Paanch Mahireen - Article No. 2120

Paanch Mahireen

پانچ ماہرین - تحریر نمبر 2120

جو علم فائدہ نہ پہنچائے،وہ بے کار ہے

منگل 23 نومبر 2021

محمد احمد آصف
ایک بادشاہ کے پاس اپنے اپنے فن کے پانچ ماہر آئے۔ایک کو منطق پر عبور حاصل تھا۔دوسرا زبان داں تھا۔تیسرا موسیقی کا ماہر تھا،چوتھا جوتشی اور پانچواں حکیم تھا۔
بادشاہ نے ان کی باتیں اور ان کے دعوے سنے تو بہت خوش ہوا اور اپنے وزیر سے ان کی تعریف کرنے لگا۔بادشاہ نے انھیں انعام دینے کا ارادہ کیا تو وزیر مسکرایا اور کہا:”بادشاہ سلامت!آپ انھیں جو انعام دے رہے ہیں،یہ اس کے مستحق ہیں بھی یا نہیں!دیکھنا یہ چاہیے کہ اس دنیائے عمل میں ان کی کیا حیثیت ہے۔

بادشاہ نے کہا:”اس کا اندازہ کیسے ہو گا؟“
وزیر نے جواب دیا:”یہ پانچ افراد ہیں،بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ان سے کہا جائے کہ اپنے لئے آج دوپہر کا کھانا یہ خود پکائیں۔

(جاری ہے)

چھوٹا سا کام ہے،یہ اگر کوئی صلاحیت رکھتے ہیں تو ضرور کر دکھائیں گے۔“
بادشاہ نے اس مقصد کے لئے ایک مکان ان کے حوالے کر دیا اور ایک ملازم یہ دیکھنے کے لئے وہاں رکھا کہ یہ کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔


انھوں نے سبزی پلاؤ بنانے کا فیصلہ کیا۔منطق میں ماہر شخص بازار سے گھی لانے کے لئے روانہ ہوئے۔وہ گھی لے کر آ رہے تھے اور مسلسل سوچ رہے تھے کہ اس برتن نے گھی کو پکڑ رکھا ہے یا گھی نے برتن کو پکڑ رکھا ہے۔جب بات سمجھ میں نہ آئی تو انھوں نے برتن کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنا چاہا۔اس دوران سارا گھی گر پڑا۔اب انھیں معلوم ہوا کہ برتن نے ہی گھی کو پکڑ رکھا تھا۔
بات تو سمجھ میں آ گئی،مگر گھی ضائع ہو گیا۔
دوسری طرف زبان وداب کے ماہر دہی لینے گئے۔دہی بیچنے والی عورت نے کہا:”لے لیجیے دہی اچھی ہے۔“
وہ تڑپ کر بولے:”نہیں نہیں،دہی مذکر ہے موٴنث نہیں۔یوں کہو کہ دہی اچھا ہے۔“
سیدھی سادی عورت کا ان باریکیوں سے کیا تعلق!کہنے لگی:”معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں دہی نہیں چاہیے اور یہ مذکر،موٴنث تو مجھے گالیاں لگ رہی ہیں۔
جاؤ چلے جاؤ یہاں سے۔“
وہ بغیر دہی لیے واپس روانہ ہو گئے۔
جوتشی صاحب کچھ مصالحے خریدنے کے لئے گھر سے نکلے ہی تھے کہ بلی نے راستہ کاٹ لیا۔انھوں نے اسے بدشگونی سمجھا اور بڑے پریشان ہو گئے۔پھر بھی ہمت کرکے آگے بڑھے تو ایک درخت پر گرگٹ کو رنگ بدلتے دیکھا۔اب تو بدشگونی کی انتہا ہو گئی۔وہ بغیر کچھ خریدے واپس گھر آ گئے۔
حکیم صاحب سبزی خریدنے بازار پہنچے تھے اور اس اُلجھن میں تھے کہ کون سی سبزی خریدیں۔
کوئی سبزی خریدنے کا ارادہ کرتے تو سوچ میں پڑ جاتے کہ یہ تو بادی ہے۔دوسری طرف متوجہ ہوتے تو خیال آتا کہ اس میں ”صفرا“ کا مادہ زیادہ ہے۔بعض سبزیاں بلغمی مزاج کے لئے ٹھیک نہ پائیں۔آخر جب فیصلہ نہ کر پائے تو خالی ہاتھ گھر آ گئے۔
یہاں موسیقی کے ماہر صاحب چاول پکا رہے تھے۔ہنڈیا اُبلنے لگی تو اس میں سے کھد کھد کی آوازیں آنے لگیں۔انھیں کسی سُرتال کے بغیر اس آواز پر بہت غصہ آیا۔سُر درست کرنے کے لئے ہاتھ نچایا۔ہاتھ چاول کی دیگچی پر پڑا۔وہ دور جا پڑی اور سارے چاول ضائع ہو گئے۔
دوپہر گزر گئی اور سب بھوکے رہے۔سارا قصہ بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو وہ حیران رہ گیا۔کچھ دیر سوچنے کے بعد بادشاہ نے کہا:”سچ ہے جو علم فائدہ نہ پہنچائے،وہ بے کار ہے۔“

Browse More Moral Stories