Makkar Pari - Article No. 1647

Makkar Pari

مکّار پری (آخری قسط)تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1647

جب وہ محل پہنچے تو بادشاہ سو رہا تھا مگر شہزادی اپنی کمرے میں بڑی اداس بیٹھی تھی- اسے اپنی امی بری طرح یاد آ رہی تھیں- عمر کو دیکھ کر اسے بڑی حیرانی ہوئی- وہ جلدی سے بستر سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی-"عمر کیا ہوا؟

بدھ 29 جنوری 2020

صبح ہوئی تو عمر ناشتے سے فارغ ہو کر گھر سے نکل کھڑا ہوا- وہ زبیدہ کے محل کی طرف جا رہا تھا- جب وہ ان کے محل کے قریب پہنچا تو اس نے محل کے بڑے دروازے پر ایک بڑا سا قفل پڑا دیکھا- مگر اسے محل میں تو جانا نہیں تھا- اسے تو اس نانبائی کی دوکان تلاش کرناتھی جس کے پاس وہ لڑکا کام کرتا تھا اور جس کے متعلق اسے زبیدہ کی زبانی پتہ چلا تھا کہ وہ ان کے محل میں ان کا ملازم تھا-بازار قریب ہی تھا- ایک نکڑ پر اسے نانبائی کی دوکان نظر آ گئی- وہ تندور پر بیٹھا روٹیاں پکا رہا تھا- وہ پینتالیس سال کا ایک دبلا پتلا شخص تھا- اس کے چہرے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں- اور دھوئیں کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں آنسو سے تیر رہے تھے-عمر نے اس کے قریب جا کر اس سے کہا- "مجھے ایک لڑکے کے متعلق معلوم کرنا ہے"-نانبائی نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا- "میاں جاؤ جاؤ-میں بہت مصروف ہوں- بیکار باتوں کے لیے میرے پاس ذرا سا بھی وقت نہیں ہے"-عمر نے اپنی جیب میں سے ایک اشرفی نکال کر اس کی طرف پھینکی- پہلے تو نانبائی مسکرایا، اشرفی اٹھا کرانٹی میں رکھی اور ہنس کر بولا- "بھیا- پوچھو نا کیاپوچھنا چاہتے ہو"- عمر نے پھر کہا- "ایک لڑکا جو پہلے اس محل میں ملازم تھا، کیا وہ یہاں کام نہیں کرتا؟"-"ہاں- اشرف چند دن میرے پاس رہا تھا- یہ تقریباً ڈیڑھ دو برس کی بات ہے- مگر ایک روز اس نے نہ جانے کہاں سے ایک بہت ہی خوبصورت بلی پکڑلی تھی- اس بلی کواس نے اس ملک کی شہزادی کی سالگرہ والے دن بطورتحفہ دے دیا- وہ شہزادی بلی کو پا کر بے حد خوش ہوئی اور اس نے بادشاہ سے کہہ کر اشرف کو ہزاروں اشرفیاں انعام میں دلوادیں- اس روز سے اشرف نے میری دوکان پر کام کرنا چھوڑ دیا اور شہر میں ایک خوبصورت مکان لے کر چاول کی تجارت شروع کر دی- اب وہ بہت امیر ہو گیاہ اور چند روز بعد اس کی شادی اسی شہر کے ایک بڑے رئیس کی بیٹی سے ہونے والی ہے- مگر آپ اشرف کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہیں- کیا وہ آپ کا دوست ہے؟"-"میں نے تو اسے دیکھا بھی نہیں ہے- مگر اس سے ایک ضروری کام پڑ گیا ہے"- عمر نے کہا- پھر وہ نانبائی سے اشرف کے مکان کا پتہ معلوم کر کے اس سے ملنے کے لیے چل دیا-اشرف اپنے مکان پر ہی مل گیا تھا- اس کی موجودہ آن بان دیکھ کر کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے بہت غریب تھا- جب عمر نے بتایا کہ وہ زبیدہ کے پاس سے آ رہا ہے تو اشرف بڑی گرمجوشی سے ملا- اس نے بتایا کہ جس زمانے میں وہ زبیدہ اور اس کی امی کے ساتھ رہتا تھا تو ان کا سلوک اس سے بہت اچھا ہوتاتھا- پھر اس نے عمر کی کافی خاطر مدارت کی- جب کافی دیر ہوگئی تو اشرف نے پوچھا- "آپ نے اپنی آمد کامقصد اب تک نہیں بتایا"-عمر نے جواب میں کہا- "میں زبیدہ کی گمشدہ امی کو تلاش کرنے کے لیے نکلا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تم ان کی گمشدگی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہو"- عمر کی بات سن کر اشرف کا چہرہ سفید پڑ گیا- وہ کمزور سے لہجے میں بولا- "میں کیا جانوں ان کی گمشدگی کے بارے میں"-اس کی بدلتی ہوئی حالت دیکھ کر عمر سمجھ گیا کہ وہ ضرور کچھ نہ کچھ جانتا ہے- اس نے دھمکی آمیز انداز میں کہا- "اشرف شاید تم مجھے نہیں جانتے- تمہارے لیے یہ ہی بہتر ہے کہ تم مجھے سب کچھ صیحح صیحح بتا دو- کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جس روز زبیدہ کی امی گم ہوئی تھیں، اس روز ایک بوڑھی پری ان کے محل میں آئی تھی"-حالانکہ یہ بات عمر نے محض اندازے کی بنا پر ہی کہہ دی تھی مگر اس کا اشرف پر بہت برا اثر ہوا- اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا- "میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گا-مگر یقین کرو میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے- ہوا یوں تھا کہ ایک روز محل میں رات کے وقت ایک بوڑھی پری جس نے اپنا نام گلشن پری بتایا تھا میری مالکن یعنی زبیدہ کی امی سے ملنے کے لیے آء تھی- میرے پیٹ میں شام سے درد ہو رہا تھا- اس لیے میں باغ میں ٹہلنے لگا- زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ میری مالکن کے کمرے میں سے تیز تیز بولنے کی آوازیں آنے لگیں- میں دوڑ کر کھڑکی کی طرف گیا تاکہ دیکھوں کہ کیا معاملہ ہے- وہاں میں نے گلشن پری اور مالکن کو باتیں کرتے دیکھا- گلشن مالکن پر بہت گرم ہو رہی تھی- پھر اس نے نہایت غصّے میں میری مالکن پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور میری مالکن ایک خوبصورت بلی بن گئی-بد قسمتی سے جب گلشن پری پلٹی تو اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی- اس نے مجھے گردن سے پکڑ کر کھڑکی سے اندر گھسیٹ لیا اور آنکھیں نکال کر بولی- "لڑکے تم نے سب کچھ دیکھ لیا ہے- میں خواہ مخواہ لوگوں کو کتا بلی بنانا پسند نہیں کرتی- یاد رکھ اگر تو نے یہ بات کسی سے کہی تو پھر تجھے چھپکلی کابچہ بنا دوں گی- ساری عمر دیواروں اور چھتوں پر دوڑتاپھرے گا"- میں ڈر گیا اور اس سے وعدہ کر لیا کہ میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤں گا- گلشن پری چلی گئی- میں بہت خوفزدہ ہوگیا تھا اس لیے بھاگ کر اپنے کمرے میں چلا آیا اور دروازہ بند کر کے چادر لپیٹ کر چپ چاپ سو گیا- میری مالکن کے شوہر جو پرستان کا شہزادہ تھا، مالکن کی گمشدگی سے بہت پریشان تھا- میں کوشش کے باوجود بھی اسے کچھ نہ بتا سکا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ اگر گلشن پری کو پتا چل گیا کہ میں نے اس کا راز افشا کر دیا ہے تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی- پھر زبیدہ کا باپ اسے کہیں لے کر چلا گیا- میں نے نانبائی کیہاں نوکری کر لی- اپنی مالکن جو کہ اب بلی بن چکی تھی، میں اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا- میں اس کے آرام کا ہر طرح سے خیال رکھتا تھا- پھر ایک روز شہزادی کی سالگرہ کا اعلان ہوا- اسے بلی پالنے کا بہت شوق تھا- میں نے سوچا کہ میں اپنی مالکن بلی کو شہزادی کے حوالے کردوں گا تاکہ وہ شہزادی کے پاس ہر طرح کے آرام و آسائش سے رہے-جب میں شہزادی کے پاس پہنچا تو وہ اتنی خوبصورت بلی کو دیکھ کر خوشی سے کھل گئی- اسے میرا تحفہ سب سے زیادہ پسند آیا- بادشاہ نے بھی خوش ہو کر مجھے پندرہ ہزار اشرفیاں انعام میں دیں- یہ تھی وہ کہانی- اب تم خودہی فیصلہ کرلو کہ میں قصوروار ہوں یا نہیں- یہ کہہ کراشرف خاموش ہوگیا- عمر نے کہا- "اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے- اگرتمہیں اپنی جان کا خوف نہ ہوتا تو یقیناً تم یہ بات اپنی مالکن کے شوہر سے نہ چھپاتے- بہرحال خوشی اس بات کی ہے کہ زبیدہ کی امی خیریت سے ہیں- اگر ان پر سے جادو کا اثر ختم ہوجائے تو وہ پھر سے اپنے اصلی روپ میں آجائیں گی- اب مجھے شہزادی سے وہ بلی حاصل کرناپڑے گی"-"مگر یہ کام بہت مشکل ہے"- اشرف نے کہا- "وہ اس بلی سے بہت محبت کرتی ہے- یہ بات تو ناممکن ہے کہ وہ بلی کو سیدھے سادھے طریقے سے تمہارے حوالے کر دے"-"یہ کام خواہ ممکن ہو یا ناممکن- بلی کو ہر حال میں حاصل کرنا پڑے گا"- عمر اٹھتے ہوئے بولا-اشرف کے پاس سے اٹھ کر وہ باہر نکل آیا- وہ سوچ رہا تھا کہ کس ترکیب سے شہزادی سے بلی حاصل کی جائے-پھر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آ ہی گئی- اب اسے رات ہونے کا انتظار تھا- رات ہوئی تو عمر نے جادو کا قالین نکالا اور اس پر بیٹھ کر بادشاہ کے محل کی طرف چل دیا- اس نے فیصلہ کر لیاتھا کہ وہ بلی کو چرا کر لے آئے گا- جادو کے قالین نے اسے محل کی چھت پر اتار دیا- گرمیوں کے دن تھے- اس لیے شہزادی اپنی کنیزوں کے ساتھ چھت پر ہی سو رہی تھی- شہزادی کے برابر ایک بڑے بڑے بالوں والی ایک خوبصورت بلی بیٹھی اونگھ رہی تھی- عمر بڑی خاموشی سے آگے بڑھا اور بلی کو پیچھے سے دبوچ لیا- بلی چونک گئی- اور زور زور سے میاؤں میاؤں کرنے لگی-اس کی آوازیں سن کر پہلے تو شہزادی کی تینوں کنیزیں بیدار ہوئیں اور پھر شہزادی بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی-انہوں نے جو عمر کو اپنے سامنے دیکھا تو ہکا بکا رہ گئیں- عمر اس صورت حال سے گھبرا گیا- وہ اپنے قالین کی طرف بھاگا- شہزادی نے جو اسے اپنی بلی لے جاتے دیکھا تو وہ اپنے پلنگ سے کود کر اس کی طرف لپکی- عمر جلدی سے قالین پر بیٹھ گیا اور قالین چھت سے بلندہونے لگا- شہزادی نے بھی ایک چھلانگ لگائی اور قالین پر آ گئی- اس نے عمر کا گریبان پکڑ لیا اور آنکھیں نکال کر دانت پیس کر بولی- "چور کے بچے- اب بتا میری بلی کو کہاں لے جا رہا تھا؟"-عمر نے جھلا کر کہا- "عجیب لڑکی ہو تم بھی- بلی کے پیچھے پڑی ہو یہ نہیں دیکھتی ہو کہ قالین فضا میں اڑ رہاہے"- اب تو شہزادی کو بھی اپنے اڑنے کا احساس ہوا-گردن جھکا کر نیچے دیکھا اور دانتوں میں انگلی دبا کربولی- "ہائے یہ کیا چکّر ہے- کیا تم کوئی جادوگر ہو؟"-"اگر میں کوئی جادوگر ہوتا تو شکل سے اتنا شریف نظرنہیں آتا"- عمر نے اکڑ کر کہا-شہزادی ناک چڑھا کر بولی- "میں تمھاری شرافت کا یقین کیسے کرلوں- تمھاری چوری تو میں نے پکڑ لی ہے"-پھر اس نے چونک کر کہا- "مگر یہ تم مجھے کہاں لے جارہے ہو- قالین کو روکو ورنہ میں نیچے کود جاؤں گی"-"کود جاؤ گی تو میرا کیا کر لو گی- خود ہی کی ہڈی پسلی ٹوٹے گی"- عمر نے لاپرواہی سے کہا- اس کی بات سن کر شہزادی رونے لگی- عمر نے بیزاری سے کہا- "یہ رونا دھونا بند کردو- میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں تمہارے محل حفاظت سے پہنچا دوں گا- مگر ابھی نہیں کیونکہ ابھی وہاں پر کنیزوں کی چیخ و پکار سن کرسب لوگ جمع ہوگئے ہونگے- خواہ مخواہ میری گردن پھنس جائے گی"-مگر یہ تو بتا دو کہ اب ہم کہاں جا رہے ہیں"- شہزادی نے عاجز ہو کر پوچھا- عمر نے جواب دیا-"ہم لوگ پرستان جا رہے ہیں"- پھر اس نے شہزادی کوتمام کہانی سنا دی کہ کس طرح گلشن پری نے پرستان کے شہزادے سے اپنی بیٹی کی شادی کرنے کے لیے شہزادے کی بیوی کو بلی بنا دیا تھا- یہ بلی اس لڑکے اشرف کے ذریعے شہزادی کے پاس پہنچی اور اب پرستان جا رہی ہے تاکہ اس پر سے جادو کے اثر کو ختم کیا جا سکے-شہزادی بہت حیران نظر آ رہی تھی- اب وہ قطعی ناراض نہیں تھی- اسے خوشی تھی کہ اب پرستان کے بادشاہ کی بیوی اپنی اصلی شکل میں آ جائے گی- تھوڑی دیر بعد وہ لوگ پرستان کی حدود میں داخل ہوگے-عمر نے قالین کو ایک ویران سی جگہ پر اتار لیا- وہ ایک پہاڑی علاقہ تھا- اس نے بلی اور قالین کو ایک غار میں بند کیا، غار کے منہ کو ایک پتھر سے بند کر کے اس نے شہزادی کو ساتھ لیا اور پھر گلشن پری کے گھر کی طرف چل دیا-جب دونوں گلشن پری کے مکان پر پہنچے تو وہ سو رہی تھی- بہت دیر تک دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد اس نے دروازہ کھولا تھا- اس کے چہرے پر ناگواری کے اثرات تھے- کیونکہ اسے نیند سے جگا دیا گیا تھا- مگر جب اس نے عمر کو دیکھا تو وہ خوش ہوگئی- "آؤ آؤ- کہو کیا بات ہے؟"-عمر اور شہزادی اندر داخل ہو گئے- گلشن پری بولی-"میری بیٹی اپنی ممانی کے گھر گئی ہوئی ہے- میں اس وقت گھر میں اکیلی ہی ہوں"-عمر نے کہا- "گلشن پری- میں نے ایک ایسا چکر چلایا ہے کہ بادشاہ تمھاری لڑکی سے شادی پر آمادہ ہوجاے گا- اگرتمھاری بیٹی اس کی بیوی بن گئی تو پھر اس کی قسمت ہی کھل جائے گی- تمہارا تعلق شاہی خاندان سے ہوجائے گا- پورا پرستان تم سے ڈرا کرے گا اور تمہاری عزت کرے گا"- گلشن پری عمر کی باتیں سن کر خوشی سے پھولا نہیں سما رہی تھی- عمر نے پھر کہا- "میں تمہارا اتنا بڑا کام کرا رہا ہوں تو کیا تم میری ایک ذرا سی مشکل بھی حل نہیں کر سکتی ہو؟"-"تم بتاؤ تو سہی- میں ہر طرح سے تمہاری مدد کروں گی"- گلشن پری نے بڑے یقین سے کہا-عمر نے شہزادی کی طرف اشارہ کرتے ہو? کہا- "اس لڑکی کی چھوٹی بہن کو ایک مکّار جادوگرنی نے ہرنی بنادیا ہے- وہ جادوگرنی سب لوگوں کو بہت تنگ کرتی ہے-تم کوئی ایسی ترکیب بتاؤ کہ وہ لڑکی ہرنی سے پھر اپنی شکل میں آجائے اور وہ جادوگرنی بھی لوگوں کو تنگ کرنا چھوڑ دے"- "تم میری مدد پر آمادہ ہو اس لیے میرا بھی فرض ہے کہ میں تمھاری مشکل دور کروں- میرے پاس ایک شیشی میں جادو کا پانی ہے- جب تم اس پانی کو ہرنی پر چھڑکو گے تو وہ اپنی اصلی شکل میں آجائے گی- اس جادوگرنی کوسزا دینے کے لیے میں تمہیں ایک اگر بتی دوں گی- وہ اگربتی میرے نانا نے بڑی دقتوں کے بعد بنائی تھی- اس میں یہ خاصیت ہے کہ اگر اس کا دھواں کوئی جادو جاننے والا سونگھ لے تو ہمیشہ کے لیے جادو بھول جاتا ہے- مگر مہربانی کرکے اس اگربتی کو یہاں جلانے کی کوشش مت کرنا- اگر اس کا دھواں میری ناک میں چلا گیا تو میں نے وہ جادو جو بڑی محنت کے بعد سیکھا ہے، بھول جاؤں گی"-عمر نے سر ہلا دیا اور گلشن پری وہ دونوں چیزیں لینے کے لیے چلی گئی- عمر نے شہزادی سے کہا- "اب کام بن جائے گا- پانی میں زبیدہ کی امی پر چھڑک دوں گا اورپھر اس جادو کی اگر بتی کو چپکے سے گلشن پری کے گھر میں جلا جاؤں گا- وہ تمام جادو بھول جائے گی- اورپھر دوبارہ کسی کو نہیں ستائے گی"- اس کی بات سن کرشہزادی مطمئن انداز میں مسکرانے لگی-زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ گلشن پری وہ دونوں چیزیں وہاں لے آئی- عمر نے شکریہ کے ساتھ دونوں چیزوں کو اپنے قبضے میں کیا اور پھر شہزادی کو ساتھ لے کر وہاں سے روانہ ہو گیا- وہ دونوں وہاں سے سیدھے انہی پہاڑیوں میں پہنچے تھے جہاں پر انہوں نے بلی کو غار میں بند کردیاتھا- وہ غار میں پہنچے تو بلی اپنے پنجوں میں منہ چھپائے سو رہی تھی- عمر نے اسے آہستہ سے اٹھا کرشہزادی کو دیا اور پھر جادو کے قالین کو بغل میں دبا کر غار سے باہر نکل آیا- اب وہ دونوں پرستان کے بادشاہ پرویز کے محل کی طرف جا رہے تھے-جب وہ محل پہنچے تو بادشاہ سو رہا تھا مگر شہزادی اپنی کمرے میں بڑی اداس بیٹھی تھی- اسے اپنی امی بری طرح یاد آ رہی تھیں- عمر کو دیکھ کر اسے بڑی حیرانی ہوئی- وہ جلدی سے بستر سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی-"عمر کیا ہوا؟- میری امی جان کا کچھ پتہ چلا؟- اس نے بڑی بے صبری سے پوچھا اور پھر شہزادی کو پلکیں جھپکا جھپکا کر دیکھنے لگی-عمر نے کہا- "زبیدہ آپ کی امی مل چکی ہیں- آپ جلدی سے جا کر اپنے ابّا کو بلا لائیں"-اس کی بات سنکر زبیدہ کی ہلکی سی چیخ نکل گئی- وہ اسی وقت جا کر بادشاہ کو بلا لائی- بادشاہ آنکھیں ملتا ہواوہاں آیا- اس نے عمر سے کہا- "کیا بات ہے عمر بیٹے؟"-عمر نے جواب دیا- "زبیدہ کی امی کو میں تلاش کر لایاہوں"- "مگر وہ ہے کہاں؟"- بادشاہ نے تعجب سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا-"وہ ابھی آپ کے سامنے آجائیں گی"- عمر نے اطمینان سے کہا- "ان کی گمشدگی میں گلشن پری کا ہاتھ تھا- وہ اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کرنا چاہتی تھی- اس لیے آپ کی بیوی کو اس نے بلی بنا دیا تھا- یہ بلی جو آپ دیکھ رہے ہیں، آپ کی بیوی صاحبہ ہی ہیں"-زبیدہ نے لپک کر شہزادی کی گود سے بلی کو لے لیا اوراسے اپنے سے چمٹا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی-عمر نے آگے بڑھ کر اس سے بلی لے کر اسے زمین پررکھ دیا- بادشاہ بھی پھٹی پھٹی نظروں سے بلی کو دیکھ رہا تھا- عمر نے گلشن پری کی دی ہوئی شیشی میں سے پانی نکال کر اسے بلی پر چھڑکا اور بلی اسی وقت انسانی روپ میں آگئی- زبیدہ اپنی ماں سے لپٹ گئی- بادشاہ کی خوشیوں کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں رہا اور اس کا چہرہ مسرت سے چمکنے لگا- زبیدہ کی ماں عذرا نے کہا- "خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے میرے شوہر اور بیٹی سے دوبارہ ملوا دیا، ورنہ میں تو بالکل مایوس ہوگئی تھی"- پھر اس نے بادشاہ کے کہنے پر اپنی کہانی سنائی- اس نے کہا- "اس روز میں اپنے کمرے میں تھی کہ ایک بوڑھی پری اندر داخل ہوئی-اس کے چہرے پر غصّے کے آثار تھے- اس نے کہا کہ میری وجہ سے اس کی بیٹی کی شادی پرویز سے نہیں ہوسکی- اس لیے اگر میں اپنی خیریت چاہتی ہوں تو اسی وقت یہ محل چھوڑ کر کہیں دور نکل جاؤں- میں نے کہاکہ میں اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی-میری اس بات سے وہ مشتعل ہوگئی اور اس نے مجھے جادو سے بلی بنا دیا-بادشاہ کی آنکھیں غصّے سے سرخ انگارہ ہوگئیں- اس نے نہایت قہر آلود لہجے میں کہا- "میں اس گلشن پری کو زندہ نہیں چھوڑوں گا- اسے ایسی عبرت ناک سزا دوں گا کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے گی"-عمر نے جلدی سے آگے بڑھ کر کہا- "جہاں پناہ- آپ کوآپ کی کھوئی ہوئی بیوی مل گئی ہیں- گلشن پری کی اس حرکت کو درگزر فرما دیجئے- اس کے لیے کیا اتنی ہی سزا کافی نہیں کہ اس نے جو جادو بڑی محنت اور توجہ سے سیکھا تھا وہ اسے بھول جائے"-"وہ اسے کیسے بھول سکتی ہے؟"- بادشاہ نے حیرت سے کہا- "دراصل وہ بوڑھی پری میرے پاس آء تھی کہ میں آپ کواس کی بیٹی سکے شادی کرنے پر مجبور کروں- مجھے چونکہ اس پر شک ہوگیا تھا اس لیے میں نے واپس اپنی دنیا میں جا کر اس بات کا پتہ چلا لیا تھا کہ گلشن پری نے آپ کی بیوی کو بلی بنا دیا تھا- میں اور میرے ملک کی شہزادی اس بلی کو لے کر پرستان میں آ گئے- میں نے چالاکی سے کام لیتے ہو? بوڑھی پری کو ایک فرضی کہانی سنائی کہ شہزادی کی چھوٹی بہن کو ایک جادوگرنی نے ہرنی بنا دیا ہے- تم کچھ مدد کرو- گلشن پری مجھ سے بہت خوش ہوی تھی- اس نے مجھے جادو کا پانی دیاتھا اور ایک اگر بتی دی- جادو کے پانی کا کرشمہ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے اور اگر بتی کے متعلق گلشن پری نے یہ بتایا تھا کہ اگر اس کا دھواں کوئی جادو جاننے والا سونگھ لے تو ہمیشہ کے لیے اپنا تمام جادو بھول جاتا ہے- میں اب گلشن پری کے گھر جا رہا ہوں- وہ اپنی خواب گاہ میں سورہی ہوگی- میں یہ جادو کی اگربتی وہاں جلا کرآجاؤں گااور وہ سوتے ہو? ہی اس کا دھواں سونگھتی رہے گی-جب صبح ہو گی تو وہ اپنا سارا جادو بھول جائے گی"-عمر کی بات سن کر سب لوگوں نے بڑی خوشی کا اظہارکیا- عمر چلا گیا- بادشاہ نے اپنی بیوی عذرا سے کہا- "یہ نوجوان بہت عقلمند ہے- اس نے بہت تھوڑے عرصے میں وہ کام کر دکھایا ہے جو ہم سب مل کر دو سال میں بھی نہ کرسکے"- ملکہ اس کی بات سن کر بولی- "میں نے اپنی پوری زندگی میں عمر جیسا خوبرو اور ذہین لڑکا نہیں دیکھا- میں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اپنی بیٹی زبیدہ کی شادی عمرسے کروں گی"- زبیدہ اس کی بات سن کر شرما گئی اور شہزادی کو اپنے ساتھ لے کر وہاں سے چلی گئی- بادشاہ زیر لب مسکرانے لگا-اس رات شہزادی زبیدہ کے محل میں رہی- دوسرے دن اس نے پورے پرستان کی سیر کی اور پھر رات کو زبیدہ کی ماں عذرا نے اسے ڈھیر سارے تحفے دے کر اسے عمرکے ساتھ واپس اس کے محل بھیج دیا- شہزادی کی گمشدگی نے وہاں ایک ہنگامہ برپا کر رکھا تھا- مگر جب شہزادی وہاں پہنچی تو سب کے دم میں دم آیا- شہزادی نے اپنی کہانی اپنے ماں باپ کو سنائی اور پرستان سے لائے ہوئے تحفے انھیں دکھا?- اس کے ماں باپ اس کی واپسی سے بہت خوش تھے- انہوں نے عمر کی خوب خاطر مدارات کی- اسی رات عمر دوبارہ پرستان روانہ ہو گیا- جادو کا قالین اسے بڑی تیزی سے زبیدہ کے محل کی طرف اڑائے چلاجا رہا تھا- تھوڑی دیر بعد وہ پرستان پہنچ گیا-بادشاہ پرویز اور ملکہ عذرا نے عمر کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا کہ وہ اس کی شادی اپنی بیٹی زبیدہ سے کرناچاہتے ہیں- عمر نے ان کے فیصلے کے آگے سر جھکادیا-چند روز بعد عمر کی شادی پرستان کی شہزادی زبیدہ سے ہوگئی- بادشاہ نے ان کا محل اپنے محل کے برابر میں ہی بنوا دیا تھا- یوں ایک معمولی سپاہی اپنی ذہانت اور بہادری کی بنا پر پرستان کی شہزادی سے شادی کر کے ایک ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگا- ختم شد

Browse More Moral Stories