Maila Aur Bail - Article No. 984
میلا اور بیل - تحریر نمبر 984
ایک دن دوست سہراب بابومجھ سے کہنے لگے کہ ان کے ساتھ نواب صاحب کی ریاست چلوں ۔ ریاست میں ہرسال بسنت بہارکامیلا لگتا ہے ۔ میں نے مصروفیت کا بہانا کیا، توخفاہو کربولے : میاں ! تم جوجنگلوں میں جانوروں کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہو، کبھی انسانوں کے ساتھ بھی وقت گزارلیا کرو۔
جمعرات 26 جنوری 2017
ایک دن دوست سہراب بابومجھ سے کہنے لگے کہ ان کے ساتھ نواب صاحب کی ریاست چلوں ۔ ریاست میں ہرسال بسنت بہارکامیلا لگتا ہے ۔ میں نے مصروفیت کا بہانا کیا، توخفاہو کربولے : میاں ! تم جوجنگلوں میں جانوروں کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہو، کبھی انسانوں کے ساتھ بھی وقت گزارلیا کرو۔
پھر میلے کی دل چسپیوں اور رنگینیوں کی ایسی تصویر کھینچی کہ مجھے ہاں کرتے ہی بنی ۔ ہم ان کی موٹر گاڑی میں بیٹھ کر نواب صاحب کی ریاست جاپہنچے ۔
نواب صاحب کی حویلی میں زور وشور سے میلے کی تیاری ہورہی تھی ۔ پکوان بن رہے تھے ۔ مٹھائیاں تیار ہورہی تھیں ۔ کپڑے سل رہے تھے ۔ ایک دن اور رات ان تیاریوں میں ہی گزرگئے ۔ دوسری صبح سب لوگ سج دھج کرمیلے کے میدان کی طرف روانہ ہوئے ۔
(جاری ہے)
نواب صاحب اور ان کے مصاحب موٹر گاڑیوں اور ملازمین وغیرہ بیل گاڑیوں اور یکوں پرسوار تھے ۔
ایک بڑے میدان کے درمیان میں ایک اونچے چبوترے پر نشستیں لگی تھیں ۔ جہاں نواب صاحب اپنے مصاحبین کے ساتھ بیٹھ گئے۔ یہاں بیلوں کی دوڑشروع نہ ہوئی تو سہراب بابو بولے : دوڑ نہ جانے کب شروع ہو، آؤ اتنی دیر میں سرکس دیکھ لیتے ہیں ۔
ہم چبوترے سے اُتر کر سرکس والے میدان میں پہنچ گئے ۔ یہاں لوگ ایک بڑے سے دائرے کی صورت میں کھڑے تھے ۔ دائرے کے اندر بازی گراپنے کرتب دکھارہے تھے ۔ کچھ بازی گرلوہے کے ایک گول کڑے سے ، جس سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے ۔ دوسری طرف کودرہے تھے ۔ ایک طرف ایک طرف ایک گول مٹول مسخرہ مختلف کرتب دکھاکر لوگوں کو ہنسارہا تھا۔ ایک پہیے والی سائیکل پہ سوار بازی گرکود دیکھ کرلوگ تیالیاں بجا کرداد دے رہے تھے ۔
ہم سرکس کے تماشوں میں گم تھے کہ ایک دم شور مچ گیا ۔ لوگ افرتفری میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے ۔ ہم پنڈال سے نکلے تو پتا چلا کہ دوڑ کے میدان سے ایک بیل بھاگ نکلا ہے ۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ بپھرا ہوا بیل ادھر ہی بھاگا چلاآرہا ہے ۔ بھگدر کی وجہ سے کئی لوگ اس کے کھروں تلے کچلے گئے ۔ پلک جھپکتے ہی بیل ہمارے قریب آپہنچا۔ ہم نے اس سے بچنے کے لیے ادھر اُدھر چھلانگیں لگادیں۔ بیل کے گلے میں بندھی رسی اُڑتی ہوئی میرے ہاتھ سے لپیٹ گئی اور گرہ سی پڑگئی ۔ مجھے زور کا جھٹکا لگااور میں بیل کے ساتھ کھنچتا چلا گیا۔ بیل مجھے کھینچے لیے جارہا تھا اور میں زور لگا کر اسے روک رہا تھا۔ اتنے میں سامنے ایک درخت آگیا ۔ میں بھاگتے بھاگتے تھوڑا بائیں طرف ہوا تودرخت ہم دونوں کے درمیان آگیا اور رسہ درخت کے تنے سے لپٹ گیا۔ یوں بیل رک گیا ۔ پیچھے بیل کامالک بھی بھاگاآرہا تھا۔ اس نے بیل پر قابو پالیا۔ لوگوں کو جھمگٹا وہاں لگ گیا ۔ اتنے میں نواب صاحب بھی اپنے مصاحبوں کے ساتھ وہاں آگئے۔ بیل کو قابو میں کرنے کاسن کر بہت خوش ہوئے ۔ گلے میں قیمتی ہار اور ہاتھوں سے ہیرے کی انگوٹھیاں اُتار کر بطور انعام مجھے دنیا چاہیں ، میں شرمندہ ساہوگیا۔ سچ تو یہ ہے کہ رسی اتفاقاََ میرے ہاتھ سے لپٹ گئی تھی ۔ اس میں میری کوئی بہادری نہ تھی ۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا، مگر سہراب بابو نے میرا ہاتھ دبا کرمجھے چپ کرادیا۔ بولے : انعام لینے سے انکار نہیں کرتے ، ورنہ نواب صاحب ناراض ہوجائیں گے ۔ پھرخود ہی آگے بڑھ کر ہار اور انگوٹھیاں نواب صاحب سے لیں ۔ ہار تو میرے گلے میں ڈال دیااور انگوٹھیاں اپنی جیب میں رکھ لیں۔ ہم میل سے واپس آگئے ۔ دو دن بعد ہماری واپسی ہوئی ۔ انگوٹھیوں کے بارے میں نہ میں نے کچھ پوچھا، نہ سہراب بابو نے کچھ کہا ۔
سنا ہے وہ انگوٹھیاں بیچ کر انھوں نے نئی موٹر کار خریدلی ہے ۔ واللہ علم ! میری تو اس واقعے کے بعد ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔
Browse More Moral Stories
ایک عجیب معاہدہ
Aik Ajeeb Muahida
زینب اور آسٹریلین طوطا
Zainab Aur Australian Tota
دادا کے کھیت میں
Dada Ke Khait Mein
خواب کا اثر
Khawab Ka Asar
ایک حیرت انگیز مخلوق
Aik Herat Angaiz Makhlooq
تیرھویں کرسی
Tairhvin Kursi
Urdu Jokes
پانی کے اندر
paani ke andar
پروفیسر
professor
ماں
Maa
مریض ڈاکٹر سے
mareez doctor se
ساجد نوید سے
Sajid naveed se
ڈاکٹر
Doctor
Urdu Paheliyan
دھرتی سے نکلا اک بالک
dharti se nikla ek balak
بھاگا بھاگا نیچے جائے
bhaga bhaga neeche jaye
ہاتھ میں پکڑے اور مروڑے
hath ma pakra aur marody
دریا کوہ سمندر دیکھے
darya kohe samandar dekhe
اک لمبے کا سنو افسانہ
ek lambay ka suno afsana
اک مپرزہ جو لے کر آیا
aik purza jo lay kar aya