ سے مرجاتی ہیں-
بوندا باندی شام سے شروع ہوئی تھی- رحیم نے جھٹ اپناایک پرانا سا سیاہ رنگ کا صندوق نکالا اور اس میں سے ایک بوسیدہ سی کتاب نکال کر جلدی جلدی اس کے ورق الٹ کر ایک جگہ رک گیا- پھر اس نے اپنے کان میں اٹکی ہوئی پنسل،جس سے وہ انڈوں کا حساب کتاب لکھا کرتا تھا، نکال کر ایک کاغذ کے پرزے پر اس کتاب سے کچھ دوائیوں کے نام لکھ کرسعید کو پنساری کی دکان کی طرف دوڑا دیا- اس نے سوچ تھاکہ رات بھر ان دوائیوں کو بنائے گا اور صبح ہوتے ہی مرغیوں کو ایک ایک خوراک کھلا دے گے تاکہ یہ اندیشہ ہی ختم ہو جائے کہ وبائی بیماری پھوٹ پڑنے کی وجہ سے مرغیوں کاخاتمہ ہو جائیگا-
وہ تمام رات مختلف جڑی بوٹیوں کی چھان پھٹک میں گزر گئی-سعید اپنے گھر بھی نہ جا سکا- رات بھر موسلا دھار بارش ہوتی رہی- رات کے پچھلے پہر تھوڑی دیر کے لیے بارش رکی بھی تو طوفان شروع ہوگیا- باہر سے عجیب طرح کا شوربلند ہوتا رہا- رحیم کا مکان تھا تو پکّی اینٹوں کا مگر باورچی خانے کی دیوار چکنی مٹی کی بنائی گئی تھی جو رات کو ہی گر گئی تھی-خدا خدا کر کے صبح ہوئی- رحیم نے سیاہ رنگ کی گول مرچوں کے برابر گولیوں کے برتن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اورسعید کو لے کر اپنے مرغی خانے کی طرف چل دیا- بارش تھم چکی تھی- مگر باہر جگہ جگہ پانی کے تالاب بنے ہوئے تھے- انھیں کئی ٹوٹے ہوئے مکانات کی دیواریں بھی نظر آئیں-
وہ کیچڑ سے بچتے بچاتے تیز تیز قدموں سے مرغی خانے کی طرف جا رہے تھے- گنے کا کھیت پار کر کے جب وہ مرغی خانے کے قریب پہنچے تو مرغی خانے میں مکمل خاموشی تھی- رحیم کا جی دھک سے رہ گیا- وہ جھپٹ کر اندر داخل ہوا تو یہ دیکھ کر اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ تمام مرغیاں اپنے اپنے ڈربوں میں مردہ پڑی تھیں- بارش کا پانی ڈربوں میں داخل ہوگیا تھا اور مرغیاں سردی سے اکڑ کر مرگئی تھیں- رحیم سر پکڑ کر بیٹھ گیا-اس واقعہ کے بعد ظاہر ہے سعید کو بھی اس ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ گئے تھے- اس لیے وہ کوئی دوسرا کام ڈھونڈنے میں مصروف ہوگیا مگر اسے کوئی کامیابی نہ ہوئی- آخر بہت سوچ بچار کے بعد اس نے ایک فیصلہ کرلیا-وہ گاؤں کے ان لوگوں سے ملا جن کے پاس بھیڑ بکریاں اوردوسرے جانور تھے- اس نے ان سے کہا کہ وہ ان کی بھیڑبکریوں کو چرانے کے لیے جنگل لے جایا کرے گا- گاؤں والے اس کی بات بڑی خوشی سے مان گئے تھے- انہوں نیپہلے اس کام کے لیے ایک چرواہا رکھا تھا- مگر وہ چرواہاپکّا بے ایمان ثابت ہوا- وہ بھیڑ بکریوں کا دودھ نکال کردوسرے گاؤں میں فروخت کرنے لگا تھا-
گاؤں والوں کو اس کی اس حرکت کا پتہ چل گیا- انہوں نے اس چرواہے کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا، پھر پہلے تو اس کی خاصی مرمت کی اور اس کے بعد گاؤں کے حجام کو بلا کر اس کو گنجا کروایا پھر اس کامنہ کالا کر کے گدھے پر بٹھا کر اسے گاؤں سے رخصت کردیا- وہ لوگ اس بات پر بہت خوش تھے کہ انہوں نے اس کی بے ایمانی پر اسے بہت اچھی سزا دی ہے- مگر جب شام ہوئی تو اس کمہار کو جس کا وہ گدھا تھا اور جس پر بے ایمان چرواہے کو سوار کرا کے گاؤں سے نکالا گیا تھا، خیال آیا کہ وہ چرواہا تو اس کا گدھا بھی لے گیا ہے، تو وہ روتا پیٹتا گاؤں کے نمبر دار کے پاس پہنچا- کمہار کی داستان سنکر نمبردارگاؤں والوں کی سادگی پر بہت ہنسا اور پھر اس نے اپنے پاس سے اس کمہار کو گدھے کی قیمت ادا کر دی تھی-
بہرحال اس کے بعد گاؤں والوں نے کوئی دوسرا چرواہا نہیں رکھا تھا مگر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ سعید اس کام کے لیے آمادہ ہے تو وہ جھٹ راضی ہوگئے- کیونکہ انھیں سعید کی ایمانداری پر پورا پورا بھروسہ تھا-سعید بہت محنتی لڑکا تھا- وہ صبح سویرے اٹھ کر نماز سے فارغ ہو کر اپنے کھانے پینے کے لیے کچھ پکاتا پھر سورج کے نکلتے ہی وہ تمام گھروں سے جانوروں کو اکٹھا کرتا اورانہیں ایک لمبی سی چھڑی سے ہنکاتا ہوا جنگل کی سمت روانہ ہوجاتا- وہ فی جانور ہر گھر سے دو روپیہ ماہانہ وصول کرتاتھا- اس کا ارادہ تھا کہ جب کچھ پیسے جمع ہو جائیں گے تو وہ بھی گاؤں میں کچھ زمین خرید کر سبزیوں کی کاشت شروع کردے گا-
____________
تمام بھیڑ بکریاں گھاس سے بھرے ہوئے میدان میں بیٹھی آنکھیں بند کیے جگالی میں مصروف تھیں- ان سے ذرا فاصلے پر ایک بڑے سے پتھر پر سعید بیٹھا ہوا ان بھیڑ بکریوں کی طرف دیکھ رہا تھا- اچانک ان میں سے دو بکرے کسی بات پر ناراض ہو کر اچھل کر کھڑے ہوگئے اور ایک دوسرے کوٹکریں مارنے لگے- سعید نے انھیں جا کر ایک دوسرے سے الگ کیا- ایک بکرا کچھ شریف سا معلوم دیتا تھا- وہ سعید کی مداخلت پر چپ چاپ ایک طرف کو جا کر بیٹھ گیا مگر دوسرے بکرے نے ذرا پیچھے ہٹ کر ایک بھرپور ٹکر سعید کے جڑدی- سعید پیچھے کی جانب گرتے گرتے بچا- اسے بڑے زورکا غصّہ آ گیا تھا- اس نے بکرے کا کان پکڑ کر اس کے منہ پر ایک تھپڑ لگایا- بکرا میں میں کرنے لگا- سعید نے اس کاکان اپنی گرفت سے آزاد کر دیا اور اسے خونخوار نظروں سے گھورنے لگا- اچانک وہ چونک پڑا- اس کے کانوں میں ایک ہلکے سے دھماکے کی آواز آء اور پھر کسی جانور کے زورزور سے چیخنے کی آوازیں بھی آنے لگیں-سعید یہ آوازیں سنکر بے حد حیرت زدہ ہو گیا تھا- اس کی نظر جنگل کی سمت لگی ہوئی تھیں جو اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا- اس نے ایک لمحہ کے لیے کچھ سوچا پھر وہ جنگل کی طرف بھاگنے لگا- کیونکہ چیخنے اور چلانے کی آوازیں جنگل میں سے ہی آرہی تھیں-
جنگل میں داخل ہوتے ہی اس کے حرکت کرتے ہوئے قدم ایک دم ساکت ہوگئے- وہ حیرت اور خوف بھری نظروں سے اس بن مانس کو دیکھ رہا تھا جو ایک زمین سے اکھڑے ہوئے درخت کے نیچے دب کر درد کے مارے چلّا رہا تھا- درخت کا تنااس کے سینے پر تھا اور اس طرح اس کے دونوں ہاتھ بھی دب گئے تھے- جب وہ مانس چلّاتا تھا تو اس کے لمبے لمبے سفید دانت چمکنے لگتے تھے- سعید اس کے کچھ اور قریب ہوگیا- اچانک ہی بن مانس کی نظر سعید پر پڑ گئی- اس نے چیخنا بند کر دیا اور سعید کی طرف التجا بھری نظروں سے دیکھنے لگا- اس کے منہ سے کراہیں بدستور جاری تھیں-سعید کو بن مانس پر بہت ترس آ رہا تھا- اگر بن مانس کے دونوں ہاتھ آزاد ہوتے تو وہ درخت کو بڑی آسانی سے ایک طرف ہٹا دیتا کیونکہ وہ بہت بڑا اور طاقتور تھا- لیکن ہاتھ آزادنہ ہونے کی بنا پر وہ مجبور ہوگیا تھا- سعید نے سوچا کہ اگروہ کوشش کرے تو اس درخت کو بن مانس کے اوپر سے دھکیل کر دوسری طرف گرا سکتا ہے- مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ آزاد ہو کر بن مانس اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا-
وہ شش و پنج میں مبتلا ہو گیا- وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ وہ ہی بکرا جس کا کان پکڑ کر اس نے تھپڑ مارا تھا، سرجھکائے دوڑتا ہوا اس کے پیچھے آ رہا تھا- سعید ابھی یہ ہی سوچ رہا تھا کہ بن مانس کی مدد کرے یا نہ کرے کہ بکرے کی طاقتور ٹکر اس کی کمر پر لگی- سعید کے پاؤں زمین سے اکھڑ گئے- وہ ہلکی پھلکی گیند کی طرح اچھل کر سیدھا بن مانس کے اوپر جا کر پڑا تھا- اس کا منہ بن مانس کے بالوں بھرے سینے میں دھنس گیا اور الٹے ہاتھ کی کہنی بن مانس کے کھلے ہوئے منہ میں جا گھسی- بکرے نے فخریہ انداز میں گردن اکڑائی دو چار دفعہ زمین پر اگلے پاؤں مارے- پھر ایک الٹی قلا بازی کھا کر اپنے ریوڑ کی طرف بھاگ گیا-
____________
سعید کے پورے جسم میں خوف و دہشت کی ایک لہر دوڑ گئی تھی- اس نے بجلی کی سی تیزی سے بن مانس کے منہ سے کہنی نکالی اور زمین پر دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی ٹکا کر دوسری طرف لڑھک گیا اور زمین پر بیٹھ کر بن مانس کی طرف دیکھنے لگا- بن مانس اس کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا- تھوڑی دیر بعد اس نے پھر تکلیف سے چیخناشروع کردیا-
سعید نے سوچا کہ اگر بن مانس اسے نقصان پہنچانا چاہتا تو اس کی کہنی اسی وقت اپنے تیز دانتوں سے چبا ڈالتا جب وہ بکرے کی زبردست ٹکر کی وجہ سے اس کے اوپر گرا تھا اور اس کی کہنی بن مانس کے منہ میں چلی گئی تھی- یہ سوچ کر اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ بن مانس کی ضرور مدد کرے گا-
وہ اپنی جگہ سے اٹھا- اس نے درخت کی طرف دیکھا- وہ ایک گھنا درخت تھا اور بارش و طوفان کی وجہ سے اس کی جڑکے قریب سے مٹی ہٹ گئی تھی جس کی بنا پر وہ جڑ سے اکھڑ کر بن مانس پر گر پڑا تھا- سعید نے درخت کی جڑ کے نیچے اپنے دونوں ہاتھ پھنسائے اور سانس روک کر اسے اٹھانے کے لیے زور لگانے لگا- تھوڑی سی کوشش کے بعداس نے درخت کو تھوڑا سا بلند کر کے بن مانس کے سر پرسے گزار کے اسے دوسری طرف زمین پر گرادیا- درخت کے ہٹتے ہی بن مانس نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی- مگروہ تھوڑا ہی سا اٹھا تھا کہ پھر جھٹکا کھا کر زمین پر گر پڑا-شاید اس کے سینے میں چوٹ لگ گئی تھی-
سعید کا ڈر اب دور ہو گیا تھا- وہ بن مانس کے قریب بیٹھ گیااور دھیرے دھیرے اس کے سینے کو سہلانے لگا- بن مانس کے جسم پر بڑے بڑے کھردرے بال تھے اور اس کے جسم سے عجیب سی بو اٹھ کر سعید کے نتھنوں میں داخل ہو رہی تھی- تھوڑی دیر بعد بن مانس کی حالت کچھ درست ہو گئی تھی- وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور تشکر آمیز نظروں سے سعید کودیکھنے لگا- پھر اس نے اپنے بالوں بھرا ہاتھ سعید کے شانے پر رکھ دیا جیسے وہ سعید کی اس مدد اور مہربانی کا شکر اداکر رہا ہو-سعید نے ہولے سے اس کا ہاتھ تھپتھپایا اور بولا- "اچھا میرے دوست اب مجھے اجازت دو"-
پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور واپس چل دیا- بن مانس کی نظریں اس کا تعاقب کر رہی تھیں- شام ہونے والی تھی اور سعید اس فکرمیں تھا کہ سورج ڈوبنے سے پہلے تمام جانوروں کو لے کرگاؤں پہنچ جائے- بھیڑ بکریوں کے قریب پہنچ کر اس نے ایک جگہ کھڑے ہو کر ہوا میں اپنی چھڑی گھما کر منہ سے ایک زوردار سیٹی بجائے- وہ جانور جو ادھر ادھر چہل قدمی کر رہے تھے، سیٹی کی آواز سنتے ہی اپنے دوسرے ساتھیوں سے آکرمل گئے اور پھر سعید انھیں ہنکاتے ہوئے گاؤں کی طرف چل دیا-
دوسرے دن جب وہ ان جانوروں کو دوبارہ لے کر اس میدان میں آیا تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ وہ ہی کل والا بن مانس ایک پتھر پر بیٹھا ہوا ہے - سعید اپنی جگہ رک گیا- اب اسے بن مانس سی خوف محسوس ہونے لگاتھا- وہ بن مانس اس پتھر پر بیٹھا ہوا کسی دیو کی مانند نظر آرہا تھا- سعید نے سوچا کہ یہ جانور کتنا خوفناک ہے- نہ جانے یہ یہاں کیوں بیٹھا ہے-
سعید کو رکتا دیکھ کر وہ بن مانس آہستگی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنے دونوں لمبے لمبے بازو بڑے خوفناک انداز میں جھلاتے ہوئے سعید کی طرف بڑھا- سعید کو مارے خوف کے پسینہ آگیا- اس نے سوچا کہ وہ وہاں ے بھاگ جائے مگرباوجود کوشش کے اپنے قدموں کو حرکت نہ دے سکا- بس ایساہی معلوم دیا تھا جیسے اس کے پاؤں من من کے ہوگئے ہوں-کل جب وہ بن مانس کے اوپر سے درخت ہٹا رہا تھا تو نہ جانے وہ کونسا جذبہ تھا جس نے اس کا خوف دور کردیا تھا- مگراب وہ بے حد خوفزدہ نظر آنے لگا تھا- تھوڑی دیر بعد بن مانس اسکے قریب پہنچ گیا- اس کی چمکدار آنکھیں سعید کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں اور سفید دانت باہر کی طرف نکلے ہوئے تھے- تمام بھیڑ بکریاں اس دیو کو دیکھ کر ادھر ادھر بھاگ گئی تھیں-
بن مانس سعید کے پاس آکر رک گیا- پھر اس نے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا- اس پر ایک سرخ و سفید سیب رکھا ہوا تھا- سعید نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ بڑھا کر وہ سیب اٹھا لیا- بن مانس خوش ہو کر دانت نکالنے لگا- اب ان میں دوستی ہوگئی تھی-پھر بن مانس ہر روز سعید سے اس جگہ ملنے لگا- بھیڑ بکریاں ادھر ادھر گھاس چرتی پھرتی تھیں اور سعید بن مانس کے ساتھ جنگل میں گھومتا پھرتا تھا- اب اسے بن مانس سے ذرّہ بھر بھی خوف محسوس نہیں ہوتا تھا-

Browse More Moral Stories