Mazar E Iqbal - Article No. 1498

Mazar E Iqbal

مزار اقبال - تحریر نمبر 1498

مفکرپاکستان شاعر مشرق علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے معروف شاعر،قانون داں،سیاست داں اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے۔اسلام سے خصوصی لگاؤ رکھتے تھے۔

ہفتہ 17 اگست 2019

نسرین شاہین
مفکرپاکستان شاعر مشرق علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے معروف شاعر،قانون داں،سیاست داں اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے۔اسلام سے خصوصی لگاؤ رکھتے تھے۔
جنوری 1923ء میں علامہ اقبال کو ”سر “کا خطاب ملا۔انھوں نے خطبہ الہٰ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ اور آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا،جو بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا،مگر افسوس کہ جب یہ اسلامی ریاست 14اگست1947ء کو وجود میں آئی تو علامہ اقبال اسے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے،کیوں کہ قیام پاکستان سے پہلے ہی21اپریل1938ء (9صفر المظر 1356ھ)کو جمعرات کے دن انتقال کر گئے تھے۔

(جاری ہے)

علامہ اقبال کی وفات جاوید منزل میں ہوئی تھی۔جاوید منزل کا موجودہ نام علامہ اقبال میوزیم ہے۔
علامہ محمد اقبال کے انتقال کی خبر سن کر متحدہ ہندوستان کی طرف سے گہرے غم ودکھ کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔علامہ اقبال کی وفات پر لاہور کے ایک انگریز افسر نے علامہ اقبال کے ایک عقیدت مند دوست سے کہا:”تم نے ہندوستان کے آخری مسلمان کو سپرد خاک کر دیا ہے۔

ان کا مزار حضوری باغ میں بادشاہی مسجد لاہور کے صدر دروازے کے قریب ہے۔علامہ اقبال کی حضوری باغ میں تدفین ہوئی،لیکن مزار کی تعمیر بعد میں کی گئی تھی۔
مزار اقبال کی تعمیر کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی ،جس کے سر براہ چودھری محمد حسین تھے۔اسی کمیٹی نے مزار اقبال کوتعمیر کرنے کی غرض سے متعدد فیصلے کیے،جس کی روشنی میں حیدر آباد کن کے ماہر تعمیرات نواب زین یارجنگ نے مغلیہ اور افغان طرز کی عمارت کی منظوری کے بعد تعمیر کا آغاز کیا۔
مزار اقبال کی عمارت 13برس میں ایک لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوئی۔قیام پاکستان 1947ء کے بعد تعمیر کا یہ کام قدرے سست روی کا شکار ہو گیا تھا،کیوں کہ تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر جس علاقے سے آتا تھا وہ بھارتی حصے میں چلا گیا تھا۔اس کے علاوہ تعمیر میں سرخ رنگ کا جو پتھر استعمال ہوا ہے ،وہ افغانستان کے لوگوں نے تحفتاً دیا تھا۔
مزار اقبال کی سادہ سی عمارت مستطیل شکل کی ہے،جس کا ایک دروازہ مشرقی اور دوسرا جنوبی سمت میں ہے۔
مزار اقبال پہ سفید ماربل بھی لگا ہے۔مزار کی دیواروں پہ اقبال کی کتاب”زبور عجم“سے لیے گئے اشعار کندہ ہیں اور اس کے علاوہ قرآنی آیات کی کیلی گرافی بھی کی گئی ہے۔
مزار اقبال کے باہر سر سبز ٹکڑیوں میں منقسم باغ بھی ہے،جو بہت دل کش اور خوبصورت ہے۔مزار اقبال کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر اسی نوعیت کا ہے جو مغل بادشاہ شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے مقبرے کی تعمیر میں استعمال ہوا ہے ۔
یوں تو سال بھر ہی ہزاروں افراد مزار اقبال پر فاتحہ پڑھنے آتے ہیں،لیکن ہر سال 9نومبر (یوم اقبال)اور 21اپریل(وفات اقبال)کے موقع پر خاص طور پر لوگ مزار پر فاتحہ خوانی کرنے آتے ہیں۔
ہر سال نہ صرف اہل لاہور ،بلکہ دوسرے شہروں سے آنے والے لاہور کی تفریح گاہوں کے ساتھ ساتھ تاریخی عمارتوں کو دیکھنے بھی جاتے ہیں تو لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد میں بھی ضرور حاضری دیتے ہیں اور ساتھ ہی مزار اقبال بھی دیکھنے جاتے ہیں،کیوں کہ ملک بھر کے علاوہ دنیا بھر میں اقبال کے مداحوں اور عقیدت مندوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔
لاہور آنے والے مزار اقبال پر بھی ضرورحاضری دیتے ہیں۔
وفات کے بعد علامہ اقبال کا پہلا”یوم اقبال“ان کے خاص ملازم علی بخش کی صدارت میں ہوا،حالانکہ وہ بالکل ان پڑھ تھے۔علامہ اقبال اپنی زندگی میں بھی لوگوں کے دلوں میں بستے تھے ،لوگ ان سے عقیدت رکھتے تھے۔وفات کے بعد بھی لوگ علامہ اقبال سے محبت وعقیدت رکھتے ہیں۔خاص طور پر اقبال کی شاعری نے لوگوں کو بے حد متاثر کیا تھا۔بلاشبہ علامہ محمد اقبال ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔اسی لیے کہ مزار اقبال پر آنے والوں کو تانتا بندھا رہتا ہے۔

Browse More Moral Stories