Naik Nabina - Article No. 1299

Naik Nabina

نیک نابینا - تحریر نمبر 1299

ایک ملک کے کسی گاؤں میں عبداللہ نامی ایک کسان اپنی بیوی اور اکلوتے بیٹے حمید کے ساتھ رہا کرتا تھا ۔

بدھ 13 فروری 2019

عبدالرؤف تاجور
ایک ملک کے کسی گاؤں میں عبداللہ نامی ایک کسان اپنی بیوی اور اکلوتے بیٹے حمید کے ساتھ رہا کرتا تھا ۔
عبداللہ ایک قناعت پسند اور صبر کرنے والا آدمی تھا ،اس لیے اس کی زندگی سکون سے گزررہی تھی ۔اسے بس ایک ہی دکھ تھا کہ اس کا اکلوتا بیٹا بچپن میں ایک حادثے کی وجہ سے نابینا ہو گیا تھا۔بظاہر اس کی آنکھوں میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی تھی اور قریب سے دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ نابینا ہے ۔


عبداللہ نے اپنے بیٹے کے علاج معالجے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،لیکن قدرت کو یہی منظور تھا کہ حمید کی بینائی بحال نہ ہو ۔ان ہی دنوں ولایت سے آنکھوں کا ایک بہت بڑا معالج شہر میں آیا تو عبداللہ نے حمید کو اس کے سامنے پیش کر دیا۔

(جاری ہے)

معالج نے دو گھنٹے تک بڑی توجہ سے اس کا معائنہ کیا ،لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔اسے حیرت تھی کہ جب آنکھوں کے تمام رگ وپٹھے صحیح صحیح کام کررہے ہیں تو پھر آنکھیں بصارت سے محروم کیوں ہیں ۔


”مجھے بے حد افسوس ہے ! میں آپ کے بیٹے کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔“معالج نے مایوسانہ لہجے میں کہا:
”چوں کہ میں اس کے نابینا پن کی وجہ نہیں سمجھ سکا اس لیے علاج بھی نہیں کر سکتا۔حوصلہ رکھیے اور اللہ سے دعا مانگتے رہیے۔ممکن ہے ،کوئی معجزہ آپ کے بیٹے کی آنکھوں کی روشنی بحال کر دے۔“
معالج نے بالکل سچ کہا تھا۔معالج کی بات سن کر عبداللہ اپنے حواس کھو بیٹھا۔
اس کے مزاج میں سختی ،چڑِ چڑِا پن اور بے رحمی پیدا ہوتی چلی گئی اور اب وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بیزاری کا برتاؤ کرنے لگا تھا۔حال آنکہ نابینا پن میں اس بے چارے کاکوئی قصور نہیں تھا۔حمید چپ چاپ ڈانٹ ڈپٹ سہتا رہا ،اور کرتا بھی کیا ،کہاں جاتا ،کس سے فریاد کرتا! گھر میں صرف ایک ماں تھی ،جو اس کا سہارا بنی ہوئی تھی ۔وہ بیٹے کی طرف داری کرتی تو باپ اسے بھی باتیں سنا دیتا۔

اس طرح بُرا بھلا اور جھڑکیاں سنتے بارہ سال بیت گئے ۔اچانک ایک دن ایک زہریلے سانپ نے ڈس کر اس کی شفیق ماں کو اس سے جدا کردیا۔اب حمید بالکل بے سہارا ہو چکا تھا۔ماں کے اس طرح اچانک مرجانے سے حمید کچھ ایسا بد حواس ہوا کہ اس نے اپنے گھر اور باپ کو چھوڑ کر شہر جانے کا ارادہ کر لیا۔اس نے کسی سے سنا تھا کہ شہر میں کچھ ایسے نیک اور ہمدرد لوگ بھی رہتے ہیں ،جو معذوروں کے رہنے ،کھانے پینے اور قیام کا انتظام کرتے ہیں اور جو پڑھنا چاہیں ،اس کی تعلیم کا انتظام بھی کرتے ہیں ۔
مجھے موقع ملا تو میں بھی خوب دل لگا کر پڑھوں گا اور ایک دن بڑا آدمی بن جاؤں گا ۔گھر سے نکلتے وقت اسے تھوڑا سادکھ توضرور ہوا ،لیکن اس نے اپنے جذبات پر قابو پالیا۔ابھی حمید گھر سے نکل کر تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اس کی لاٹھی کسی انسانی جسم سے ٹکرائی تو وہ سنبھل گیا۔
”معاف کرنا بھائی! میں نابینا ہوں ،اس لیے غلطی ہو گئی!“حمید نے بری لجاحت سے کہا۔

”کوئی بات نہیں بابا! بس اللہ کے نام پر کچھ دیتا جا۔“آواز آئی تو حمید سمجھ گیا کہ کوئی فقیر ہے ،جو سرِ راہ بیٹھا ہے ۔
”میں تمھیں کیا دوں بھائی! میں تو خود خالی ہاتھ ہوں ۔میری جیب میں صرف ایک معمولی ساسکہ پڑا ہے ،وہ بھی تمھارے کیا کام آئے گا!“
”بس وہی دے دو بابا!اللہ تمھارا بھلا کرے گا۔“
”جیسی تمھاری مرضی بھائی! اگر یہ سکہ تمھارے کسی کام آسکے تو مجھے خوشی ہو گی۔

حمید نے وہ سکہ جیب سے نکال کر فقیر کو دے دیا اور اس کے ساتھ ہی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے دھویں کی ایک چادر سی ہٹ گئی ہو اور آنکھوں میں روشنی کی ہلکی سی شعاع داخل ہو گئی ہو ۔یہ ایک نیا تجربہ تھا ،کیوں کہ آج تک ایسا نہیں ہوا تھا ۔حمید نے سر جھٹکا ،لیکن کچھ سمجھنے سے قاصر رہا۔
یہاں سے تھوڑی دور پرا سے ایک بوڑھی فقیر نی ملی:”اللہ کے نام پر بیٹا! کچھ دیتا جا ۔
اللہ تیری مرادیں پوری کرے۔“
حمید ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔اب اس کے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں تھا۔
”میں تمھیں کیا دوں مائی!“ حمید نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا :”میرے پاس تو اب کچھ بھی نہیں ہے ۔
کاش میرے پاس ڈھیر سارے سکے ہوتے تو میں سب تمھیں دے دیتا۔“
اچانک فقیر نی کی نظر اس کے کاندھے پر رکھی پر انی شال پر پڑی تو وہ خوشامدانہ لہجے میں بولی :”اگر تیرے پاس کچھ نہیں ہے تو مجھے اپنی یہ شال ہی دیتا جا۔
میں رات بھر سردی سے کانپتی رہی ہوں ،کیوں کہ میرے پاس اوڑھنے کو کچھ بھی نہیں ہے بیٹا!“
حمید گڑ بڑا گیا۔اسے اُمید نہیں تھی کہ فقیر نی یہ شال مانگ لے گی۔
”نن․․․․․نن․․․․․․․․نہیں مائی! میں یہ شال کیسے تجھے دے سکتا ہوں !“ حمید نے بوکھلا ئے ہوئے لہجے میں کہا:”یہ میری مرحومہ ماں کی نشانی ہے ۔اگر میں یہ شال تجھے دے دوں تو میرے پاس کیا بچے گا؟“
”دیکھ بیٹا! ذرا غور کر۔
تُو جوان ہے ۔تندرست ہے ۔طاقت ورہے ۔سردی اور ٹھنڈکا مقابلہ کر سکتا ہے ،
لیکن میں ایک غریب فقیرنی ہوں ۔میرے پاس توڈھنگ کے کپڑے تک نہیں ہیں ۔اگر تُو مجھے یہ شال دے دے تو میری جان بچ جائے گی ۔ورنہ یہ سردی تو مجھے کسی دن مارڈالے گی۔تیری ماں تو مرگئی بیٹا! اب اس کا کیا غم ۔میں بھی تیری ماں کی طرح ہوں ۔مجھے بچالے میرے بچے ․․․․․مجھے بچالے۔

حمید کا دل ہمدردانہ جذبات سے بھر گیا اور آنکھیں نم ہو گئیں :”تم نے ٹھیک کہا بڑی بی ! میں جوان ہوں ،
تن درست ہوں ،طاقت ور ہوں ۔میں سردی کا مقابلہ کر سکتا ہوں ۔میرے مقابلے میں تمھیں اس شال کی زیادہ ضرورت ہے ۔لومائی ! اب یہ شال تمھاری ہوئی۔“حمید نے شانے سے شال اُتار کر بڑھیا کو دے دی۔عین اسی لمحے اس کو ایسا محسوس ہواجیسے اس کی آنکھوں میں بجلیاں سی کوندگئی ہوں ۔

حمید بُری طرح بوکھلا گیا:”یا اللہ! یہ میری آنکھوں کو کیا ہورہا ہے ۔میں تو پہلے ہی نابینا ہوں ۔اب اس سے بڑھ کر آپ مجھے اور کس امتحان میں ڈالیں گے ۔“اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا ،لیکن اس کے حیرت کی انتہانہ رہی ،جب اس نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھوں میں چھائی ہوئی گہری تاریکی بہت ہلکی ہو چکی ہے اور وہ لوگوں کے دھندلے سے سائے دیکھ سکتا ہے ،لیکن اس کے چاروں طرف کی چیزیں گڈمڈ ہورہی تھیں اور حمید یہ تعین کرنے سے قاصر تھا کہ یہ کیا چیزیں ہیں ۔

وہ حیرت اور خوشی کے ساتھ بڑ بڑا تا ہوا قدم بہ قدم اس ندی کے کنارے پہنچ گیا ،جسے عبور کرکے وہ شہر پہنچ سکتا تھا،لیکن وہ تنہا اسے عبور نہیں کر سکتا تھا ،کیوں کہ یہ ایک انتہائی خطر ناک پہاڑی ندی تھی ،جس کے پانی میں اتنی طغیاتی تھی کہ اچھے خاصے طاقت ور آدمیوں کے قدم بھی اُکھڑ جاتے تھے ۔حمید ندی کے کنارے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر ایسے لوگوں کا انتظار کرنے لگا جو اسے ندی پار کرادیں ۔

اچانک اس کے کانوں میں ایک ایسی آواز پڑی کہ وہ مضطرب ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
”ارے یہ تو میرے بابا کی آواز ہے ،مگر وہ یہاں کہاں ! میں تو انھیں گھر پر سوتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں ۔“حمید بڑ بڑا یا اور پھر بے تابانہ انداز میں چیخا:”بابا! کیا یہ آپ ہیں ؟آپ ندی کے بیچ میں کیسے پہنچ گئے ،میں تو آپ کو گھر پر سوتا ہوا چھوڑ کر آیا تھا ؟“
”کون حمید؟“ہاں بیٹے! یہ میں ہوں ۔
تمھارا بابا۔مجھے بچالو میرے بچے ! میں ڈوب رہا ہوں ۔میں ایک کائی زدہ چٹان سے چمٹا ہوا ہوں ،لیکن میں زیادہ دیر تک اسے پکڑ ے نہیں رہ سکتا۔مجھے بچاؤ حمید! میری مدد کرو ،میرے بچے !“
اچانک بے زاری کی ایک شدید لہر حمید کے پورے وجود پر چھاگئی اور وہ تلخ لہجے میں بولا:”آپ نے میرے ساتھ کون سا اچھا سلوک کیا ہے! آپ روزانہ ذرا ذراسی بات پر مجھے اور میری ماں کو بُر ا بھلا کہتے رہے ۔
اگر میں نابینا ہو گیا تھا تو اس میں میرا یا میری ماں کا کیا قصور تھا ۔اب آپ کس منھ سے مدد مانگ رہے ہیں ؟“
”میں اپنی سب غلطیاں تسلیم کرتا ہوں میرے بچے !“ حمید کے باپ کی آواز آئی :”لیکن یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے حمید بیٹے! پہلے مجھے بچانے کی کوشش کرو۔اگر میں بچ گیا تو تم سے ہاتھ جوڑ کر اپنے رویے کی معافی مانگ لوں گا۔“
حمید کا دل بھر آیا اور دل میں محبت کا جذبہ شدت سے اُبھر آیا۔

”ٹھیک ہے بابا! میں آ پ کو بچانے کی پوری کوشش کرتا ہوں ۔آپ جیسے بھی ہیں ،میرے والدین ہیں اور آپ کو بچانا میرا فرض ہے ۔“
اتنا کہہ کر حمید بے دھڑک ندی میں کمر تک اُتر گیا۔
”یہ لیں بابا! میری لاٹھی کو مضبوطی سے پکڑ لیں ۔میں آپ کو کھینچ لوں گا۔حوصلہ رکھیں بابا! آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔“اور اتنا کہہ کر حمید نے انداز ے سے اپنی لاٹھی باپ کی طرف بڑھائی ،لیکن اب دیر ہو چکی تھی اور اس سے پہلے کہ اس کا باپ لاٹھی پکڑ سکتا،پانی کے ایک زبردست ریلے نے اسے اُٹھا کر بہت دور پھینک دیا۔

”الوداع میرے بچے ! تم نے مجھے بچانے میں بڑی دیر کردی !“ اور ان الفاظ کے ساتھ ہی حمید کا باپ بہتا ہوا بہت دور چلا گیا۔حمیدز اروقطار روتا ہوا ندی کے کنارے سے نکل کر درخت کے نیچے آبیٹھا۔
”تم بھی ساتھ چھوڑ گئے بابا! ماں تو پہلے ساتھ چھوڑ چکی تھی ۔اب میں دنیا میں بالکل اکیلا رہ گیا ہوں ۔
میں کس کے سہارے جیوں گا بابا!“ حمید خود کلامی کے انداز میں کہہ رہا تھا
اچانک اس نے اپنے کاندھے پر کسی کا نرم ہاتھ محسوس کیا:”نہ رو بچے ! نہ رو۔

کوئی ان دیکھا وجود کہہ رہا تھا:”پگلے ! یہ تو خوشی منانے کا موقع ہے اور تُو رورہا ہے ۔تیراباپ ندی میں ڈوبا نہیں ،بلکہ زندہ ہے اور گھر پر تیرا انتظار کررہا ہے اور سن ! اپنی بند آنکھیں کھول کر روشنی اور خوب صورت دنیا کودیکھ! ہاں ڈر مت ،اپنی آنکھیں کھول میرے بچے ! اللہ نے تیرے نیک اعمال سے خوش ہو کر تیری بینائی بحال کر دی ہے ۔راستے میں اپا ہج فقیر کا ملنا ،بوڑھی فقیرنی کو شال دینا اور باپ کو بچانے کے لیے بلا دھڑک کوشش کرنا ،یہ سب قدرت کے امتحانات تھے میرے بچے ! جن میں تُو پورا اُتر ا اور اب تُو سب کچھ دیکھ سکتا ہے ،ہاں ،سب کچھ! گھر جا اور بابا کے گلے لگا جا اور اسے بتا کہ تُو سب کچھ دیکھ سکتا ہے اور اب تُونابینا نہیں رہا،آنکھوں والا ہوگیا ہے ۔“

Browse More Moral Stories