
Meri Kahaani - Article No. 1890
میری کہانی
میری کہانی پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ میری اردو کلاس میں سب سے اچھی ہے
ہفتہ 6 فروری 2021

یہ کہانی لکھنے کے بعد میں نے اپنی اردو کی استانی کو دکھا دی تھی۔انھوں نے اسے ٹھیک کر دیا ہے۔اب میں اسے آپ کے پاس بھیج رہی ہوں۔کہانی لکھتے لکھتے میرے ہاتھوں میں درد ہونے لگا ہے،اس لئے میں اسے دوبارہ صاف کرکے نہیں لکھ سکتی۔اسے یوں ہی چھاپ دیجیے۔میں آپ کی شکر گزار ہوں گی۔نائلہ میرا خیال ہے کہ میں ایک ہونہار اور سعادت مند طالبہ ہوں،اس لئے کہ میں بلا ناغہ اسکول جاتی ہوں اور اپنا کام یعنی ہوم ورک وقت پر کر لیتی ہوں۔میری کہانی پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ میری اردو کلاس میں سب سے اچھی ہے۔میں انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتی ہوں،لیکن پابندی سے اردو کے رسالے بھی پڑھتی ہوں،اس لئے مجھے کافی حد تک اردو آگئی ہے۔میری استانی کہتی ہیں کہ میں سالانہ امتحان میں اول آسکتی ہوں۔
(جاری ہے)
امی مجھے بہت مارتی ہیں،اس لئے میں اپنی چیزیں نہایت بے پروائی سے اِدھر اُدھر رکھ دیتی ہوں یا پھر بھول جاتی ہوں۔
بھلا آپ ہی بتایئے کہ اس میں مارنے کی کیا ضرورت تھی؟میں اپنے جوتے بیڈ کے قریب اُتارتی ہوں،تاکہ صبح آسانی سے پہن لوں مگر اسد جوتوں کو شیلف میں رکھ دیتا ہے۔رات کو اسکول کا کام کرنے کے بعد میں کتابیں اور کاپیاں بستے میں اسی وقت نہیں رکھتی تو اس سے کیا ہوتا ہے؟صبح بستے میں رکھ لیتی ہوں۔یونیفارم اتارنے کے بعد میں بستر پر رکھ دیتی ہوں کہ جب کھانے کے بعد بستر پر لیٹوں گی تو کھونٹی پر لٹکا دوں گی،لیکن امی کو تو جیسے موقع کی تلاش رہتی ہے۔وہ یونیفارم کو کھونٹی پر کیوں نہیں لٹکایا؟مجھے رونا آنے لگتا ہے کہ اسکول سے تھکی ہوئی آئی ہوں۔اس کے بجائے کہ اچھی چیزیں مجھے کھانے کو دیں،مارنے کو کھڑی ہو جاتی ہیں۔بہت دفعہ سمجھایا ہے کہ لوگ ایسے کاموں کے لئے ملازمہ رکھتے ہیں،لیکن ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔کہتی ہیں کہ زمانہ خراب ہے لہٰذا ملازمہ کو گھر میں نہیں رکھنا چاہیے۔
امی تو جیسے میری تاک میں رہتی ہیں کہ میں کب کوئی غلطی کروں اور وہ مجھ پر جوتے برسائیں۔میں نے واش بیسن پر جا کر منہ ہاتھ دھولیے اور تولیے سے صاف بھی کر لیے،لیکن امی چیخنے چلانے لگیں کہ کہنی سے پانی کیوں ٹپک رہا ہے؟آپ خود سوچیے کہ ذرا سا پانی ہی تو ٹپک رہا تھا،کوئی دریا تو نہیں بہ رہا تھا۔اس میں ڈانٹنے کی کیا ضرورت تھی؟مگر انھیں تو بہانا چاہیے۔
دھائیں دھائیں،دھپڑ دھپڑ۔
اس جان دار مرمت کے بعد میری یادداشت مزید خراب ہو گئی۔جب کھانے بیٹھی تو ہاتھ منہ کے بجائے کئی بار کان کی طرف چلا گیا۔وہ تو امی میرے پاس ہی بیٹھی تھیں، اس لئے لقمہ کان میں نہ جا سکا۔البتہ ایک غلطی یہ ہوئی کہ مانو بلی کے بجانے میں نے موتی کتے کو گود میں بیٹھا لیا، جس سے کپڑے خراب ہو گئے ،کیونکہ وہ نہا کر آیا تھا۔امی نے اسے دھتکار کر بھگایا پھر میرا فراک تبدیل کیا۔
امی کے رویے کا اثر رات تک رہا۔میں نے رات کو کھانے کے بعد کپڑے تبدیل کیے اور بستر پر لیٹ گئی۔تھوڑی دیر بعد اسد کیرم بورڈ کھیل کر آتا تو مجھے دیکھ کر ”باجی،باجی“چیخنے لگا۔
”کیا بات ہے،کیوں چیخ رہے ہو؟“میں نے منہ سیکٹر کر پوچھا۔
”تم نے میرے کپڑے کیوں پہن لیے؟“وہ چیخا۔
”پہن لیے تو کیا ہوا؟ابھی تبدیل کیے دیتی ہوں۔“میں نے اس کا سر سہلا کر کہا:”امی سے نہ کہنا۔ایک چاکلیٹ دوں گی۔“اس نے کسی سے کچھ نہیں کہا۔
امی کی مار کا اثر میرے دماغ پر پڑا تھا اور میری یادداشت ختم ہوتی جا رہی تھی۔جیسے کہ فلموں میں ہیرو یا ہیروئن کی یادداشت چلی جاتی ہے اور وہ کسی کو پہچان نہیں پاتے۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔دوسرے دن میں اسکول گئی تو لاؤنج میں جاکر ٹہلنے لگی۔اس لئے کہ ابھی کلاس میں جانے کا وقت تھا۔میں نے بھنے چنے خرید لیے تھے،اس لئے انھیں چبا رہی تھی۔گھنٹہ بج گیا،لیکن چنے تھے کہ ختم ہی نہیں ہونے میں آرہے تھے۔چنانچہ میں ٹہلنے لگی۔لڑکیاں کلاسوں میں چلی گئیں۔
ایک بھاری بھرکم سی خاتون اپنے کمرے سے نکل کر ایک راؤنڈ لگا کر میرے قریب آگئیں اور بولیں:”چنے چباتی رہوں گی یا کچھ پڑھائی کا بھی ارادہ ہے؟“
وہ ہیڈ مس تھیں،لیکن ان کا نام یاد نہیں آرہا تھا۔
”جی،جا رہی ہوں۔“میں نے ملائمت سے کہا اور چنے کی تھیلی جیب میں رکھ لی۔
میں بائیں طرف جا کر اپنی کلاس میں بیٹھ گئی تو اردو کی مس نے کہا:”علامہ اقبال پر ایک مختصر سا مضمون لکھیے۔کاپی سے ایک صفحہ پھاڑ لیجیے۔“
میں نے اردو کی کاپی نکال کر اس سے ایک صفحہ پھاڑ لیا اور سوچنے لگی کہ مس نے یقینا علامہ اقبال پر مضمون لکھنے کو کہا ہے،مگر وہ کون تھے اور کہاں رہتے تھے۔اس وقت قطعی یاد نہیں آرہا تھا کہ کس زبان کے شاعر تھے؟
جب پرچہ لے لیا گیا تو یاد آیا کہ علامہ اقبال پر مضمون لکھنے کو کہا گیا تھا جو شاعر مشرق ہیں،لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔مس نے میرے مضمون پر صفر دے دیا تھا۔ طبیعت گم صم سی رہی اور کسی سے بات کرنے کو دل نہیں چاہا۔چھٹی ہوئی تو گاڑی میں بیٹھ کر گھر پہنچ گئی۔یاد آیا کہ اسد کو تو لیا ہی نہیں۔وہ تو میرا بھائی ہے۔تھوڑی دیر بعد دوسری گاڑی سے کوئی لڑکا اتر کر سامنے آگیا۔مجھے جانا پہچانا سا لگ رہا تھا۔اچانک ایک بھاری بھرکم سی خاتون کہیں سے آن ٹپکیں اور ساتھ ساتھ چلنے لگیں ۔“آج اردو کا پیپر کیسا ہوا؟“انھوں نے پوچھا۔
”مگر آپ کون ہیں؟“
”تمہاری ماں ہوں ،اور کون ہوں۔“انھوں نے چڑچڑے پن سے کہا۔
”میری کوئی ماں نہیں ہیں۔“میں نے کہا:”وہ بہت مارتی ہیں۔جب کہ میں کوئی شیطانی شرارت بھی نہیں کرتی۔“
اچھا ٹھہرو۔ابھی بتاتی ہوں۔“انھوں نے غصے سے کہا۔
پتا نہیں وہ کس کا گھر تھا۔بہرحال گھر پہنچ کر انھوں نے میرا بستہ تو شیلف میں رکھا اور پھر وہی کیفیت ان پر طاری ہو گئی:دھائیں دھائیں، دھپڑ دھپڑ۔اس سے یہ ہوا کہ چوٹ پڑتے ہی میری کھوئی ہوئی یادداشت واپس آگئی۔
مزید اخلاقی کہانیاں

بڑا مجرم
Bara Mujrim

ہمارے ابو اور امی
Hamare Ammi Aur Abbu

خالہ کے گھر
Khala Ke Ghar

گھنے جنگل سے گریٹر اقبال پارک تک
Ghanne Jangal Se Greater Iqbal Park Tak

تین سکے
3 Sikke

سات کا پہاڑا
Satt Ka Pahara

فطرت نہیں بدلتی…
Fitrat Nahi Badalti

بھوکے ٹومی کی توبہ
Bhukay Tommy Ki Tauba

سچی خبر
Sachi Khabar

نافرمان چُن مُن
Nafarman Chun Mun

ہمارے قائد
Hamare Quaid

دو پیسے کی برکت
Do Paisay Ki Barket
Your Thoughts and Comments
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2022, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.