Laltain Ka Tehwar - Article No. 1887

Laltain Ka Tehwar

لالٹین کا تہوار - تحریر نمبر 1887

یہ عام سا واقعہ ایک بڑے قومی تہوار کی شکل اختیار کر گیا جو چین میں ہر نئے سال کے پندرہویں دن یعنی فروری کے دوسرے ہفتے آج تک بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے

پیر 1 فروری 2021

تسنیم جعفری
یہ تقریباً دو ہزار سال پہلے کی بات ہے جب مغربی چین میں ہان سلطنت قائم تھی۔شہنشاہ ہان وودی کا ایک وزیر تھا جو اپنی رحم دلی اور خوش طبعی کی وجہ سے بہت مقبول تھا اس کا نام ڈونگ فینگ شو تھا۔ایک بار سردیوں کے موسم میں کئی دن لگاتار برف باری ہونے کے بعد جب آسمان کھلا تو ڈونگ فینگ شاہی باغ کی سیر کو نکلا جہاں آلو بخارے کے خوبصورت پھول کھلے ہوئے تھے۔
ڈونگ فینگ وہ پھول چننے لگا کیونکہ وہ شہنشاہ کی مصوری میں کام آسکتے تھے۔وہاں اس نے دیکھا کہ باغ کے کنویں پر ایک کنیز کھڑی رو رہی ہے وہ کنویں میں کودنا ہی چاہتی تھی کہ وزیر وہاں پہنچ گیا اور اس کو بچا لیا پھر اس نے کنیز سے خودکشی کرنے کی وجہ پوچھی۔کنیز جس کا نام لالٹین تھا اس نے بتایا کہ ”میرے ماں باپ اور ایک چھوٹی بہن ہے جو دور ایک گاؤں میں رہتے ہیں میں جب سے کنیز منتخب ہو کر یہاں محل میں آئی ہوں اپنے گھر والوں سے نہیں ملی۔

(جاری ہے)

ہر سال بہار کے تہوار پر میں ان کو بہت یاد کرتی ہوں میں سوچتی ہوں کہ اگر میں اپنے ماں باپ سے مل نہیں سکتی اور ان کی خدمت نہیں کر سکتی تو ایسے جینے کا کیا فائدہ اس سے تو بہتر ہے کہ میں مر ہی جاؤں۔“یہ کہہ کر لڑکی نے پھر کنویں میں چھلانگ لگانے کی کوشش کی لیکن ڈونگ فینگ شو نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔اسے لڑکی کی کہانی سن کر بہت دکھ ہوا تھا اور ہمدردی محسوس ہوئی۔

”دیکھو لڑکی!اس طرح اپنی جان دینے سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں تمہارے گھر والوں سے ضرور ملاؤں گا میں کرتا ہوں کچھ بندوبست۔“
اگلے دن ڈونگ فینگ شو نے ایک دست شناس نجومی کا روپ دھارا اور شہر کے چوک پر دکان لگا کر بیٹھ گیا۔وہ اپنے پاس قسمت کا حال جاننے کے لئے آنے والے ہر شخص کو ایک ہی بات بتانے لگا کہ:”نئے سال کے تہوار کے ٹھیک سولہ دن بعد چھانگ آن شہر کو زبردست آگ اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
“تھوڑی ہی دیر میں سارے شہر میں خوف و ہراس اور افراتفری پھیل گئی ہر کوئی اس کا حل جاننے کے لئے بے چین تھا۔”ایک پری ہے جو بڑے غصے میں ہے اور نئے سال کے سولہویں دن شہر کو آگ لگا دینا چاہتی ہے۔“اس نے مزید بتایا۔ ۔جلد ہی نجومی کی یہ پیش گوئی شہنشاہ کے محل تک بھی پہنچ گئی اور اس نے فوراً ڈونگ فینگ شو کو حاضر ہونے کو کہا اور سارا ماجرا پوچھا۔

”حضور والا کل رات میں نے بہت بُرا خواب دیکھا میں نے دیکھا کہ ایک پری غصے میں شہر کو آگ لگا رہی ہے کیونکہ کسی نے اسے ڈمپلنگ (میٹھے سموسے)کھانے کو نہیں دیئے تھے۔“یہ سن کر شہنشاہ کا رنگ زرد پڑ گیا۔”حضور والا!میرا خیال ہے کہ آپ کنیز لالٹین کو حکم دیں کہ وہ نئے سال کے پندرہویں دن یہ میٹھے سموسے بنا کر پری کی نظر کرے اور ہمیں خدا کو خوش کرنے کے لئے صدقہ و قربانی دینی چاہئے اور شہر کے ہر شخص کو ایسا ہی کرنا چاہئے کہ میٹھے سموسے بنا کر بانٹے اور شمع روشن کرے۔
اس کے علاوہ ہمیں سارے شہر میں شمعیں روشن کرنی چاہئیں تاکہ بلائیں دور رہیں،آتش بازی چلانی چاہئے اور دور نزدیک سب گاؤں کے لوگوں کو یہاں بلانا چاہئے تاکہ وہ بھی اس نیاز میں شریک ہو سکیں۔ “شہنشاہ اس مشورے سے بہت خوش ہوا اور جو بھی ڈونگ فینگ نے کہا وہ سب کروانے کا حکم دے دیا۔
چینی نئے سال کے پندرہویں دن چھانگ آن شہر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا،بہت گہما گہمی اور میلے کا سما تھا،لوگ ٹولیوں کی صورت میں اِدھر اُدھر گھوم پھر رہے تھے،شہر کی روشنیاں دیکھ رہے تھے اور میٹھے سموسے کھا رہے تھے،دور دراز کے گاؤں سے بھی لوگ اس شہر کی سیر کرنے آئے تھے جہاں کوئی عام آدمی آنے کی سوچ بھی نہیں سکتا تھا،انہیں لوگوں میں سے ایک لالٹین کے ماں باپ اور بہن بھی تھے جب انہوں نے بڑی بڑی شاہی شمعوں پر لالٹین کا نام لکھا دیکھا تو خوشی سے ”لالٹین،لالٹین“ چلانے لگے،اس طرح انہوں نے لالٹین کو با آسانی ڈھونڈ لیا اور جلد ہی اپنی بیٹی سے آن ملے۔
وہ دن اور رات بخیریت گزر گیا اور کسی پری نے شہر کو آگ نہیں لگائی،ہو سکتا ہے کہ وہ میٹھے سموسے کھانے میں مصروف ہو یا شہر کی روشنیاں دیکھ کر دور رہی․․․․!لوگوں نے یہی سوچا تھا۔
شہنشاہ لالٹین کے اس اقدام سے بے حد خوش ہوا اور اس نے یہ اعلان کر دیا کہ ہر نئے سال کے پندرہویں دن یہ تہوار منایا جائے گا کہ لوگ میٹھے سموسے کھائیں اور خدا کو خوش کرنے کے لئے شمعیں روشن کریں،بلاؤں کو دور رکھنے کے لئے شہر کو روشنیوں سے سجایا جائے،آتش بازی چلائی جائے اور لوگ دور دراز گاؤں سے شہر کی سیر کرنے بھی آسکیں گے۔
لالٹین نے اتنے مزیدار ڈمپلنگ بنائے تھے کہ عوام نے اس تہوار کو لالٹین کے نام سے”لالٹین کا تہوار“ رکھ دیا اور چونکہ شمعوں پر لالٹین کا نام لکھا گیا تھا اس لئے ان شمعوں کا نام بھی ”لالٹین“ رکھ دیا گیا پہلے لوگ یہ لالٹینیں رنگ برنگے کاغذوں سے اپنے ہاتھوں سے بنایا کرتے تھے اس کے علاوہ طرح طرح کے پھول اور جانوروں کی شکلیں بنا کر بھی گھروں کو سجایا کرتے تھے۔
چینیوں کا یہ آرٹ دنیا بھر میں مقبول رہا ہے۔اس دن لوگ خوب گھومتے پھرتے ہیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ملتے ہیں،صحت اور سلامتی کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں۔اس طرح یہ عام سا واقعہ ایک بڑے قومی تہوار کی شکل اختیار کر گیا جو چین میں ہر نئے سال کے پندرہویں دن یعنی فروری کے دوسرے ہفتے آج تک بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔

Browse More Moral Stories