Naik Andesh - Article No. 1266

Naik Andesh

نیک اندیش - تحریر نمبر 1266

میں دفتر سے گھر جانے کے لیے نکلا تو راستے میں اچانک مجھے اپنی بیٹی گڑیا سے کیا ہوا وعدہ یاد آگیا۔

جمعرات 3 جنوری 2019

سید فرحان احمد
میں دفتر سے گھر جانے کے لیے نکلا تو راستے میں اچانک مجھے اپنی بیٹی گڑیا سے کیا ہوا وعدہ یاد آگیا۔اس نے مجھ سے کہا تھا:”ابو! آج آپ دفتر سے واپسی پر میرے لیے ایک خوب صورت اور مضبوط اسکول کا بستہ ضرور لے آئیے گا۔میرا بستہ جگہ جگہ سے پھٹ گیا ہے ۔“
بیٹی سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا تو میں نے فوراً اپنی گاڑی کا رُخ مارکیٹ کی جانب موڑ دیا۔

میں نے ایک جگہ گاڑی روکی اور ایک دکان میں داخل ہو گیا ۔یہ ایک اچھی او ر بڑی سی دکان تھی ۔دکان دار نے مجھے اچھے اور خوب صورت بستے دکھائے،جن میں سے ایک میرے دل کو بھاگیا۔میں نے قیمت طے کرنے کے بعد دکان دار سے کہا:”ٹھیک ہے بھائی صاحب! آپ یہ والا بستہ پیک کردیں۔“
دکان دار بستہ پیک کرنے لگا تو اتنے میں ایک بچی کی معصوم سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔

(جاری ہے)


”امی! مجھے بھی ویساہی بستہ لینا ہے ،جیسا اِن انکل نے لیا ہے ۔“بچی نے میری طرف اُنگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
بچی کی یہ فرمایش سن کر اس کی والدہ کے چہرے پر پریشانی کے آثارنمودار ہو گئے۔وہ بولیں :”بیٹا! وہ بستہ تو کافی مہنگا ہے ۔“
”مگر امی! مجھے ویسا ہی بستہ چاہیے۔“بچی نے پھر فرمایش کی ۔
”زویا بیٹی ! تم یہ والا بستہ دیکھو ․․․․․یہ بھی تو اچھا ہے نا․․․․“زویا کی والدہ نے اسے ایک قدرے کم قیمت والا بستہ دکھاتے ہوئے کہا۔

مگر زویا تو بچی تھی ،اب اسے بھلا کیا معلوم تھا کہ مہنگائی کیا ہوتی ہے ۔اس کی بس ایک ہی فرمایش تھی کہ مجھے تو انکل جیسا بستہ ہی چاہیے۔
زویا کی والدہ اپنی بچی کی اس معصوم خواہش پر پریشان دکھائی دے رہی تھیں ۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر کس طرح سے اپنی بیٹی کو سمجھائیں ۔میں چوں کہ یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا اور سچ پوچھیں تو میرا دل بھی اس معصوم سی بچی کی خواہش کو پورانہ ہوتے دیکھ کر پگھل رہا تھا۔

وہ بچی زویا میری بیٹی گڑیا جتنی ہی تھی ۔میں سوچ رہا تھا کہ میں تو اپنی بیٹی کے لیے بستہ لے جاؤں گا اور یہ ․․․․․یہ زویا․․․․․یہ بھی تو کسی کی بیٹی ہے اور یہ یوں اس طرح سے خالی ہاتھ چلی جائے․․․․محض اس وجہ سے کہ اس کی والدہ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ اس کی خواہش کو پورا کرسکیں ۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں کیا کروں ،کیسے اس بچی کی معوم سی خواہش کوپورا کروں ۔
اتفاق سے اس وقت میرے پاس اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ میں ایسا ہی ایک اور بستہ خرید کر اس بچی کودے دیتا۔آخر میں کیا کروں ،میں کیسے اس بچی کی مدد کروں ،میں اسی کش مکش میں مبتلا تھا کہ اچانک ایک خیال میرے دماغ میں آیا،کیوں نہ میں یہ بستہ اس بچی کودے دوں ۔میں تو اللہ کے فضل سے صاحبِ حیثیت بھی ہوں ۔میں تو بعد میں بھی یہ بستہ خرید سکتا ہوں ،مگر اس بچی کی والدہ کے لیے تو یہ ممکن نہ ہوگا،لہٰذا اس خیال کے آتے ہی میں ان دونوں کے قریب گیا اور سلام کیا۔

”السلام علیکم،بہن جی!“
”جی ․․․․․جی وعلیکم السلام ! جی فرمائیے بھائی صاحب !“زویا کی والدہ نے مجھے اجنبی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”بہن جی! میں اپنی بیٹی کے لیے اسکول کا بستہ خرید نے آیا تھا۔ میری بیٹی بھی لگ بھگ آپ کی زویا کی ہم عمر ہی ہے ۔ماشاء اللہ بہت پیاری بچی ہے آپ کی۔“میں نے زویا کے سرپر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

”جی ․․․․جی بھائی صاحب!“زویا کی والدہ نے کہا۔
”بہن جی! میں نے آپ کی اور زویا بیٹی کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ جو بستہ میں نے اپنی بیٹی گڑیا کے لیے لیا ہے ،وہ میں اپنی زویا بیٹی کو بطور تحفہ دے دوں ۔میں ایسا ہی دوسرا بستہ خرید لوں گا۔“
زویا کی والدہ قدرے حیران ہوتے ہوئے بولیں :”بھائی صاحبً یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟دیکھیں بھائی صاحب میں آپ کے نیک جذبات کی قدر کرتی ہوں اور آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری بیٹی کے لیے سوچا ،لیکن بھائی صاحب! مجھے یہ سب اچھا نہیں لگے گا اور پھر جب زویا کے والدکو اس بات کا پتا چلے گا تو وہ بھی بہت خفا ہوں گے ۔
لہٰذا میں معذرت چاہتی ہوں ۔میں آپ سے یہ بستہ نہیں لے سکتی ۔“
”بہن جی!درست فرمایا آپ نے ۔میں آپ کے خیالات کی قدر کرتا ہوں ،مگر بہن جی! میں زویا کو اپنی بیٹی سمجھ کر محض اللہ کی رضا اور اپنی خوشی کی خاطر ایسا کر رہا ہوں ۔بس ! زویا بیٹی خوش ہو جا ئے گی تو مجھے بھی بے حد خوشی ہو گی ۔برائے مہربانی ، آپ میری اس پیش کش کو قبول کر لیجیے۔
“میں نے التجائیہ لہجے میں کہا۔
”ٹھیک ہے بھائی صاحب! آپ جب اصرار کررہے ہیں تو میں قبول کر لیتی ہوں ۔اللہ آ پ کو جزاے خیر عطا فر مائے۔“
”بہت بہت شکریہ ! بہن جی۔“میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا اور پھر جلدی سے بستہ زویا کے حوالے کردیا۔
زویا اپنا من پسند بستہ پا کر بہت خوش ہوئی ۔اس کا چہرہ خوشی سے کھِل اُٹھا تھا ۔
”شکر یہ انکل !“ زویا نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔

میں جب گھر پہنچا تو گڑیا کو اپنا منتظر پایا۔میرے ہاتھ میں کچھ نہ پا کر گڑیا کا چہرہ بُجھ سا گیا۔”ابو ! آج آپ پھر بھول گئے نا․․․․․! آج بھی آپ میرے لیے بستہ لے کر نہیں آئے ؟“گڑیا نے رنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
میں نے گڑیا کو قریب بٹھایا اور کہا:”بیٹی ! میں آج آپ سے کیا گیا وعدہ بالکل نہیں بھولا تھا اور میں نے آپ کے لیے ایک پیارا سا بستہ بھی خرید لیا تھا ،لیکن پھر․․․․․․․“
”لیکن کیا ابو!“گڑیا نے تجسس سے پوچھا۔

اور پھر میں نے ساری کہانی سناڈالی ۔میری اہلیہ بھی دل چسپی سے سن رہی تھی ۔میری بات مکمل ہونے کے بعد میری اہلیہ اور گڑیا کے چہرے خوشی سے جگمگا رہے تھے ۔
”یہ تو آپ نے بڑی نیکی کا کام کیا ہے ۔اللہ آپ کو اس کا اجر دے ۔“میری بیوی خوش ہوتے ہوئی بولی۔
”ہاں ابو ! یہ تو واقعی آپ نے اچھا اور نیک کام کیا ہے۔ مجھے آپ کے اس عمل سے بے حد خوشی ہوئی ہے ۔
ابو ! مجھے فخر ہے آپ پر کہ آپ ایک نیک دل اور شفیق انسان ہیں ۔جو نہ صرف اپنوں کے لیے ،بلکہ دوسروں کی خوشی کے لیے بھی سوچتے ہیں ۔“
گڑیا کا چہرہ جواب سے کچھ دیر پہلے مُر جھایا ہوا تھا ،اب خوشی سے کھِل اُٹھا اور پھر گڑیا بے ساختہ میرے گلے سے لگ گئی۔جب کہ بیوی کے چہرے پر بھی خوشی کے آثار نمایاں تھے اور میں بھی اپنے آپ کو کافی پُر سکون اور ہلکا محسوس کررہا تھا۔

Browse More Moral Stories