Oh Mera Pyara Matto - Article No. 2261

Oh Mera Pyara Matto

اوہ میرا پیارا مٹو - تحریر نمبر 2261

زین بہت زیادہ افسردہ تھا کہ اس کا اتنا صحت مند مرغا ایک کمبخت ڈور نے قتل کر دیا تھا

جمعہ 20 مئی 2022

نازیہ آصف
زین چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا بہت لائق اور پیارا بچہ تھا۔اس کے دو ہی شوق تھے ایک پرندے پالنا اور دوسرا پتنگ اُڑانا۔اس نے اپنے گھر کے پچھلے حصے میں جو لان تھا۔وہاں چھ بطخیں،چھ مرغیاں اور دو بڑے مرغے بھی پال رکھے تھے۔جو بہت صحت مند تھے۔ایک مرغے کا نام کٹو اور دوسرے کا مٹو تھا۔وہ دونوں ڈھیروں دانہ کھاتے مگر پھر بھی ان کا پیٹ نہ بھرتا تھا۔
زین نے ان کے لئے ایک ننھا سا تالاب بھی بنا رکھا تھا جہاں وہ پائپ لگا کر روزانہ تازہ پانی بھر دیتا اور دانہ دنکا ڈال کر سکول چلا جاتا۔پرندے لان میں موجود امرود اور لیموں کے پیڑوں کے نیچے کھیلتے رہتے اور ساتھ ہی دوسرے کونے میں موجود کھجور کے تن آور درخت سے گرمی کھجوریں کھاتے رہتے۔

(جاری ہے)


زین سکول سے واپس آ کر پھر انھیں دانہ ڈالتا اور اپنی ڈور اور پتنگ لے کر چھت پہ چڑھ جاتا۔

شام تک پتنگ اُڑاتا۔زین کی امی کو بطخوں اور مرغیوں کے تازہ دیسی انڈے بھی وافر مقدار میں دستیاب ہو جاتے،جو زین اور اس کے بہن بھائیوں کی خوراک کا حصہ بن جاتے زین بھی اپنا من پسند انڈا کھا کر خود کو بہت صحت مند محسوس کرتا۔زین کے بابا یہ سوچ کر خوش ہوتے کہ چلو اچھا ہے میرا بچہ موبائل جیسی گندی بیماری سے تو بچا ہوا ہے۔
اسی طرح وقت بہت اچھے سے گزر رہا تھا،کہ ایک دن زین کو اپنے والدین کے ہمراہ اس کے ابو کے دوست کے گھر ایک پہاڑی گاؤں میں شادی پہ جانا پڑا۔
اس نے رات کو ہی تالاب بھر دیا اور پاس دانہ دنکا بھی بکھیر دیا۔وہ صبح سویرے ہی گھر سے نکلے اور دن بھر شادی میں شمولیت کے بعد جب رات گئے واپس آئے تو ایک بج رہا تھا۔سب تھکے ہوئے تھے تو فوراً سو گئے۔
اگلے روز اتوار تھا۔سب دیر تک سوئے رہے۔اس کی امی جاگیں اور وہ گھر کے پچھلے لان میں گئیں۔پرندوں کو دانہ ڈالا،کچھ پرندے تو دوڑتے ہوئے آئے مگر دو سفید بطخیں اور ایک بڑا مرغا مٹو نہیں آئے۔
وہ پریشان ہو گئیں۔آگے جا کر دیکھا تو وہ تینوں امرود اور لیموں کی کیاریوں کے درمیان سوکھی گھاس پھوس میں گرے ہوئے تھے۔ان کے ششکارنے پہ بھی وہ بطخیں اور مٹو نہ اُٹھ سکے۔وہ فوراً کمرے میں آئیں تو زین جاگ چکا تھا۔انھوں نے اسے سارا احوال بتایا تو زین دوڑتا ہوا لان میں گیا اس کے ابو بھی اس کے پیچھے آ گئے۔زین نے فوراً اپنے پیارے ”مٹو“ کو اُٹھایا،تو وہ ایسے بے خود سا ہوا پڑا تھا۔
مگر یہ کیا۔۔۔؟مٹو کے دونوں پنجے ڈور میں اُلجھے پڑے تھے اور اس کی ٹانگیں شدید زخمی ہو چکی تھیں جن سے مسلسل خون رس رس کر اس کے پنجوں پہ جم چکا تھا۔زین کے بابا نے فوراً بطخوں کو اُٹھایا تو ان بیچاریوں کا بھی یہی حال تھا۔سب کی ٹانگیں زخمی تھیں،زین کی ماما قینچی لے کر آئیں اور ڈور کاٹ کر پرندوں کی اُلجھی ٹانگوں کو آزاد کروایا۔مگر بھوک،پیاس اور زخموں کی شدت نے انھیں ادھموا کر دیا ہوا تھا۔
زین اپنے بابا کے ساتھ مل کر فوراً انھیں جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔جہاں پہ بھی کافی رش تھا پتہ چلا اکثر لوگوں کے جانور اور پرندے زخمی تھے۔اس لئے وہاں بھی کافی انتظار کے بعد جب ان کی باری آئی تو ڈاکٹر صاحب کے چہرے کو دیکھ کر زین بہت زیادہ پریشان ہو گیا۔کیونکہ انھوں نے بتایا کہ مرغا تو مر چکا ہے مگر بطخوں کے زخموں پہ انھوں نے دوائی لگا دی اور کچھ دوائی ساتھ دے بھی دی کہ گھر جا کے بھی لگاتے رہیں۔

زین بہت زیادہ افسردہ تھا کہ اس کا اتنا صحت مند مرغا ایک کمبخت ڈور نے قتل کر دیا تھا اور اس کی پیاری سفید بطخیں ابھی بھی اوندھی پڑی تھیں وہ کچھ کھا پی بھی نہیں سکتی تھیں۔سب گھر والے پریشان تھے۔زین کے آنسو ٹپ ٹپ گرتے دیکھ کر اس کے بابا بولے”بیٹا اسی لئے کہتا تھا پتنگ بازی اچھی چیز نہیں ہے“۔
زین بولا ”مگر بابا میری ڈور تو اندر الماری میں پڑی ہے“۔

اس کے بابا بولے بیٹا:”لڑکے چھتوں پہ پتنگیں اُڑاتے اور ایک دوسرے کی پتنگ کاٹتے ہیں تو ساتھ ہی ڈور بھی کٹ جاتی ہے۔پتنگ کا کاغذ تو آہستہ آہستہ گل سڑ جاتا ہے مگر ڈور ایسے ہی کہیں لٹکی رہتی ہے اور وہ درختوں کے ساتھ اُلجھ کر نیچے صحن یا لان میں بھی آ گرتی ہے۔پھر وہاں موجود پرندوں کے لئے ایسے ہی وبال جان بن جاتی ہے جیسے ہمارے ان پرندوں کے ساتھ ہوا“۔

زین جو اپنے مٹو کو کھو کر پہلے ہی بہت پریشان تھا رونے لگ گیا۔
اس کی امی نے اسے گلے لگا لیا اور کہنے لگیں ”بیٹے“ یہی بات سمجھنے کی ہے کہ ہم لوگوں نے اپنا ماحول،آب و ہوا تو آلودہ کی ہی ہے ساتھ ساتھ ہم پرندوں اور جانوروں کو بھی بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ہم بہت سادہ سی چیزوں اور کھیل کو بھی یوں اُلجھا رہے ہیں کہ کوئی بھی چیز صحت مند نہ رہ پائے۔

زین بولا:”ماما وہ کیسے“؟
زین کی ماما بولیں:”بیٹے شیشے کی ڈور کی جگہ سادہ ڈور بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔پھر زین کی ماما نے اسے بتایا کہ چند دن پہلے جو آندھی آئی تھی تو تب آس پاس سے اتنے سارے شاپر اُڑ کر ان کے لان میں آ گرے تھے اور ایسے ہی ایک شاپر ایک بطخ کے گلے میں ڈل گیا۔بطخ ڈر کر بھاگتی تو شاپر بھی اتنی تیزی سے اس کے پاؤں میں اُلجھتا جاتا۔جو انھوں نے بطخ کو پکڑ کر اُتارا تھا۔ہمیں یہ شاپر،ڈور اور نہ گلنے سڑنے والی چیزوں کو چھوڑ کر قدرتی چیزوں جیسے کپڑے کے تھیلے،مٹی کے برتنوں کی طرف آنا ہو گا ورنہ یہ سب چیزیں آسیب بن کر ایسے ہی ہمیں ستاتی رہیں گی“۔

Browse More Moral Stories