Mera Pakistan - Article No. 2226

Mera Pakistan

میرا پاکستان - تحریر نمبر 2226

تمہارے جانے کے کچھ عرصے بعد ہم نے بھی پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا۔ہم اپنا ذاتی مکان فروخت کرکے پاکستان آ گئے۔اللہ کا شکر ہے کہ آج تم ہمیں مل گئے۔یہاں آ کر ہم نے اسلام قبول کر لیا

جمعرات 7 اپریل 2022

پروفیسر ڈاکٹر ایف ایچ فاروقی
انگریزوں نے ہندوستان سے رخصت ہوتے وقت اسے بھارت،مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں تقسیم کر دیا تھا۔بڑی افراتفری کا عالم تھا۔قتل عام ہو رہا تھا۔میں اپنے بوڑھے ماں باپ کے ہمراہ ایک سڑک سے گزر رہا تھا کہ کسی نے اچانک حملہ کرکے میرے ماں باپ کو شہید کر دیا۔اس وقت میری عمر دس گیارہ سال تھی۔
میں گھبرا کر ایک جھاڑی کے نیچے چھپ گیا۔
اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔پہلے تو میں سمجھا کہ وہ وحشی واپس آ گئے ہیں،مگر وہ دو میاں بیوی تھے۔انھوں نے انسانیت کا ثبوت دیا اور مجھے اپنے گھر لے گئے۔مجھے اس وقت مسلم اور غیر مسلم کا فرق معلوم نہیں تھا۔دونوں سکھ خاندان سے تھے۔گھر لا کر سردار جی اور ان کی بیوی نے مجھے پیار سے کھانا کھلایا۔

(جاری ہے)

وہ بے اولاد تھے اور مجھے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتے تھے۔
جب حالات بہتر ہوئے تو مجھے اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔میں چار سال تک وہیں رہا۔مجھے پاکستان جانے کا بہت شوق تھا۔میرے والدین اکثر ذکر کرتے تھے کہ ہم لوگ آزاد ملک پاکستان جائیں گے۔
ایک رات ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔پاکستان آنے کے شوق میں،میں اپنے محسنوں کو چھوڑ کر نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔
سڑک پر ایک فوجی ٹرک جا رہا تھا،انھوں نے مجھے لاوارث سمجھ کر ٹرک میں بیٹھا لیا اور میرے کہنے پر وہ مجھے پاکستان کی سرحد پر چھوڑ گئے۔میں بُری طرح رو رہا تھا۔رات کے اندھیرے میں سرحد سے گزر کر ایک گاؤں میں آ گیا،جہاں ایک بوڑھی عورت نے ترس کھا کر مجھے اپنے گھر پناہ دے دی۔بوڑھی عورت کے پاس کچھ عرصہ گزارنے کے بعد میں لاہور شہر آ گیا اور ایک دکان پر ملازمت کر لی۔

اس دکان میں ملازمت کرتے ہوئے مجھے کئی سال ہو گئے تھے۔ایک دن دو میاں بیوی اس دکان پر کچھ خریداری کے لئے آئے تو انھوں نے مجھ سے میرا نام پوچھا۔مجھے اپنا نام خود معلوم نہیں تھا۔میرے اصل والدین مجھے ”نوشا“ کہہ کر پکارتے تھے،شاید پورا نام نوشاد ہو۔جب میں سکھ خاندان میں آیا تو وہ ”بالا جی“ کہنے لگے۔میں سوچ میں پڑ گیا اور میں نے اپنا اصلی نام نوشا بتایا۔
بوڑھی عورت مجھے غور سے دیکھ رہی تھی۔اس نے اپنے میاں کے کان میں کچھ کہا۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے،مگر میں انھیں پہچان نہیں پا رہا تھا۔آخر بوڑھی عورت نے کہا:”تم بالا جی تو نہیں ہو؟“
میں بالا جی کا نام سن کر ڈر گیا۔
انھوں نے میرے چہرے کا رنگ فق دیکھا تو کہا:”بیٹا!گھبراؤ نہیں تم ہمارے بیٹوں کی طرح ہو۔
“یہ کہہ کر بوڑھی خاتون نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ان کے شوہر نے بھی گلے لگا لیا اور بہت دیر تک پیار کرتے رہے۔
انھوں نے بتایا کہ جب تم چھوٹے تھے اور اپنے والدین کے قریب بیٹھے رو رہے تھے،تب ہم ہی تمہیں اپنے گھر لے گئے تھے،مگر تم پاکستان آنے کے لئے بے قرار تھے۔پھر تو میں بھی ان سے چمٹ گیا۔
دونوں میاں بیوی نے بتلایا:”تمہارے جانے کے کچھ عرصے بعد ہم نے بھی پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا۔
ہم اپنا ذاتی مکان فروخت کرکے پاکستان آ گئے۔اللہ کا شکر ہے کہ آج تم ہمیں مل گئے۔یہاں آ کر ہم نے اسلام قبول کر لیا۔
میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔اب میں ان ہی کے گھر رہنے لگا۔ان ہی کی مرضی سے شادی کی۔میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ اس بات کا علم کسی کو نہ ہونے دیں کہ وہ میرے اصلی ماں باپ نہیں ہیں۔
انھوں نے مجھے ہمیشہ اپنی اولاد کی طرح رکھا اور مرتے دم تک اپنا بیٹا ہی کہتے رہے۔میں ان کے احسانات کو کبھی بھی بھلا نہیں سکتا۔بچے بڑے ہو گئے۔آخر ایک دن میں نے اپنے بچوں کو حقیقت بتا دی کہ تمہارے دادا،دادی سگے نہیں تھے۔بچے حیران ہو کر دیر تک انھیں سلامِ عقیدت پیش کرتے رہے۔

Browse More Moral Stories