Meri Aapbeeti - Article No. 793

Meri Aapbeeti

میری آپ بیتی - تحریر نمبر 793

جب میں اور میرے بہن بھائی بڑے ہوئے تو ہماری غریب مالکن نے ہمیں ایک شخص کے ہاتھ فروخت کر دیا۔

منگل 12 مئی 2015

پیارے دوستو! میرا نام ہینی ہے۔ جب میں چھوٹی سی تھی تو ایک گاوٴں میں اپن ماما، پاپا اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ ہم وہاں بہت خوش تھے۔ ماما مرغی کے ساتھ ہم کھیتوں میں، گلیوں میں، آنگن میں بھاگتے دوڑتے رہتے۔ زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔
لیکن دوستو؟ وقت سداکب ایک سا رہتا ہے۔ خوشی اور غم کا ساتھ ہمیشہ سے رہا ہے۔ جب میں اور میرے بہن بھائی بڑے ہوئے تو ہماری غریب مالکن نے ہمیں ایک شخص کے ہاتھ فروخت کر دیا۔
اس شخص نے ہمیں شہر لے جاکر مرغی کا گوشت بیچنے والے کی دکان پر بیچ ڈالا۔ یہاں ہمیں ایک گندے سے دڑبے میں جہاں پہلے ہی بہت ساری مرغیاں قید تھیں بند کر دیا گیا۔ اس تنگ سے گندے دڑبے میں نہ ڈھنگ کے کھانے کو ملتا نہ پینے کو۔ وہاں ہمارا دم گھٹ رہا تھا۔

(جاری ہے)

سانس لینے تک کی جگہ نہ تھی وہاں جو طاقت ور تھے کم زوروں کو مار رہے تھے۔ کم زور کو نے کھدروں میں چھپ رہے تھے۔

دکان پرکوئی گاہک آتا تو دکان کا مالک ہم میں سے کسی ایک کو پکڑ لیتا۔ پکڑا جانے والا چیختا چلاتا مگر دکان دار اسے ہماری نظروں کے سامنے بے دردی سے ذبخ کر ڈالتا۔ ہم بے بسی سے یہ سب دیکھتے رہتے۔ اس کا تڑپنا دیکھتے مگر کچھ نہ کر سکتے۔ آہستہ آہستہ میرے سارے ساتھی ذبخ ہو گئے۔ آخر میں اکیلی وہ گئی۔ میں ڈر رہی تھی۔ کیوں کہ اب میری باری تھی۔
مجھے اپنی ماما، اپنے بہن بھائی اور سہیلیاں یاد آرہی تھیں۔ وہ کھیت کھلیان وہ آنگن جہاں میں ہنستی کھیلتی رہتی تھی۔ یاد آرہے تھے مگر میں بے بس تھی۔ پھر دکان میں ایک گاہک داخل ہوا۔ وہ نظروں ہی نظروں میں مجھے تول رہا تھا۔ اس نے دکان دار سے کچھ کہا۔ دکان دار اُٹھ کر میری طرف بڑھا میں ڈر کر ایک کونے میں دبک گئی ۔ دکان دار نے وَڑبے کا دروازہ کھول کر ہاتھ آگے بڑھایا۔
میں چیخی چلائی مگر اس نے مجھے دبوچ لیا۔ پھر اس نے میرے پروں کو بے دردی سے موڑ کر اپنے پاوٴں کے نیچے رکھا۔ ایک ہاتھ سے میرا سر پکڑا اور ایک لمبی سی چھری میری گردن کاٹنے کی تیاری کرنے لگا۔ اُسی وقت ایک اور گاہک آن پہنچا۔ دکان دار اس سے باتوں میں مصروف ہوگیا۔ اس کی گرفت میرے پروں پر ڈھیلی پڑگئی۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور ایک جھٹکے سے خود کو اس کی گرفت سے آزاد کرالیااور چیختی چلاتی ایک طرف کو بھاگ نکلی۔
دکان دار میرے پیچھے بھاگا، لیکن میں اُڑتی بھاگتی دکان دار کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ بھاگتے بھاگتے میں ایک پارک میں جا پہنچی اور جھاڑیوں میں خود کو چھپالیا ۔ میں کتنی ہی دیر وہاں چھپی رہی۔ پھر ایک بلی نے مجھے وہاں چھپے دیکھ لیا۔ وہ مجھے پکڑنے کیلئے لپکی میں اس سے اپنی جان بچانے کے لئے بھاگی۔ پارک میں بہت سے بچے کھیل رہے تھے۔ ان کی مجھ پر نظر پڑگئی۔
انھوں نے بلی کو بھگا دیا اور ایک بچہ مجھے پکڑ کر اپنے گھر لے گیا۔
دستو! وہ بچہ اور اس کے گھر والے بہت اچھے تھے۔ انھوں نے مجھے دانا کھلایا میرے لیے لکڑی کا چھوٹا سا گھر بنا دیا۔ میں بھی انھیں روزانہ ایک انڈا دیتی۔ پھر انھوں نے میرے بہت سارے انڈے اکھٹے کر لیے اور میں ان انڈوں پر بیٹھ گئی۔ اکیس بائیس دن بعد انڈوں سے چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے چوزے نکل آئے۔
میں ان چوزوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ وہ لڑکا اور سب گھر والے بھی میرے ننھے منے بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
دوستو! اب میرے بچے گھر میں بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں۔ میں ان کی پیاری پیاری شرارتوں سے خوش ہوتی ہوں اور ان کا بہت خیال رکھتی ہوں کیوں کہ بلیاں اور چیل کوّے میرے ننھے بچو ں کے دشمن ہیں۔ اس وقت بھی ایک چیل اُڑتی ہوئی اس طرف آرہی ہے۔ مجے اس سے اپنے بچوں کی حفاظت کرنی ہے۔ اس لئے دوستو! خدا حافظ۔

Browse More Moral Stories