Nidamat - Article No. 1812

Nidamat

ندامت - تحریر نمبر 1812

اب افزا کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہو رہا تھا اور وہ سر جھکائے کھڑی تھی اور شرمندگی و ندامت کے آنسو اس کے چہرے پر رواں تھے

منگل 6 اکتوبر 2020

خنسہٰ محمد عقیل شاہ،لیاری،کراچی
”امی!میرے موزے کہاں ہیں؟پلیز آپ ڈھونڈ دیں ۔“افزا نے اپنی امی کو پکارتے ہوئے کہا ۔
”افزا!تم سے کتنی بار کہا ہے کہ موزے دراز میں رکھا کرو،مگر تمہاری سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی ۔ہر چیز اِدھر اُدھر پھینک دیتی ہو ۔“اس کی امی نے کہا ۔
”امی!اچھا اب نہیں کروں گی ۔
ابھی تو ڈھونڈ دیں مجھے اسکول کے لئے دیر ہو رہی ہے ۔“
”یہ دیکھو تم نے صوفے کے نیچے پھینک دیے تھے اور پریشان ہو،خود ڈھونڈ نہیں سکتی تھیں ۔“
امی نے افزا کو ایک چپت لگاتے ہوئے کہا:”اپنی اس عادت کو ختم کرو ۔“
کلاس میں تیسرا پیریڈ چل رہا تھا اور مس لیکچر دے رہی تھی ۔اس وقت پرنسپل صاحبہ کلاس میں داخل ہوئیں تو سب بچوں نے انھیں ادب سے سلام کیا اور پرنسپل نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو تمام بچے بیٹھ گئے ۔

(جاری ہے)


پرنسپل نے کہا:”بچوں!آپ سب کے لئے ایک خوشخبری ہے ۔ہفتے کو آپ سب کو اسکول انتظامیہ کی طرف سے پکنک پر لے جایا جا رہا ہے ۔ جو بچے جانا چاہتے ہیں وہ اپنا نام اپنی اساتذہ کے پاس لکھوا لے اور بچوں آپ سب کو صاف ستھرے ہو کر یونیفارم میں آنا ہے ۔وہاں پر بڑے بڑے لوگ آئیں گے ۔“
پرنسپل کے جاتے ہی بچے خوشی سے ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کون کون آئے گا ۔
افزا نے اپنی سہیلی فاطمہ سے پوچھا:”فاطمہ!تم پکنک پر آؤ گی ۔“
فاطمہ نے کہا:”ہاں اقرا!ہم دونوں مل کر خوب مزے کریں گے ۔“
افزا کو بھی اس کی امی نے اجازت دے دی،اس لئے وہ بہت خوش تھی ۔اسے بس ہفتے کے دن کا انتظار تھا ۔آخر ہفتے کا دن آہی گیا ۔افزا صبح جلدی اُٹھ گئی اور تیار ہونے لگی ۔اس نے یونیفارم اُٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو وہاں پر یونیفارم تھا ہی نہیں وہ بہت پریشان ہو گئی اور اسے یاد آیا کہ اس نے یونیفارم کل اُتار کر یہاں پر لٹکایا نہیں تھا ۔
پتا نہیں کہاں پھینک دیا تھا ۔افزا نے اپنی امی کو بتایا:”امی!میں نے یونیفارم کل پتا نہیں کہاں رکھا تھا مجھے یاد بھی نہیں آرہا اور اب میں پکنک پر کیسے جاؤں گی ۔“
میں تم سے ہمیشہ کہتی تھی نا کہ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھا کرو،لیکن تم نے کبھی میری بات ٹھیک طرح سے سنی ہی نہیں ۔تمہیں کسی بھی چیز کی قدر ہی نہیں ہے ۔اتنی لاپرواہی نہیں کرتے ۔
اب تم پکنک پر کیسے جاؤں گی ۔“اس کی امی نے غصے سے کہا ۔اب افزا کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہو رہا تھا اور وہ سر جھکائے کھڑی تھی اور شرمندگی و ندامت کے آنسو اس کے چہرے پر رواں تھے ۔
”امی!مجھے معاف کر دیں،میں نے آپ کی بات نہ مانی اور ہمیشہ لاپرواہی کرتی رہی ۔آج اس کی سزا مجھے مل گئی ۔اب میں پکنک پر بھی نہیں جا سکتی ہوں ۔“افزا نے روتے ہوئے اپنی امی سے معافی مانگی ۔”مجھے خوشی ہے بیٹا!کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور اُمید ہے تم آئندہ اپنی ہر چیز کا خیال رکھو گی ۔“امی نے افزا کو گلے لگاتے ہوئے کہا:”یہ لو اپنی یونیفارم ،یہ بے جگہ پڑی تھی ۔میں نے دھو کر استری کرکے رکھ دی تھی ۔“افزا کی باچھیں کھل گئیں اور وہ امی سے لپٹ گئی ۔

Browse More Moral Stories