Main Hoon Mars - Article No. 1477

Main Hoon Mars

میں ہوں مریخ - تحریر نمبر 1477

میں مریخ ہوں۔آپ لوگ،انسان ،اُردو میں مجھے مریخ،انگریزی میںMars (مارس)اور ہندی میں”منگل “کہتے ہیں ۔یقینا،دوسری زبانوں میں بھی میرے کئی نام ہیں۔آپ مجھے دن کے وقت، سورج کی روشنی میں نہیں دیکھ سکتے۔البتہ رات کے وقت میں آسمان پر ایک سرخ ستارے کی طرح دکھائی دیتا ہوں،مگر میں کوئی ستارہ ہر گز نہیں ہوں۔

ہفتہ 20 جولائی 2019

علیم احمد
میں مریخ ہوں۔آپ لوگ،انسان ،اُردو میں مجھے مریخ،انگریزی میںMars (مارس)اور ہندی میں”منگل “کہتے ہیں ۔یقینا،دوسری زبانوں میں بھی میرے کئی نام ہیں۔آپ مجھے دن کے وقت، سورج کی روشنی میں نہیں دیکھ سکتے۔البتہ رات کے وقت میں آسمان پر ایک سرخ ستارے کی طرح دکھائی دیتا ہوں،مگر میں کوئی ستارہ ہر گز نہیں ہوں۔

میں تو ایک سیارہ ہوں:بالکل اسی طرح جیسے میری بہن ،یعنی”زمین“ایک سیارہ ہے ،جس پر آپ لوگ رہتے ہیں۔میں ہر وقت سورج کے گرد بہت تیزی سے چکر لگاتا رہتا ہوں اور ہر سیکنڈ میں24 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر لیتا ہوں ۔ایسے میں میرے لئے کسی ایک جگہ ٹھہر کر بات کرنا ممکن ہی نہ تھا۔
میں ایک سیارہ ہوں ،مگر آپ انسان مجھے نہ جانے کیا کیا سمجھتے رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

مثلاً آج سے ہزاروں سال پہلے کے انسان نے جب میری سرخ روشنی دیکھی تو مجھے”گرم مزاج“سمجھا۔وہ اس لیے کہ آگ بھی میرے ہی جیسی سرخ ہوتی ہے اور اس میں گرمی بھی ہوتی ہے ۔حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ میں بہت زیادہ ٹھنڈا ہوں۔میرا اوسطہ درجہ حرارت ،منفی23 درجے ڈگری سینٹی گریڈ ہے ،جبکہ میری سطح کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت بھی صفر(0) ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔
اتنے کم درجہ حرارت پرتو زمین پر پانی جم کربرف بن جاتاہے۔
ہزاروں سال پہلے کے انسانوں نے مجھے گرم مزاج اور”آگ کا نمائندہ “سمجھنے کے بعد ایک حرکت اور کر ڈالی:انہوں نے مجھے جنگ کا دیوتا”مارس“بنا دیا۔جبکہ میں کوئی دیوتانہیں،بلکہ قدرت کا بنا یا ہوا ایک معمولی ساوجود ہوں،لیکن تب کسی نے میری ایک نہ سنی۔مجھ پر دوسرا ظلم نجومیوں نے کیا۔
انہوں نے آسمان پر میرے چمک میں تبدیلی اور ستاروں کے درمیان میری بدلتی جگہوں کو لوگوں کی قسمتوں سے وابستہ کردیا۔میں اس وقت بھی اس ظلم کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا تھا،لیکن ایسا کرنے سے معذور رہا۔
وہ تو شکر ہے کہ فلکیات میں ترقی کی وجہ سے اب میری حقیقت کھل کر آپ سب لوگوں کے سامنے آچکی ہے۔نجومی آج بھی اپنی جہالت پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔وہ نہ صرف مجھے ،بلکہ دوسرے ستاروں اور سیاروں کو بنیاد بنا کر لوگوں کی قسمتوں کا حال بتاتے رہتے ہیں۔
آج موقع ملا ہے تو میں آپ سب کو خبر دار کر دینا چاہتا ہوں کہ نجومیوں کی باتوں میں ہر گزنہ آئیے گا۔ایسا کریں گے تو دنیا اور آخرت ،دونوں ہی خراب کریں گے۔
آج سے چار سو سال پہلے جب دور بین ایجاد ہوئی ،تو اٹلی کے سائنسداں”گیلیلیو گیلیلی“نے پہلی بار اپنی دور بین کی مدد سے میرا جائزہ لیا۔اس کے بعد جیسے جیسے دور بینیں طاقتور ہوتی گئیں،ویسے ویسے فلکیات کے ماہرین مجھے اور بھی زیادہ تفصیل سے ،اور بھی زیادہ بڑا کرکے دیکھنے کے قابل ہونے لگے۔
دور بینوں سے میری رنگت گہری سرخ نظر آتی تھی،اس لئے مجھے”سرخ سیارہ“ (Red Planet)بھی کہا جانے لگا۔
اور پھر ،آج سے تقریباً ڈیڑھ سوسال پہلے ،اٹلی کے ایک سائنسداں” گیووانی شیاپاریلی“نے اپنی دوربین سے تقریباً دس سال تک میرا مشاہدہ کرنے کے بعد میری سطح کا ایک تفصیلی نقشہ تیار کیا۔اس نقشے میں میری سطح پر چھوٹی بڑی نالیاں بھی دکھائی گئی تھیں جنہیں شیاپاریلی نے ”کینا لیز“(Canalis)کا نام دیا۔
ویسے تو اٹلی کی زبان میں کینا لیز کا مطلب صرف”نالیاں“ہوتا ہے لیکن جب یہ نام انگریزی جاننے والے ماہرین کے پاس پہنچا تو وہ اسے ”کینال سمجھے۔ اب چونکہ انگریزی میں کینال سے مراد ”نہر“ ہوتی ہے تو یہ شور مچنے لگا کہ مجھ پر (یعنی مریخ پر) بھی زمین جیسی نہریں موجود ہیں․․․․گویا مجھ پر بھی انسانوں جیسی ہی کوئی اور مخلوق آباد ہے جس نے یہ ”نہریں“تعمیر کی ہیں۔

کچھ عرصے بعد ،آج سے کوئی سوسال پہلے ،ایک شوقیہ امریکی ماہر فلکیات”پر سیول لوول“نے بھی میری سطح پر سینکڑوں نئی ”نہریں“دریافت کرنے کا اعلان کر دیا۔مگر لوول صاحب صرف یہیں پر نہیں رُکے بلکہ انہوں نے یہ یقین بھی ظاہر کر دیا کہ مجھ پر اسی طرح کے شہر آباد ہیں جیسے زمین پر ہوتے ہیں۔ اس اعلان پر کسی نے یقین کر لیا اورکسی نے شک کا اظہارکیا ۔
اگلے70 سال تک یہ بحث جاری رہی کہ مجھ پر واقعی کوئی ایسی مخلوق آبادہے جس نے ”نہریں“تعمیر کی ہیں یاپھر کچھ اور معاملہ ہے ۔بھولے لوگوں نے مجھ سے طرح طرح کی کہانیاں وابستہ کردیں۔
1976ء میں زمین سے بھیجے گئے دو خود کا رخلائی جہاز”وائکنگ اول“اور ”وائکنگ دوم“میری سطح پر اترے۔ان دونوں خلائی جہازوں نے میری سطح کی ہزاروں تصویریں کھینچنے کے علاوہ میری فضا(یعنی ہوا)اور مٹی کا بھی خاصا تفصیلی جائزہ لیا۔
تب سے لے کر آج تک انسانوں کے بنائے ہوئے درجنوں خود کارخلائی جہاز مجھ پر اُتر چکے ہیں ۔اس وقت جبکہ میں یہ آپ بیتی لکھ رہا ہوں،انسان خود مجھ تک نہیں پہنچ سکا ہے۔لیکن سنا ہے کہ زمین پر موجود کچھ ادارے آئندہ دس سے بیس سال کے دوران انسانوں کو مجھ تک پہنچانے کے منصوبے بنارہے ہیں اور کچھ اداروں نے تو مالدار لوگوں سے اس مقصد کے لیے رقم بھی جمع کرنا شروع کر دی ہے ۔
بہ خدا اس سارے کھیل میں میراکوئی قصور نہیں ۔میں تو وہی کا وہی ہوں،لیکن پیسہ کمانے کا یہ طریقہ غلط ہے۔
اب میں جلدی جلدی اپنے بارے میں کچھ اورمعلومات بھی دیتا چلوں۔میرا شمار”پتھریلے بونے“(Rocky Dwarfs)کہلانے والے سیاروں میں ہوتا ہے ۔ان میں سب سے پہلے ہمارا سب سے ننھا منا بھائی ”عطارد“ ہے جو سورج سے نزدیک ترین بھی ہے ۔پھر بہن ”زہرہ“ آتی ہے ۔
اس کے بعدمیری بڑی بہن ”زمین“ کا نمبر ہے جبکہ چوتھا مریخ یعنی کہ مابد ولت!
اپنے اور اپنے خاندان (یعنی نظام شمسی)کے بارے میں بتادوں کہ ہمارے گھرانے کے سر براہ ،یعنی قبلہ سورج صاحب عمر میں سب سے بڑے ہیں جو آج سے تقریباً پانچ ار ب سال پہلے وجود میں آئے تھے جن کے بنتے ہی خاندان کے باقی تمام ارکان بھی وجود میں آنے کے لئے تیار ہو چکے تھے۔
البتہ ہم تمام بہن بھائی( یعنی نظام شمسی کے تمام سیارے)حضور قبلہ ”سورج “صاحب کے تقریباً پچاس کروڑ سال بعد ،گیس کے انتہائی گرم گولوں کی شکل میں آئے۔یہ باتیں خود مجھے بھی ان انسانوں سے معلوم ہوئی ہیں جنہیں آپ ”ماہرین فلکیات “(Astronomers)کہتے ہیں۔
ہاں !تو میں یہ بتارہا تھا کہ میں آج سے تقریباً ساڑھے چار ارب سال پہلے وجود میں آیا اور یہ کہ اس وقت میں گیس کا انتہائی گرم گولا تھا ۔
لیکن تقریباً ایک ارب سال گزرنے کے بعد میں اچھا خاصا ٹھنڈا ہو گیا،اتنا ٹھنڈا کہ میری سطح جم کر ٹھوس چٹانوں کی شکل میں آگئی۔ تب سے لے کر آج تک میرے ساتھ مزید کیا ہوا اور مجھ پرکیا گزری ،اس بارے میں جاننے کے لئے ماہرین فلکیات اب تک کوششوں میں مصروف ہیں ۔جب وہ کچھ بتائیں تو میں بھی اس قابل ہو سکوں گاکہ آپ کو مزیدبتاسکوں ۔
اس وقت سورج سے میرا اوسط فاصلہ 22کروڑ 80لاکھ کلو میٹرہے :یعنی زمین کے مقابلے میں تقریباً آٹھ کروڑ کلو میٹر زیادہ۔
دوربین سے دیکھنے پر میں بہت بڑا ضرورنظر آتا ہوں لیکن میں میری جسامت زمین سے تقریباً آدھی ہے ۔اسی طرح مجھ میں کشش کی قوت بھی زمین کے مقابلے میں آدھی ہے۔یعنی اگر زمین پر آپ کو وزن100 پونڈ ہے ،تو میری سطح پر آپ کو وزن صرف50 پونڈرہ جائے گا۔
کشش کم ہونے کی وجہ سے مجھ پر ہوا کا دباؤ بھی بہت کم ہے ،جو زمین کے مقابلے میں صرف 0.6فیصد ہے ۔اور تو اور، زمین کی فضا( یعنی ہوا) میں سب سے زیادہ نائٹروجن گیس(78 فیصد) ،پھر آکسیجن گیس (21فیصد) اور پھر بہت ہی معمولی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت دوسری کئی گیسیں ہیں ۔
میرا معاملہ بالکل الُٹ ہے ۔ایک تو میری فضا ویسے ہی بہت ہلکی ہے ۔اوپر سے اس میں بھی95 فیصد کاربن ڈائی آکسائیدہے۔نائٹروجن اور آکسیجن تو بہت ہی معمولی مقدار میں ہیں ۔لہٰذا میرا مشورہ یہ ہے کہ اگرکبھی آپ مجھ سے ملنے تشریف لائیں تو اپنے ساتھ ڈھیر ساری آکسیجن کا بندوبست کرکے لائیے گا ورنہ میرے پاس آتے ہی آپ کا دم گھٹ جائے گا۔
میرا اور زمین کا ایک دن تقریباً یکساں ہے ۔
مطلب یہ کہ زمین پر ایک دن کی لمبائی 24گھنٹے ہوتی ہے جبکہ میرا ایک دن گھنٹے40 منٹ میں پورا ہوتاہے۔ اس کے باوجود، میرے اور زمین کے ”ایک سال“ میں بہت فرق ہے ۔زمین کا ایک سال365 دنوں کا ہوتاہے جبکہ مجھے ایک سال پورا کرنے میں687 دن لگ جاتے ہیں ۔مگر دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ آپ لوگوں نے میرے ایک دن کوSol (سول) کا نام دیا ہواہے۔مجھے نہیں پتہ کہ ایسا کیوں ہے ،لیکن سننے میں مجھے یہ ”سال“ جیسا ہی لگتاہے۔
لکھنے کو تو میں اپنے بارے میں اور بھی بہت کچھ بہت ساری تفصیل کے ساتھ لکھ سکتاہوں۔ لیکن بھئی دوسروں کو بھی تو کچھ کہنے کا حق پہنچتا ہے ناں !اس لئے میں اپنی یہ آپ بیتی یہیں پر ختم کرتاہوں۔

Browse More Moral Stories