Nanhi Pari - Article No. 2404

Nanhi Pari

ننھی پری - تحریر نمبر 2404

ہانیہ بہت ہی پیاری اور اچھی بچی تھی مگر شرارتیں بہت کرتی تھی نازیہ دن بھر اس کا خیال رکھتی اس کے پیچھے پیچھے رہتی کہ کہیں کوئی نقصان نہ پہنچا لے خود کو

منگل 29 نومبر 2022

آسیہ محمد عثمان
ہانیہ ہانیہ اپنے کھلونے سمیٹ کر رکھ دو کہاں گھوم رہی ہو۔ہانیہ یہ کیا کیا سارا پانی گرا دیا۔ہانیہ اب یہ کیا کیا سالن میں ہاتھ کیوں ڈالا۔ہانیہ تم تو سو رہی تھی باہر کب گئیں۔ہانیہ اب اگر موبائل کو ہاتھ لگایا تو میں ناراض ہو جاؤں گی۔ہانیہ ہانیہ اور بس ہانیہ پورے گھر میں نازیہ اپنی تین سالہ پیاری سی بیٹی کی شرارتیں اور اس کی پھیلائی چیزوں کو سمیٹی رہتی ہانیہ بہت ہی پیاری اور اچھی بچی تھی مگر شرارتیں بہت کرتی تھی نازیہ دن بھر اس کا خیال رکھتی اس کے پیچھے پیچھے رہتی کہ کہیں کوئی نقصان نہ پہنچا لے خود کو۔
ابھی نازیہ گھر کی صفائی کرکے چائے کا کپ ہاتھ میں لے کر بیٹھی ہی تھی کہ صحن میں کچھ گرنے کی آواز آئی۔نازیہ دوڑ کر صحن میں گئی۔

(جاری ہے)

ہانیہ میڈم نے وائپر اُٹھایا ہوا تھا اور ساتھ ہی بالٹی سے پانی نکال نکال کر صحن میں پھیلا رہی تھی۔نازیہ نے جھٹ سے ہانیہ کو گود میں اُٹھا لیا اور پیار سے کہا،دادی اماں!میں نے صفائی کر لی ہے اب آپ کس خوشی میں بارش کر رہی ہیں۔


ایسے ہی ایک دن نازیہ مٹر پلاؤ دسترخوان پر رکھ کر سلاد اور رائتہ لینے باورچی خانے تک گئی تھی۔واپس آ کر دیکھا تو ہانیہ میڈم نے پلاؤ میں گلاس بھر کر پانی ڈالا ہوا تھا جیسے کھچڑی بنائی ہو نازیہ نے گہری سانس لی اور غصہ ہضم کر گئی۔ایک دن تو حد ہی ہو گئی ہانیہ میڈم نے باتھ روم میں خود کو بند کر لیا کچھ دیر تو ٹھیک رہا مگر جب ماں کی یاد آئی تو ہانیہ نے رونا شروع کر دیا۔
اب نازیہ باتھ روم کے باہر کھڑی رو رہی تھی اور ہانیہ اندر۔تھوڑی دیر بعد ہانیہ کے بابا اسد بھی آ گئے۔اسد نے ہانیہ کو باتوں میں لگایا اور کہا جیسا بابا کریں آپ بھی ویسا ہی کریں۔اسد نے پہلے دروازہ بجایا کھولو ہانیہ۔ہانیہ نے بھی دوسری طرف سے دروازہ بچایا دروازہ کھولو ہانیہ۔اسد خوش ہو گیا کام بن گیا۔اسد نے پھر کہا۔میں کنڈی کھولتا ہوں ہانیہ نے بھی یہی الفاظ دھرائے۔
اسد نے کنڈی کو آگے پیچھے کیا اور کہا میں نے کنڈی کھول دی۔ہانیہ نے جب یہی عمل دھرایا تو واقعی کنڈی کھل گئی۔یوں نازیہ کی جان میں جان آئی۔
ہانیہ کی شرارتیں خاندان بھر میں مشہور تھیں۔ان ہی شرارتوں کی وجہ سے ہانیہ سب کی لاڈلی تھی۔آج ہانیہ کی چھوٹی پھوپھو کی رخصتی تھی گھر میں شادی کا ماحول تھا سب تیاریوں میں مصروف تھے ہانیہ کو بھی گلابی فراک گلابی پمپی اور رنگ برنگ کلیپس سے بالوں کو سجایا ہوا تھا۔
نازیہ نے بھی خوب تیاری کی ہوئی تھی اب وہ ہانیہ کو مہمانوں کے سپرد کرکے خود ذرا میک اپ کرنے چلی گئی۔ہانیہ بھی مزے سے اپنے ماموں اور چچاؤں کے ساتھ گھوم رہی تھی۔بارات بھی آ گئی تھی مہمانوں کا استقبال نازیہ نے خوب دل سے کیا۔اب نکاح شروع ہوا تو نازیہ کو یاد آیا کہ ہانیہ کو بھی لے آؤں کب سے میں نے دیکھا بھی نہیں۔نازیہ نے دوپٹہ سر پر لیا اور اسد کو آواز دی۔
ہانیہ کو مجھے دے دیں وہ کب سے باہر ہے۔اسد نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی مگر ہانیہ تو کہیں بھی نہیں تھی۔اسد نے کہا۔دیکھو اندر ہی ہو گی۔
نازیہ نے کہا۔نہیں وہ اپنے چاچو کے پاس تھی آپ پوچھیں ان ہی کے پاس ہو گی۔اسد نے نازیہ کو اندر جانے کا کہا اور خود ہانیہ کو تلاش کرنے لگا۔کچھ دیر بعد نکاح بھی ہو گیا اب رخصتی کی باری تھی اسد نے بہن کو محبت سے رخصت کیا۔
مگر ہانیہ اب تک لاپتہ تھی۔جب سب مہمان جا چکے تو نازیہ نے اسد کی طرف دیکھا۔ہانیہ کہاں ہے؟اب اسد کا ضبط ٹوٹ چکا تھا رات کے بارہ بج رہے تھے ننھی پری ہانیہ کا کچھ پتہ نہیں تھا پورا گھر دیکھ لیا محلے میں بھی پوچھا مگر کچھ پتہ نہیں چلا۔نازیہ کا تو رو رو کر بُرا حال ہو رہا تھا وہ خود کو ذمہ دار ٹھہرا رہی تھی کاش میں نے اسے اکیلا چھوڑا ہی نہیں ہوتا بُرے بُرے خیالات اس کے ذہن میں آتے اور اس کے رونکٹے کھڑے ہو جاتے کہیں یہ اغواکاروں کا تو کام نہیں کسی نے پکڑ تو نہیں لیا۔
کہیں بے حوش تو نہیں کر دیا ہانیہ رو رہی ہو گی۔
اسی درد اور اذیت میں رات کے دو بج گئے۔اسد نے بائیک کی چابی اُٹھائی اور کہا میں تھانے جا رہا ہو ایف آئی آر کروانے۔بس اب چاروں طرف اندھیرا چھا رہا تھا۔نازیہ جائے نماز پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔تب ہی ٹیبل کے نیچے سے ننھی سی آواز آئی مما مما۔ہانیہ آنکھوں کو مسلتی ہوئی ماں کی گود میں بیٹھ گئی۔
اس وقت اکثر ہانیہ بھوک سے جاگ جاتی تھی۔مما نانا تھاؤں گی۔اس آواز نے گھر والوں کے چہرے چمکا دیئے سب زور سے ہنسنے لگے اسد نے ہانیہ کو گود میں اُٹھا لیا۔میڈم آپ کی آج کی شرارت نے تو ہماری جان ہی نکال دی تھی کوئی ٹیبل کے نیچے بھی سوتا ہے کیا۔نازیہ نے شکر کا سجدہ کیا۔اور سوچنے لگی جن ماؤں کے بچے سچ میں گم ہو جاتے ہیں یا اغوا ہوتے ہیں ان ماؤں پر کیا قیامت ٹوٹتی ہو گی۔اللہ سب کے بچوں کی حفاظت کرے۔آمین

Browse More Moral Stories