Lomri Ki Akhri Chalaki - Article No. 1832
لومڑی کی آخری چالاکی - تحریر نمبر 1832
کسی کی بھی سمجھ میں اس کا یہ بے تکا جواب نہ آیا لیکن یہ الفاظ ایک ایسے جانور کے منہ سے نکلے تھے جس سے وہ احمقانہ جواب کی توقع نہیں رکھتے تھے
منگل 3 نومبر 2020
(جاری ہے)
جب وہ ان واقعات پر نظر دوڑاتی جن کی وجہ سے اسے یہ مقام حاصل ہواتھا تو سر پیٹ کر رہ جاتی۔اسے ان میں عقل کا عمل دخل کم،موقعہ سے بروقت فائدہ اٹھانا اور دوسروں کا احمقانہ رویہ زیادہ نظر آتا۔مثلاً وہ واقعہ جس میں اس نے شیر اور بھیڑیئے کے ساتھ مل کر تین شکار کیے اور جب شیر نے پوچھا کہ تقسیم کس طرح کی جائے․․․․؟اور بھیڑیئے نے پہلے جواب دے کر اپنی جان گنوائی تھی تو لومڑی نے فوراً سبق سیکھا اور ”تینوں شکار شیر کے ہیں“ کہہ کر عقل مندی کی سند حاصل کی،حالانکہ اگر یہ سوال شیرپہلے اس سے پوچھ لیتا تو وہ بھی بھیڑئیے والا جواب دیتی ۔
اسی طرح جب ایک دن اس نے ایک کوے کو پنیر کا ٹکڑا منہ میں دبائے دیکھا تو اس کا جی للچایا۔یہاں اس نے محض کوے کی خوشامد ہی کی تھی۔اب وہ کوا ہی اتنا بیوقوف تھا کہ ذراسی تعریف پر پھولے نہیں سمایا اور پنیر کا ٹکڑا لومڑی نے مزے لے لے کر کھایا۔چند واقعات ایسے بھی تھے جن میں اس نے منہ کی کھائی لیکن وہاں کسی جانور کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کی عزت بنی رہی۔جب وہ ایک دن انگور کے باغ میں گئی اور پکے ہوئے انگوروں کو دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا تو اس نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح انگور حاصل کر سکے لیکن ناکام رہی۔بالآخر اپنی جھینپ مٹانے کے لئے یہ کہتے ہوئے رخصت ہو گئی کہ”انگور کھٹے ہیں“۔حالانکہ وہ انگور ذرا بھی کھٹے نہ تھے بلکہ خوب پکے ہوئے میٹھے انگور تھے۔
اب لومڑی تنگ آچکی تھی۔وہ سارا دن بھوکی ٹیلے پر بیٹھی رہی۔رات ہوئی تو تمام جانور وہاں جمع ہو گئے۔ایک طرف شیر بھی بیٹھا تھا۔سب خوش گپیاں کر رہے تھے۔چاندنی رات تھی،پورے چاند نے آسمان کو روشن کر رکھا تھا۔بادلوں کی ٹکڑیاں اڑی چلی جا رہی تھیں۔بھیڑیئے کچھ بے چین تھے وہ بار بار گردن اوپر کرکے بھیانک آوازیں نکالتے۔شیر ناراض ہو کر انہیں گھورتا لیکن اس کا پیٹ بھرا ہوا تھا لہٰذا نظر انداز کر دیتا۔
باتوں کے درمیان جانوروں میں بحث چھڑ گئی کہ چاند حرکت کر رہا ہے یا بادل سب آسمان کی طرف نظر اٹھائے اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔کچھ کا خیال تھا کہ چاند حرکت کر رہا ہے جبکہ کچھ جانور بادل کے حق میں تھے۔ ان کی بحث بڑھتے بڑھتے جھگڑے میں تبدیل ہونے لگی تو شیر کو غصہ آگیا۔وہ زور سے وہاڑا سب کو سانپ سونگھ گیا۔
”تم لوگ کون ہوتے ہو فیصلہ دینے والے یہ تو دانا کا کام ہے۔“سب کی نظریں لومڑی کی طرف گھوم گئیں۔
ایک بار پھر گیند لومڑی کے کورٹ میں آگری تھی،اس کا غصے سے برا حال تھا۔اسے بالکل پتا نہ تھا کہ کیا چیز حرکت کر رہی ہے۔پھر اسے خیال آیا یہ اچھا موقع ہے ایسا جواب دیا جائے جو احمقانہ ہو تاکہ آئندہ کے لئے اس کی جان چھوٹ جائے۔
وہ بولی”بھائیو اور بہنوں․․․․!اگر چاند رکا ہوا ہے تو بادل چل رہے ہیں اور اگر بادل رکے ہوئے ہیں تو چاند چل رہا ہے۔“
کسی کی بھی سمجھ میں اس کا یہ بے تکا جواب نہ آیا لیکن یہ الفاظ ایک ایسے جانور کے منہ سے نکلے تھے جس سے وہ احمقانہ جواب کی توقع نہیں رکھتے تھے چنانچہ سب نے واہ واہ شروع کر دی ان میں شیر بھی شامل تھا۔لومڑی خاموشی سے اٹھی اور نا معلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئی۔
Browse More Moral Stories
بونے کے جوتے
Bone K Joote
نافرمان چُن مُن
Nafarman Chun Mun
اشرفیوں کی تھیلی
Ashrafion Ki Thaili
ہمت والا
Himmat Wala
ظالم بھیڑئیے کا انجام
Zalim Bheriye Ka Anjaam
قابلِ معافی
Qabil E Maffi
Urdu Jokes
قیمت
Qeemat
ڈاکٹر
Doctor
استاد شاگرد سے
ustaad shagird se
گاہک دکاندار سے
gahak dukandaar se
گاہک درزی سے
Gahik Darzi Se
دودھ والا
Doodh Wala
Urdu Paheliyan
جس شے کو جھولی میں ڈالے
jis shai ko jholi me daly
پیٹ جوہنی انگلی سے دبایا
pai jonhi ungli se dabaya
ٹانگیں چار مگر بے کار
taangen chaar magar bekar
کوئی بادل اور نہ سایا
koi badal or na saya
جو بھی اس پر آنکھ جمائے
jo bhi us par aankh jamaye
یا وہ آتا ہے یا وہ جاتا ہے
ya wo aata hai ya wo jata hai