Neela Tota - Aakhri Hissa - Article No. 2204

Neela Tota - Aakhri Hissa

نیلا طوطا (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2204

میرے پوتوں نے شرارت سے طوطے کو بہت سی باتیں اور لطیفے سکھائے تاکہ میں بور نہ ہوں،اب وہ پیاری پیاری باتیں کرنے والا طوطا اُڑ گیا حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پنجرہ کھلا رہ جائے

جمعہ 4 مارچ 2022

عطرت بتول
آج سر میں درد ہے تو آج یہ ہو گیا آج وہ ہو گیا جب والدین وجہ پوچھتے تو آئیں بائیں شائیں کرتے،والدین پریشان تھے کہ کیا کریں امتحانات نزدیک آ گئے تھے،آخر تنگ آ کر والدین نے پروفیسر صاحب کے پاس جا کر وجہ پوچھنے کا فیصلہ کیا کہ آخر ایک دم یہ لڑکوں کا دل ٹیوشن سے اچانک اُچاٹ کیوں ہو گیا ہے،سب نے باہمی مشورے سے حمزہ اور بلال کے ابو کو نمائندگی کے لئے چُنا اور کہا کہ آپ پروفیسر صاحب سے عزت و احترام کے ساتھ بات کریں وہ جانتے ہوں گے کہ ان کے طالب علموں کے اس رویے کی وجہ کیا ہے،اتوار کے دن صبح چونکہ حمزہ کے ابو کی چھٹی تھی اس لئے وہ پروفیسر صاحب کی طرف گئے۔
پروفیسر صاحب نے ان کی بہت خاطر تواضع کی لیکن وہ بہت پریشان لگ رہے تھے ان کا اُترا ہوا چہرہ دیکھ کر حمزہ اور بلال کے ابو اپنی پریشانی بھول گئے۔

(جاری ہے)

”پروفیسر صاحب آپ کچھ پریشان نظر آ رہے ہیں خیرت تو ہے؟“انہوں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا،بس کیا بتاؤں،میرا ایک بہت نایاب نسل کا نیلا طوطا اُڑ گیا ہے،وہ طوطا بولنے والا تھا میرے بیٹے نے کچھ روز قبل ہی بھیجا تھا۔

اصل میں میرے بیٹے اور دو پوتے چھٹیوں میں میرے پاس آ رہے ہیں انہوں نے میرے لئے طوطا بھیجا، میرے پوتوں نے شرارت سے طوطے کو بہت سی باتیں اور لطیفے سکھائے تاکہ میں بور نہ ہوں،اب وہ پیاری پیاری باتیں کرنے والا طوطا اُڑ گیا حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پنجرہ کھلا رہ جائے،بس یہ غلطی مجھ سے ہی ہوئی“پروفیسر صاحب نے تفصیل سے اپنی پریشانی کا تذکرہ کیا، بلال اور حمزہ کے والد کو بھی اتنے نایاب طوطے کے گم ہونے کا بہت افسوس ہوا۔

”میرا ارادہ تھا کہ میرے سٹوڈنٹس کے امتحانات ختم ہو جائیں گے تب تک میرے پوتے بھی آ جائیں گے تو میں ایک کھانے کا اہتمام کروں گا جس میں سب کو بلاؤں گا کھانے کے بعد سب طوطے کو بولتا دیکھیں گے،یہ خوبصورت طوطا صرف رات کو چند گھنٹوں کے لئے بولتا تھا اور دن کو زیادہ وقت سوتا تھا۔بہت خوبصورت نیلا،چمکیلا طوطا“ پروفیسر صاحب نے افسردگی سے کہا بلال اور حمزہ کے ابو واپس آ گئے،چلتے ہوئے پروفیسر صاحب نے کہا”میری پریشانی اپنی جگہ لیکن بچوں کو لازمی بھیجا کریں،باقاعدگی سے ان کی پڑھائی کا حرج نہیں ہونا چاہیے آج کل وہ بے قاعدگی سے آتے ہیں یہ اچھی بات نہیں ہے چھٹیاں نہیں ہونی چاہیں“اب حمزہ اور بلال کے ابو نے سب والدین سے کہا کہ لڑکوں کی باتوں میں نہیں آنا اب انہیں سب کو باقاعدگی سے بھیجنا ہے،سب کے والدین نے اتفاق کیا۔

اگلے دن حمزہ کے ابو نے کہا کہ سب بچوں کو میرے گھر بھیج دیں۔ان کو میں خود چھوڑ کر آؤں گا،اگلے دن سب والدین نے ایسا ہی کیا،جس لڑکے نے بھی پس و پیش کی اس کے والدین نے کہا تم حمزہ کے گھر جا رہے ہو،سب لڑکے وہیں جا رہے ہیں اگر تم سب کا پروگرام بنا تو حمزہ کے گھر ہی بیٹھ کر پڑھ لینا،سب لڑکے یہ بات سن کر خوشی خوشی اپنے بیگ اُٹھائے حمزہ کے گھر پہنچ گئے،حمزہ بھی خوش تھا کہ سب آ گئے ہیں اب کوئی بہانہ بنا لیں گے،لیکن حمزہ کے ابو نے کہا”تم سب میرے ساتھ چلو میں خود تمہیں پروفیسر صاحب کے گھر چھوڑ کر آتا ہوں،انہوں نے بہت تاکید کی ہے کہ پڑھائی کا حرج نہیں چاہیے“اب لڑکے پس و پیش کرنے ہی والے تھے کہ حمزہ کے ابو نے سختی اور غصے سے کہا”میرے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں چلے گی“ اب جناب حمزہ کے ابو اور سب لڑکے ساتھ ساتھ باہر نکلے،پیدل چلتے ہوئے گلی سے نکل کر اب وہ سڑک پر پہنچنے والے تھے جہاں نزدیک ہی پروفیسر صاحب کی کوٹھی تھی،سردیوں کے دنوں میں آٹھ بجے ہی ایسا لگتا جیسے رات زیادہ ہو گئی ہو،اس روز شاید سٹریٹ بلب خراب تھا،ہلکے ہلکے اندھیرے میں لڑکے آہستہ آہستہ قدموں سے چل رہے تھے جیسے وہ جانا نہ چاہتے ہوں،گلی کے آخر میں برگد کا درخت تھا اس کے پاس سے گزر کر سڑک پر جانا تھا،حمزہ کے ابو تیزی سے مین روڈ پر پہنچ گئے پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو لڑکے برگد کے درخت کے تھوڑا پیچھے کھڑے تھے ان کے چہروں پر خوف کے آثار تھے جیسے وہ آگے بڑھنے سے ڈر رہے ہوں،حمزہ کے ابو کچھ حیران اور پریشان ہو کر پیچھے پلٹے اور لڑکوں کے پاس جا کر پوچھا”کیا بات ہے؟رُک کیوں گئے“لڑکے خاموش تھے اور ان کی نظریں برگد پر جمی ہوئی تھیں،اب حمزہ کے ابو نے اوپر نظر کی گھنا درخت تھا،اچانک پتوں کے سرسرانے کے ساتھ ہی ایک خوفناک سی آواز آئی”میں بھوت ہوں،میں ڈریکولا ہوں تمہیں کچا چپا جاؤں گا ہاہاہا،میں بھوت ہوں“تھوڑی دیر تو حمزہ کے ابو گنگ ہو کر رہ گئے لیکن اچانک ہی ساری بات ان کی سمجھ میں آ گئی،انہوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا سب لڑکے ان کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے اوپر سے مسلسل آوازیں آ رہی تھیں”میں بھوت ہوں میں بھوت ہوں“حمزہ کے ابو نے لڑکوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور آہستگی سے درخت پر چڑھنے لگے۔

درخت کی چوٹی پر پہنچ کر جہاں سے آواز آ رہی تھی انہوں نے اندازے سے ہی تیزی سے ہاتھ بڑھایا اور ان کی توقع کے عین مطابق نیلا طوطا ان کے ہاتھ میں آ گیا،ان کی گرفت میں آنے کے باوجود وہ چلا رہا تھا”میں بھوت ہوں میں بھوت ہوں“اب لڑکوں کا خوف دور ہو چکا تھا، کچھ وہ سمجھ چکے تھے اور کچھ حمزہ کے ابو نے انہیں پروفیسر صاحب کے طوطے کی گمشدگی کا بتا دیا۔
حمزہ کے ابو نے کہا”میں تم سب کے بہانے اچھی طرح سمجھ گیا ہوں،اس عمر میں جب کہ آپ بڑے ہو رہے ہیں جوان ہونے کو ہیں تو آپ کو شرم آ رہی تھی یہ بتاتے ہوئے کہ آپ کو ڈر لگتا ہے“سب لڑکے گھسیانے ہو گئے کیونکہ اصل وجہ یہ ہی تھی۔
حمزہ کے ابو نے پروفیسر صاحب کو ان کا نیلا طوطا دیا تو ان کی خوشی دیدنی تھی اور اب لڑکے بھی بہت خوش تھے ان سب کو اپنی پڑھائی کا فکر تو بہت تھا لیکن بھوت کے خوف سے پروفیسر کی طرف جانے سے گھبرا رہے تھے اور گھر میں بتانے سے شرمندگی محسوس کر رہے تھے اب وہ سب خوش تھے اور والدین مطمئن۔

Browse More Moral Stories