Naya Darwaza - Article No. 2063

نیا دروازہ - تحریر نمبر 2063
اگر آپ ایسے کیک بنا دیا کریں تو میں ان کو بیچ سکتا ہوں۔ہو سکتا ہے ہمارے مسائل اس سے حل ہو جائیں
بدھ 15 ستمبر 2021
کورونا کی وبا پھیلی تھی تو علی کا گھرانہ بھی اس سے متاثر ہوا۔والد صاحب پہلے ہی دنیا سے گزر گئے تھے،گھر کا خرچ والدہ چلاتی تھیں۔وہ ایک اسکول میں چھوٹی سی کینٹین چلاتی تھیں اور گھر سے چیزیں بنا کر لے جاتی تھیں۔ان کے ہاتھ میں بہت ذائقہ تھا۔بچے ان کے چکن پراٹھا،رول اور چنے بہت پسند کرتے تھے۔دیگر چیزوں سے بھی تھوڑی بہت بچت ہو جاتی تھی،مگر جب سے اسکول بند ہوئے تھے تو ان کے گھر میں خاصی تنگی ہو گئی تھی۔
کیا ہمارے لئے کوئی نیا راستہ کھلے گا!علی نے خود سے سوال کیا۔
علی اس اُدھیڑ بُن میں باورچی خانے میں آیا تو دیکھا کہ اس کی امی اوون میں کیک بنا رہی تھیں۔
”امی!کیک․․․․؟“وہ حیرت سے بولا۔
امی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور بولیں:”گھر میں ایک سادہ سے کیک کی ساری اشیاء موجود تھیں تو سوچا کہ کیک بنا کر کھاتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
علی بھی مسکرانے لگا اور جب امی نے گرما گرم کیک اس کے آگے رکھا تو اچانک ایک خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں آیا۔اس نے کیک کھاتے ہوئے امی سے پوچھا:”امی!اگر آپ ایسے کیک بنا دیا کریں تو میں ان کو بیچ سکتا ہوں۔ہو سکتا ہے ہمارے مسائل اس سے حل ہو جائیں۔“
امی نے چند لمحے سوچا اور بولیں:”کیک تو میں تیار کر لوں گی،مگر ان کی فروخت ایک مسئلہ ہے۔“
”کیوں نہ ہم گھروں میں اس کو بیچیں۔خود ہماری بلڈنگ میں پچاس سے زائد گھر ہیں۔یہاں چاروں طرف فلیٹ ہی فلیٹ ہیں۔ہم کیک تیار کرکے گھروں تک پہنچائیں گے۔“علی نے جوش بھرے لہجے میں کہا۔
”مگر لوگوں کو کیسے پتا چلے گا کہ ہم کیک بنا کر فروخت کرتے ہیں۔“امی نے پوچھا۔
پھر سب کچھ ایک ایک کرکے ہوتا چلا گیا۔علی نے ایک پمفلٹ تیار کیا۔اس پر کیک کی تصویریں مختلف انداز سے نکلوا کر اس کی قیمت درج کر دی اور خود جا کر ایک ایک فلیٹ میں بانٹ کر آیا۔قیمت بہت کم تھی اور جن لوگوں نے کیک کھایا،ان کو پسند آیا اور سب سے بڑھ کر بہت کم وقت میں گرما گرم کیک منگوانے والوں کے پاس پہنچ جاتا تھا۔کم خرچ بالا نشین والی بات ہوئی۔ٹیلی فون بار بار بجنے لگا۔جتنے زیادہ آرڈر آتے،علی بھاگم بھاگ پورے کرتا۔جتنا وہ تھکتا،اتنی ہی طمانیت محسوس کرتا۔پہلے ہی مہینے وہ اپنی بچت کا حساب کتاب کرنے بیٹھے تو حیران رہ گئے۔اتنی آمدنی کی توقع نہ تھی۔نہ انھوں نے کیک کا معیار گرنے دیا اور نہ قیمت بڑھائی۔بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا معیار بڑھتا گیا۔دوسرے ہی مہینے علی کی والدہ نے اپنی ایک سہیلی کو اپنی مدد کے لئے رکھ دیا۔کام بڑھا تو دور کے گھروں کے لئے ایک لڑکا رکھ لیا۔
ایک ٹی وی چینل کی خاتون ایک دن علی کے گھر پہنچی اور کہا کہ وہ علی اور اس کی والدہ کا انٹرویو کرنا چاہتی ہیں۔جب ان کا انٹرویو نشر ہوا تو ان کی شہرت پھیل گئی۔تب ایک سماجی خاتون ان کے گھر آئیں اور ان کو پیش کش کی کہ وہ ان کے ادارے میں ضرورت مند اور خواہش رکھنے والی خواتین کو کیک بنانا سکھائیں تو وہ ان کو معقول ماہانہ معاوضہ دیں گی۔
علی کی والدہ نے یہ سوچتے ہوئے ہامی بھر لی کہ اس طرح دوسروں کی مدد ہو سکے گی۔پھر وہ اس ادارے میں نہ صرف کیک بلکہ دوسرے کھانے بھی پکانا سکھانے لگیں۔کچھ عرصے کے بعد انھوں نے اپنا یوٹیوب چینل کھول لیا۔جلد ہی چینل سے اچھی آمدنی ہونے لگی اور ان کی آمدنی پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی۔
Browse More Moral Stories

اپنا اپنا کام
Apna Apna Kaam

عید کے جوڑے
EID K Jore

آمنہ اور تین بھالو
Amna Aur 3 Bhalu

پریوں کی ملکہ کا دربار
Pariyon Ki Malka Ka Darbaar

دانی بنا کھلاڑی
Dani Bana Khilari

رنگ برنگی تتلیاں
Rang Birangi Titliyan
Urdu Jokes
استاد اپنے شاگردوں سے
Ustaad apne shagirdon se
باپ بیٹی سے
Baap beti se
گاہک دکاندار سے
gahak dukandaar se
آلو
Aalo
میزبان مہمان سے
mezban mehman se
گدھا
Gadha
Urdu Paheliyan
کتیا بھونک کہ جو کہتی ہے
kutiya bhounk ke jo kehti hai
ایک جدائی لانے والی
ek judai lane wali
بے شک ہو نہ ہاتھ میں ہاتھ
beshak ho na hath me hath
جب دیکھو پانی میں پڑا ہے
jab dekho pani me para hai
اک ہے چیز بڑی انمول
ek hi cheez badi anmol
جب بھی دسترخوان بچھایا
jab bhi dastarkhwan bichaya