Muqaddas Pesha - Article No. 1557

Muqaddas Pesha

مقدس پیشہ - تحریر نمبر 1557

جب یہ دوستی کچھ پرانی ہوئی تو ریاض صاحب کو پتہ چلا کہ یعقوب صاحب کا بیٹا عمر میڈیکل کا طالب علم ہے اور اس کا پہلا سال شروع ہو چکا ہے-

Mukhtar Ahmad مختار احمد جمعہ 1 نومبر 2019

ریاض صاحب اپنی والدہ اور بیوی کے ساتھ مری میں رہتے تھے- ان کے تین بیٹے تھے جو پڑھ لکھ کر پہلے تو اسلام آباد میں کاروبار کرنے لگے تھے اور مختلف سیکٹروں میں گھر بنا کر وہاں رہائش پذیر ہوگئے تھے - مگر پھر بعد میں وہ لوگ ملک سے باہر چلے گئے اور وہاں نوکریاں کرنے لگے-

ان کے جانے کے بعد تینوں گھر خالی پڑے تھے- ریاض صاحب نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ ان گھروں کو فروخت کردیا جائے- انھیں پتہ تھا کہ چند سالوں کے بعد ان کے بیٹوں کو آنا پاکستان ہی تھا- اپنے وطن کی محبّت انسان کو واپسی پر مجبور کر دیتی ہے- کبھی جلدی اور کبھی دیر میں-

انہوں نے وہ تینوں گھر کرائے پر دے دیے- ان کا کرایہ وصول کرنے کے لیے وہ ہر ماہ کی دس تاریخ کو اسلام آباد کا چکر لگاتے تھے- کبھی کبھار ان کے ساتھ ان کی بیوی بھی ہوتی تھی- بیوی کو ساتھ لانے کا مقصد اسے گھمانا پھرانا اور ضروری چیزوں کی خریداری ہوتا تھا- لیکن عام طور پر وہ اکیلے ہی آتے تھے-

ان تین گھروں میں سے ایک گھر انہوں نے یعقوب صاحب کو بھی دے رکھا تھا- یعقوب صاحب کسی کورئیر کمپنی میں کام کرتے تھے اور اپنی بیوی اور عمر نامی بیٹے کے ساتھ اس گھر میں رہتے تھے- ریاض صاحب کو یہ لوگ اچھی عادتوں اور خوش اخلاقی کی وجہ سے بہت پسند تھے - ان کی یعقوب صاحب سے کافی دوستی ہوگئی تھی-

جب یہ دوستی کچھ پرانی ہوئی تو ریاض صاحب کو پتہ چلا کہ یعقوب صاحب کا بیٹا عمر میڈیکل کا طالب علم ہے اور اس کا پہلا سال شروع ہو چکا ہے- عمر ایک ذہین طالب علم تھا- وہ بہت دل لگا کر پڑھتا تھا اور اس کے دل میں سچی لگن تھی کہ وہ ایک ڈاکٹر بن کر ملک و قوم کی خدمت کرے-

یعقوب صاحب کی تنخواہ بہت تھوڑی تھی اور گھر کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہوتے تھے- میڈیکل کی تعلیم معمولی نہیں ہوتی- اس کی چار ساڑھے چار سال کی پڑھائی میں تقریباً دس لاکھ روپے تو لگ ہی جاتے ہیں- ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عمر کے پہلے سمسٹر کی فیس بھرنے کے لیے یعقوب صاحب کو بیوی کے زیورات تک بیچنا پڑ گئے تھے-

اپنے تعلیمی اخراجات سے نمٹنے کے لیے اور باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے عمر نے شام کو کسی جگہ ایک پارٹ ٹائم جاب کرلی- وہاں سے جو پیسے ملا کرتے تھے ان میں کچھ اور پیسے باپ سے لے کر اس نے دوسرے سمسٹر کی فیس ادا کی-

ریاض صاحب کو جب یہ بات پتہ چلی کہ اتنی مشکل پڑھائی کے ساتھ ساتھ عمر نے جز وقتی ملازمت بھی شروع کردی ہے تو انھیں بہت افسوس ہوا- انھیں اس بات کا احساس تھا کہ اس پارٹ ٹائم جاب کی وجہ سے اس کی توجہ پڑھائی کی طرف سے کم ہوجائے گی-

انسان کی زندگی میں اچھا برا وقت آتا جاتا رہتا ہے- با ہمت لوگ برے وقت کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہیں اور اچھے وقت میں لوگوں کی مدد کرکے ان کو بھی برے وقت سے نکلنے میں مدد دیتے ہیں- دنیا میں سکون، محبّت اور بھائی چارہ ایسے ہی لوگوں کے دم قدم سے ہے- آج ریاض صاحب پیسے والے تھے تو یہ پیسہ انہوں نے بہت جدو جہد اور مشکلات کے بعد کمایا تھا- جب وہ طالب علم تھے تو ان کے حالات بھی بہت بدتر تھے- وہ اپنا برا وقت اب تک نہیں بھولے تھے-

ایک روز انہوں نے یعقوب صاحب سے کہا- "یعقوب بھائی- مجھے احساس ہے کہ عمر کی پڑھائی کی وجہ سے آپ پر مالی دباؤ بہت بڑھ گیا ہے- میں نے سوچا ہے کہ جب تک اسے ڈاکٹر کی ڈگری نہیں مل جاتی میں آپ سے اس گھر کا کرایہ نہیں لوں گا- اس کرائے کو آپ میرے حساب میں جمع کرتے رہیے گا- پڑھنے لکھنے والے بچے حساس ہوتے ہیں- انھیں اپنے ماں باپ کی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے- ماں باپ کی یہ مشکلات انھیں ذہنی طور پر بہت پریشان کرتی ہیں جس سے ان کی پڑھائی کا حرج بھی ہونے لگتا ہے- انشا الله جب وہ کامیاب ہو جائے گا اور کمانے لگے گا تو مجھے یہ رقم لوٹا دیجیے گا-"

یعقوب صاحب نے پہلے تو منع کیا مگر جب ریاض صاحب نے ان کے انکار کا برا مانا اور سختی سے اپنی بات دوہرائی تو تو وہ مان گئے- حقیقت میں ان کی پیشکش سے ان کے لیے بہت آسانی ہوجاتی- عمر بھی شام کی نوکری چھوڑ کر پوری توجہ اپنی پڑھائی پر دینے لگتا-

ریاض صاحب کے اس احسان کی وجہ سے عمر کے دل میں ان کی عزت مزید بڑھ گئی تھی- پیسوں کا مسلہ حل ہوا تو عمر یکسوئی سے اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوگیا- اس کی محنت رنگ لائی اور وہ کامیاب ہوگیا- اسے ڈاکٹری کی ڈگری مل چکی تھی اور اب ایک مستند ڈاکٹر بننے کے لیے اسے ایک سال تک ہاؤس جاب کرنا تھی- یہ ایک سال بھی پلک جھپکتے گزر گیا-

اس نے اپنا ایک چھوٹا سا کلینک کھول لیا تھا جو تھوڑے ہی عرصے میں خوب چل نکلا- چند سال بعد اس نے شہر کے ایک بارونق حصے میں ایک عمارت کرائے پر لے کر اس میں بڑا سا کلینک کھول لیا جس میں ایمبولنس کی سہولت بھی میسر تھی- ایک اچھے اور نیک ڈاکٹر کی تمام خصوصیات اس میں موجود تھیں- وہ خوش اخلاق تھا، اس کی طبیعت میں ذرا سا بھی لالچ نہیں تھا، وہ مریضوں سے انتہائی شفقت سے پیش آتا تھا اور اس کے محبّت بھرے رویے کی وجہ سے اس کے مریضوں کا آدھا مرض تو اسی وقت رفو چکر ہوجاتا تھا جب وہ ان کا معائینہ شروع کرتا- وہ کمیشن کے لالچ میں مریضوں کو خواہ مخواہ کی دوائیاں بھی لکھ کر نہیں دیتا تھا- ان ہی وجوہات کی بنا پر لوگ اسے بہت پسند کرتے تھے-

اس کی فیس انتہائی مناسب تھی جس کی وجہ سے مریضوں کا ہر وقت تانتا بندھا رہتا تھا- اپنا کلینک کھولنے کے کچھ عرصے بعد اس نے ریاض صاحب کا کرایہ جو تقریباً چھ لاکھ روپے ہوگیا تھا، اپنے ابا اور امی کے ساتھ مری جا کر ان کے حوالے کیا- وہ اپنے ڈاکٹر بننے کی خوشی میں مٹھائی بھی ساتھ لے گیا تھا- یہ خبر سن کر کہ وہ ڈاکٹر بن گیا ہے ریاض صاحب ، ان کی ماں اور بیوی سب بہت خوش ہوۓ-

ان کے گھر سے واپسی پر عمر نے ایک مرتبہ پھر ریاض صاحب کا شکریہ ادا کیا اور کہا- "اگر آپ ہمارے ساتھ وہ نیکی نہ کرتے تو بہت مشکل ہوجاتی- میں کبھی بھی ڈاکٹر نہیں بن سکتا تھا- حالات ہی کچھ اس قسم کے ہوگئے تھے- آپ کا یہ احسان ہم کبھی فراموش نہیں کریں گے-"

"میں نے کوئی احسان نہیں کیا تھا- یہ تو ہمارے اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے حسن سلوک کریں- ایک دوسرے کی مدد کریں- تم تو مسیحا ہو، بیمار لوگوں کا علاج کرتے ہو- الله کے بندوں کو الله کے حکم سے تمہارے وسیلے سے آرام پہنچتا ہے- یہ تو بہت ثواب کا کام ہے- بس میری تو یہ ہی دعا ہے تمھارے اس نیک کام سے خوش ہو کر الله مجھ پر اور میرے گھر والوں پر بھی مزید رحم و کرم فرمائے-" ریاض صاحب نے بڑے خلوص سے کہا- اس کے بعد وہ لوگ واپس چلے آئے-

سردیاں شروع ہوۓ کافی دن ہوگئے تھے اور اب یہ اپنے شباب پر تھیں- اسلام آباد میں ہلکی بارش کئی روز سے جاری تھی اور مری میں برفباری شروع ہوگئی تھی- ایسے میں رات نو بجے ریاض صاحب کی کال عمر کے موبائل پر آئی- اس نے کال رسیو کی-

دوسری طرف سے ریاض صاحب کی گھبرائی ہوئی آواز آئی- "بیٹا عمر- ماں جی کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ہے- انھیں چند دنوں سے بخار تھا اور اب یہ بخار بہت شدت اختیار کرگیا ہے- ان کی کھانسی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور انھیں سانس لینے میں انتہائی دشواری ہو رہی ہے- شائد زیادہ ٹھنڈ کی وجہ سے انھیں نمونہ ہوگیا ہے- ان کے سینے میں شام کو درد اٹھا تھا اور اس وقت وہ نیم بیہوشی کی حالت میں ہیں- ان کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی- مری میں اس وقت کوئی ڈاکٹر نہیں ہے- سردیاں شروع ہوتے ہی یہاں رہنے والے اکثر لوگ اپنے اپنے آبائی گاؤں اور شہروں کو روانہ ہوجاتے ہیں- پوری مری میں سناٹا ہے- امی کی کیفیت میں نے تمہیں بتا دی ہے- تم دوائیاں تجویز کردو- ہوسکتا ہے کوئی میڈیکل اسٹور کھلا ہو جہاں سے وہ دوائیاں مل جائیں-"

عمر نے ان کی ماں کی علالت پر تشویش کا اظہار کیا اور بیماری کے متعلق مزید تفصیلات معلوم کیں- پھر ان سے کہا کہ وہ انھیں تھوڑی دیر بعد کال کرے گا-

ادھر ریاض صاحب بے چینی سے عمر کی کال کا انتظار کررہے تھے- اس سے بات کیے ہوۓ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا تھا مگر اس کا فون اب تک نہیں آیا تھا- اتنا وقت گزر جانے کے بعد ان کے دل میں خیال آیا کہ رات زیادہ ہوگئی ہے.

شائد عمر سوگیا ہوگا اور صبح فون کرے گا-

ان کی ماں کی حالت دم بہ دم خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی تھی- ریاض صاحب اور ان کی بیوی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں- ریاض صاحب نے باہر نکل کر بھی دیکھ لیا تھا مگر تمام میڈیکل اسٹور بند پڑے تھے-

اچانک ان کے موبائل کی بیل بجی- یہ عمر کا فون تھا- موبائل کے اسکرین پر اس کا نام دیکھ کر ان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں- انہوں نے جلدی سے کال رسیو کی- ان کے کانوں میں عمر کی آواز آئ- "ریاض انکل- دروازہ کھولیے- میں باہر کھڑا ہوں-"

ریاض صاحب کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا- وہ جلدی سے دروازے کی جانب بھاگے- دروازے پر عمر کھڑا تھا- گھر کے سامنے اس کی گاڑی نظر آ رہی تھی اور گاڑی کے پیچھے اس کے کلینک کی ایمبولینس تھی- یہ سارے انتظامات دیکھ کر ریاض صاحب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں-

"اتنے خراب موسم میں بیٹا تم نے بہت تکلیف کی-" ان کے منہ سے نکلا-

"جو کیفیت آپ نے بتائی تھی اس سے مجھے اندازہ ہوا تھا کہ آپ کی والدہ کی حالت ٹھیک نہیں ہے- انھیں مناسب علاج کی ضرورت ہے- ویسے بھی انھیں اتنی ٹھنڈ میں یہاں رکھنا مناسب نہ ہوگا- آپ کا فون ملتے ہی میں نے سارے انتظامات کرلیے تھے اور فوراً ہی نکل کھڑا ہوا تھا- اب جب تک موسم ٹھیک نہیں ہوجاتا انہیں اسلام آباد میں ہی رکھنا ہو گا-"

حیرت کے مارے ریاض صاحب سے کچھ بولا بھی نہیں جا رہا تھا- وہ اس بات پر حیران تھے کہ خراب موسم اور برفباری کے باوجود عمر اتنی رات کو ان کی والدہ کی بیماری کا سن کر وہاں آگیا تھا- بہرحال انہوں نے ماں کو جلدی جلدی گرم کمبل میں لپیٹ کر ایمبولینس میں لٹایا، گھر کو تالا لگایا اور بیوی کو ساتھ لے کر عمر کے ساتھ روانہ ہوگئے-

بہترین علاج اور مناسب دیکھ بھال کی وجہ سے ریاض صاحب کی والدہ جلد ہی صحت یاب ہوگئی تھیں- ان سب کا قیام یعقوب صاحب کے گھر پر ہی تھا- ایک روز ریاض صاحب نے عمر سے کہا- "عمر بیٹا- میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا-"

"انکل- ایسا نہ کہیے-" عمر نے نہایت ادب سے کہا- "اگر آپ کی جگہ کوئی دوسرا شخص بھی مجھے فون کرکے کسی مریض کے بارے میں بتاتا تو تب بھی میں ایسا ہی کرتا- ڈاکٹر کا پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے- چاہے کتنی بھی دشواریاں ہوں، ایک ڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ بیمار لوگوں کا علاج کرنے کے لیے ان تک پہنچے چاہے حالات کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں- اس میں احسان کی کوئی بات نہیں- یہ تو ہر ڈاکٹر کا فرض ہوتا ہے-"

یعقوب صاحب نے بھی عمر کی یہ بات سن لی تھی- انہوں نے فخریہ انداز میں قریب بیٹھی ہوئی اپنی بیوی کو دیکھا- وہ بھی عمر کی بات سن کر خوشی سے مسکرا رہی تھیں- وہ دونوں دل ہی دل میں اس بات پر الله تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے کہ اس نے انھیں اتنا فرض شناس بیٹا عنایت فرمایا ہے- احب نے بھی عمر کی یہ بات سن لی تھی- انہوں نے فخریہ انداز میں قریب بیٹھی ہوئی اپنی بیوی کو دیکھا- وہ بھی عمر کی بات سن کر خوشی سے مسکرا رہی تھیں- وہ دونوں دل ہی دل میں اس بات پر الله تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے کہ اس نے انھیں اتنا فرض شناس بیٹا عنایت فرمایا ہے-

Browse More Moral Stories