Mizra Shikari - Article No. 1677

Mizra Shikari

مرزا شکاری - تحریر نمبر 1677

جب انھیں یہ پتا چلا کہ ان کے ایک عزیز ملا حبیبی اس اس شیر کو ہلاک کریں گے مرزا بھی ضد کرکے ان کے ساتھ چل دیے۔

منگل 3 مارچ 2020

خلیل جبار
جنگل میں ایک بہت اونچے درخت پر مچان بنالی گئی تھی ،تاکہ جانور اُچھل کر مچان پر نہ آسکے ۔مرزا واحد بیگ بہت جوش میں دکھائی دے رہے تھے۔وہ بار بار اپنی رائفل کو دیکھ رہے تھے ۔انھیں بچپن میں شکاریات پر مبنی کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا۔اس بنا پر انھیں شکار سے دل چسپی ہو گئی تھی ۔مرزا صاحب ان دنوں پڑوسی ملک میں ایک ماہ کے دورے پر آئے ہوئے تھے ۔
یہاں پر جس شہر اور گاؤں میں ان کے عزیز ورشتے دار موجود تھے ،ان سے ملاقاتیں کر رہے تھے ۔وہ جس گاؤں میں قیام کیے ہوئے تھے وہاں ایک جنگلی آدم خور شیر نے گاؤں والوں کو بہت تنگ کیا ہوا تھا۔جب انھیں یہ پتا چلا کہ ان کے ایک عزیز ملا حبیبی اس اس شیر کو ہلاک کریں گے مرزا بھی ضد کرکے ان کے ساتھ چل دیے۔

(جاری ہے)

ملا صاحب نے بہت سمجھایا کہ تم گھر پر ہی رہو میں شیر کے ہلاک کیے جانے پر تمہیں بلالوں گا،مگر وہ نہ مانے۔

مجبوراً انھیں انکل بد حواس کو اپنے ساتھ شکار پر لے جانا پڑا۔
ملا حبیبی ایک تجربہ کار اور ماہر شکاری تھے۔انھوں نے مچان ایسی جگہ بنایا جہاں آدم خور شیر کو دیکھا جا سکتا تھا ۔پتوں پر کسی جانور کے چلنے کی آواز پر ملا حبیبی نے اپنے منہ پر اُنگلی رکھ کر سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔سب خاموشی سے آواز کی سمت دیکھنے لگے ۔ایک شیر درخت سے بندھی بکری کے پاس آیا۔
ملا حبیبی نے رائفل سے شیر کا نشانہ لیا اور فائر کھول دیا۔گولی شیر کے دماغ میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔مرزا صاحب نے زندگی میں پہلی بار شیر کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔وہ حیران رہ گئے کہ کتنی آسانی سے ملا حبیبی نے شیر کو ہلاک کر دیا۔سب لوگ مچان نے اُتر کر شیر کو دیکھ رہے تھے ۔مرزا جی میں ہمت نہیں تھی کہ وہ شیر کو پاس جا کر دیکھ لیں ۔
جب سب شیر کو دیکھ چکے تو ان کو سبکی محسوس ہوئی اور وہ بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی مچان سے نیچے اُترے اور ڈرتے ڈرتے شیر کے پاس گئے ۔وہ حیرت سے شیر کو دیکھنے لگے ۔انھوں نے اپنی زندگی میں اتنے قریب سے شیر کو پہلی بار دیکھا تھا ۔وہ مرچکا تھا ،مگر تھا تو شیر ہی نا۔مرزا اس وقت مرے ہوئے شیر سے بھی خوف زدہ تھے ،لیکن ملا حبیبی کے گھر پہنچنے پر ان کا ”خوف“ختم ہو چکا تھا اور اپنے چہرے سے خاصے مطمئن نظر آرہے تھے۔

مرزا جی جب ضلع نینی تال کے ایک گاؤں رام نگر پہنچے وہاں انھوں نے اپنے عزیزوں میں شکاریات سے متعلق من گھرٹ قصے سنا دیے۔ لوگ ان کو حیرت سے دیکھنے لگے کہ وہ اتنے بہادر شکاری ہیں کہ ڈھیروں آدم خور شیروں کو ہلاک کر چکے ہیں ۔ان کی خوب تعریفیں ہونے لگیں اور مرزا کا سینہ احساس برتری سے پھول سا گیا۔
مرزا نے شکاریات کے موضوعات پر بہت کہانیاں پڑھی تھیں۔
انھیں شکار کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔کہانیوں میں انھوں نے یہی پڑھا تھا کہ شکاری مچان بنا کر بیٹھ گیا، ایک درخت سے جنگلی بھینسا، بکری یا گائے باندھ دی۔آدم خور شیر جیسے ہی اس بندھے ہوئے جانور کے پاس آیا،شکاری نے رائفل سے فائر کھول دیا۔شیر کے مرجانے پر وہ ہیروبن گیا۔مرزا صاحب ،ملا حبیبی کے ساتھ شکار پر کیا گئے ،خود کو شکاری سمجھ بیٹھے ۔
وہ شکار کرنے کے منصوبے بنانے لگے تھے۔وہ نامور شکاریوں میں اپنا نام شامل کرانا چاہتے تھے۔
مرزا کو اکثر ایسے خواب نظر آنے لگے تھے ۔جس میں وہ خود کو افریقہ کہ جنگلات میں پاتے ،جہاں وہ خطر ناک درندوں کو منٹوں میں ہلاک کر دیتے تھے ۔شکار کرنے پر وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے،مگر آنکھ کھلنے پر ان کی خوشی خاک میں مل جاتی ۔وہ خود کو افریقہ کے جنگلات میں مچان کے بجائے گھر کی چار پائی پر پڑا ہوا پاتے تھے ۔
وہ اپنے مستقبل سے پر اُمید تھے کہ زندگی میں انھیں شکار کرنے کا موقع ضرور ملے گا اور لوگ ان کی بہادری پرواہ وا کریں گے۔
اس گاؤں میں مرزا کے سسرالی رشتے دار رہتے تھے ۔وہاں کے رشتے داروں میں بہادری دکھانے کا مطلب تھا کہ ان کی بہادری کے قصے پاکستان بھر میں پہنچ جاتے اور ان کی سسرال میں عزت بن جاتی ۔اس علاقے میں ایک آدم خور شیر نے گاؤں میں خوب دھوم مچا رکھی تھی ۔
نہ جانے کتنے لوگوں کو وہ ہلاک کر چکا تھا۔گاؤں کے لوگوں نے مرزا کے فرضی قصے سن کر انھیں آدم خورشیر کا شکار کرنے پر راضی کر لیا۔وہ راضی تو پہلے ہی تھے بس اپنی خوشامد کرانا چاہتے تھے ۔وہ اپنی اس عزت افزائی پر پھولے نہیں سما رہے تھے ۔اس طرح ان کے شکار کرنے کی خواہش پوری ہو جاتی ۔شیر کا شکار کرنا وہ ملاحبیبی سے سیکھ چکے تھے ۔اس لئے انھیں اب کسی قسم کی پریشان نہ تھی ۔
مرزا نے سب سے پہلے ان مقامات کو دیکھا جہاں وہ آدم خور شیر دیکھا گیا تھا۔ان مقامات کو اچھی طرح دیکھ لینے پر ایک جگہ منتخب کرکے مچان بنالی گئی ۔وہاں سے شیر کو آتا آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا۔
رات ہونے سے پہلے پہلے ایک بکری کو مچان سے کچھ فاصلے پر باندھ دیا گیا تھا۔مرزا نے اپنے ساتھ گاؤں کے چند لوگوں کو بھی اپنے پاس بیٹھالیا تھا،تاکہ گاؤں کے لوگ اس کے کارناموے کو بڑھ چڑھ کر بیان کریں ۔
زیادہ لوگوں کے مچان پر بیٹھنے سے جگہ تنگ ہو گئی تھی ،مگر مرزا کو اس کی پرواہ نہیں تھی ۔ان کے ذہن میں یہی بات تھی کہ شیر بکری کو کھانے ضرور آئے گا اور وہ اس پر فائر کھول دیں گے ۔رات خاصی گزر جانے پر درختوں کے پتوں پر چلنے کی آواز آنے لگی ۔اس کا مطلب تھاکہ شیریا کوئی اور جانور آرہا ہے ۔آواز آہستہ آہستہ ان کے قریب ہوتی جارہی تھی اور پھر مچان کے نزدیک آواز محسوس ہوئی اور خاموشی چھا گئی ۔
کوئی جانور وہاں دکھائی نہ دے سکا۔سب حیران تھے کہ آواز آنے کے باوجود جانور کیوں دکھائی نہیں دیا۔
”کہیں یہاں آسیب کا سایہ نہ ہو۔“ایک شخص بولا۔
”مجھے بھی ایسا لگ رہا ہے ۔“دوسرا شخص بولا۔
”کیا یہاں آسیب بھی ہوتاہے۔“مرزا نے خوف زدہ ہوتے ہوئے پوچھا۔
”ارے صاحب!جنگلوں میں آسیب نہیں ہو گا تو کیا انسان ہوں گے ۔
“تیسرا آدمی بولا۔
جنگل میں ایسے ایسے خطر ناک آسیب ہوتے ہیں کہ انسانوں کو کہیں سے کہیں اُٹھا کر پھینک دیتے ہیں۔“پہلے آدمی نے سنسنی پھیلائی۔
”کیا یہ ممکن ہے کہ اس مچان کے اردگرد بھی آسیب ہو؟“مرزا نے پوچھا۔
”بالکل یہاں آسیب ہے ۔دیکھا نہیں جانور کے پتوں پر چلنے کی آوازیں آرہی ہیں اور جانور دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔
“دوسرا آدمی بولا۔
آسیب کا سن کر مرزا بری طرح خوف زدہ ہوگئے تھے اور ان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ فوراً مچان سے چھلانگ لگاکر بھاگ جائیں اور وہ ایسا کر بھی لیتے ،مگر وہ یہ سوچ کر خاموشی سے مچان پر بیٹھے رہے کہ مچان سے کود کر بھاگنے میں ان کا سامنا آدم خور شیر سے ہوسکتاہے ۔آسیب سے وہ بچ سکتے ہیں،مگر آدم خور شیر انھیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔

کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر دوبارہ پتوں پر کسی جانور کے چلنے کی آواز سنائی دی۔آواز پر وہ چونکے۔تھوڑی دیر تک پتوں پر جانور کے چلنے کی آواز آتی رہی اور ایک شیرنی جھاڑیوں کے پاس سے برآمد ہوئی۔
”یہ تو شیرنی ہے ۔“ایک بولا۔
”خاموش!کوئی بھی ہو،اب اس کا بچنا مشکل ہے۔“مرزا نے منہ پر اُنگلی رکھ کر سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

مرزا پر آسیب کا خوف پہلے ہی تھا،اب شیرنی کو دیکھ کر ان کے خوف میں اضافہ ہو گیا تھا۔شیرنی کا نشانہ لگانے کو جب انھوں نے رائفل سنبھالی تو ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔کانپتے ہاتھوں سے انھوں نے شیرنی کا نشانہ لیا اور گولی چلادی۔ان کا نشانہ خطا گیا اور شیرنی بھاگ گئی۔مرزا ابھی شیرنی پر فائر کرکے سنبھلے بھی نہ تھے کہ مچان کی لکڑیاں ان سب کا وزن برداشت نہ کر پائیں اور کئی لکڑیاں ٹوٹ گئیں ۔
سب سے پہلے مرزا نیچے گرے ۔رائفل ان کے ہاتھ سے کہیں گر پڑی ۔مرزا کی خوش نصیبی یہ تھی کہ وہ سخت زمین پر گرنے کی بجائے کسی نرم اور ملائم چیز پر گرے تھے ۔اچانک اس چیز نے بھاگنا شروع کر دیا۔مرزا صاحب بھی گھبرا گئے کہ یہ کیا چیز ہے ۔دراصل مچان کے نیچے چاندکی روشنی پہنچ نہیں پارہی تھی ۔جیسے ہی وہ چیز چاند کی روشنی آئی ۔انکل بدحواس کے ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے ۔
جس شے پر وہ سوار تھے وہ آدم خور شیر تھا۔
پہلی دفعہ درختوں کے پتوں پر دراصل شیر کے چلنے سے آواز پیدا ہوئی تھی ۔وہ پیچھے کی جانب سے آیا تھا اور مچان پر بیٹھے ہوئے سب لوگوں کی نظر سامنے تھی اس لئے اپسے وہ دیکھ نہ پائے۔ شیر کا پیٹ بھرا ہوا تھا ،اس لئے شیر بکری پر حملہ کرنے کی بجائے مچان کے نیچے بیٹھ گیا تھا۔فائر کی آواز اور اس پر انکل بد حواس کے گرنے پر شیر نے گھبرا کر دوڑ لگا دی۔
شیر خوف زدہ تھا کہ اس پر کیا بلا آکر گر پڑی ہے ۔وہ تیز تیز دوڑتا ہوا دریا کے کنارے اپنی کچھار میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔مرزا بھی شیر کو دیکھ کر بری طرح خوف زدہ تھے ۔انھوں نے شیر کے بالوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا،کیونکہ ان کے بال چھوڑ دینے پر خطرہ تھا ۔شیر ان کوگرا کر ہلاک کر سکتا تھا۔موت کے تصور سے وہ گھبرا گئے تھے اور وہ اس دن کو کوس رہے تھے کہ جب انھوں نے شکاری بننے کا سوچا تھا ۔
شکاری بننے کے خبط نے ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔وہ دل ہی دل میں آیندہ شکار نہ کرنے کا عزم کرنے لگے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کررہے تھے کہ اب اگر زندگی بچ گئی تو وہ پھر کبھی کسی چوزے کا بھی شکار نہ کریں گے۔
اب سامنے دریا نظر آنے لگا تھا۔اچانک چاروں طرف سے گاؤں کے لوگ ڈنڈے لے کر نکل آئے تھے ۔یہ گاؤں کے وہ لوگ تھے جو جنگل میں چھپے ہوئے تھے ۔
ان کا خیا ل تھا کہ اگر شیر شکار ہونے سے بچ گیا تو زخمی ہو جانے پر دریا کا رخ کرے گا پھر وہ شیر کو گھیر کر ہلاک کر دیں گے ۔ان لوگوں نے جو مرزا کو شیر پر سوار دیکھا تو وہ حیران رہ گئے کہ وہ اتنے بہادر ہیں جو شیرکو زندہ قابو میں کرنا چاہتے ہیں ۔لوگوں کو دیکھ کر مرزا کی ہمت بندھی اور اسی دوران شیرکے جسم کے بالوں پر سے ان کے ہاتھوں کی گرفت کمزور پڑ گئی ۔
یہ اتفاق تھا کہ جہاں وہ گرے نرم نرم گھاس تھی ۔شیر نے خود کو ان لوگوں کے گھیرے سے نکلنے کی بہت کوشش کی ،مگراسے کامیابی نہ ہو سکی ۔گاؤں کے لوگ سخت غصے میں تھے ۔اس شیر نے گاؤں کے کئی لوگوں کو اپنا شکار بنایا تھا۔شیر نے فرار کی کوشش ناکام ثابت ہوئی ۔گاؤں والوں نے ڈنڈوں اور کلہاڑیوں کے وار سے شیر کو ہلا کر دیا۔شیر کے ہلاک ہونے پر گاؤں کے لوگوں نے مرزاکوا پنے کاندھوں پر بیٹھا لیا۔گاؤں میں ان کی بہادری کی دھوم مچ گئی تھی اور مرزا اپنے دل میں جان بچ جانے پر خوش تھے ۔ان کی بیگم کو بڑی حیرت ہورہی تھی کہ وہ اتنے بہادر کب سے ہوگئے ۔اس بہادری کا راز صرف مرزا ہی کو معلوم تھا۔

Browse More Moral Stories