Pachtawa - Article No. 1934

Pachtawa

پچھتاوہ - تحریر نمبر 1934

مگر اب ان کے پاس رونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا

منگل 30 مارچ 2021

نازیہ آصف
موسم برسات اپنی خوبصورتیوں اور ذائقے دار پھلوں کے ساتھ ختم ہو چکا تھا۔درختوں کے پتے تیزی سے گر رہے تھے اور سردیوں کی آمد تھی۔ایک امرود کے درخت پر ایک ننھی سی چڑیا نے گھونسلا بنایا ہوا تھا۔چڑیا کا نام ہیبل تھا،اس گھونسلے میں اس کے بچے رہتے تھے۔مگر جب وہ بڑے ہوئے تو ایک دن ہیبل کو بتائے بغیر ہی ایسے اڑ کر گئے کہ واپس ہی نہ آئے۔
ننھی ہیبل پہلے ہی ان کی وجہ سے اداس رہتی تھی۔ پھر جب سردیاں آئیں تو باقی پرندے بھی اپنے اپنے گھونسلوں میں دبک گئے۔اب اس امرود کے پیڑ سے امرود بھی تقریباً ختم ہو چکے تھے، بس ایک آدھ امرود باقی رہ گیا تھا امرود کے تنے میں چند بڑی بڑی چیونٹیاں رہتی تھیں۔ہیبل سارا دن شاخ پر بیٹھی ان چیونٹیوں کو دیکھتی رہتی۔

(جاری ہے)

سردیوں میں جب کبھی چیونٹیوں کا راشن ختم ہوتا تو ہیبل سے امرود مانگنے آجاتیں۔


ہیبل امرود کے ٹکڑے کاٹ کر نیچے پھینک دیتی کہ انھیں اٹھا کر نیچے نہ لے جانا پڑے اور یہ چیونٹیاں آسانی سے امرود کے ٹکڑے اٹھا کر اپنے بل میں گھس جاتی تھیں۔ہیبل کی چند بڑی چیونٹیوں سے دوستی تھی۔اس کی دوستوں میں جینی،کینی،مینی شامل تھیں۔گزشتہ کئی دنوں سے بہت سردی پڑ رہی تھی۔ہیبل کو کوئی پرندہ نظر نہ آتا تھا۔وہ بہت اداس تھی۔اس کا دل چاہتا کہ کسی دوست سے باتیں کرے،مگر کوئی بھی اسے باتیں کرنے کے لئے نہ ملتا تھا۔
اس نے سوچا چلو جینی،کینی اور مینی سے ملتی ہوں۔ان سے بات کرتی ہوں تو طبیعت خوش ہو جائے گی۔
ہیبل نیچے آئی اور چیونٹیوں کے بل کے باہر آکر آوازیں دینے لگی۔جینی باہر آؤ،کینی میں ہیبل ہوں۔کوئی باہر نہ آیا تو اس نے پھر آواز لگائی، مینی دیکھو مجھے تمہاری ضرورت ہے۔
مگر وہ سب تو اپنے گرم بستروں میں مزے سے لیٹی گرمیوں کے جمع شدہ پھل اور خشک میوہ جات سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔
وہ سب خاموش رہی،کوئی بھی اس کی بات سننے نہ آئی۔کئی دن گزر گئے۔ہیبل کمزور ہوتی جا رہی تھی۔کوئی انسان باہر نہیں نکلتا تھا۔مہینے بھر سے شدید دھند اور سردی نے انسانوں کو بھی گھروں میں قید کر دیا تھا۔کچھ لوگ بیماریوں کے خوف سے بھی باہر نہیں نکلتے تھے۔ہیبل بیچاری کا سردی اور اداسی سے یہ حال ہو گیا تھا کہ وہ اٹھ کر چل بھی نہیں سکتی تھی۔
کچھ کھانے کو بھی دل نہیں چاہتا تھا۔پھر ایک دن جب چیونٹیوں کا کھانا ختم ہو گیا تو پھر وہ اپنے بستر سے انھیں کہ کھانے کے لئے ڈھونڈھیں مگر باہر طوفانی بارش سے ہر طرف پانی جمع ہو گیا تھا۔یہاں تک کہ پانی چیونٹیوں کے بل میں بھی گھس آیا اور ان سب کا کھانا بھی خراب ہو گیا تھا۔چیونٹیاں سر پر پاؤں رکھ کر باہر بھاگیں۔اب سوائے پیڑ پر چڑھ جانے کے ان کے پاس بچاؤ کی کوئی تدبیر نہ تھی نہ کچھ کھانے کو تھا۔
اب وہ جلدی سے گھونسلے کے پاس گئیں اور ہیبل کو آوازیں دینے لگیں مگر کوئی جواب نہ آیا۔جینی نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ اوندھی گری ہوئی تھی۔تینوں نے اندر جا کر اسے سیدھا کیا مگر وہ تو وہ بے سدھ پڑی رہی کیونکہ ہیبل مر چکی تھی۔اس کے پاس چند ٹکڑے امرود کے ویسے ہی پڑے ہوئے تھے۔
پھر انھیں خیال آیا کہ شاید اس دن ہیبل ان کے لئے کھانا لائی ہو۔
مگر انھوں نے گرم بستر سے اٹھ کر ہیبل کی بات سننا ہی گوارا نہ کیا تھا۔اب وہ سب رو رہی تھیں۔باقی ساری چیونٹیاں بھی پیڑ پر چڑھ رہی تھیں کیونکہ نیچے سارا پانی تھا۔اب آسمان پر بادل گرجے تو پھر بارش ہونے لگی۔سب نے مل کر ہیبل کے گھونسلے میں پناہ لی۔مگر اب وہ بہت زیادہ دکھی تھیں کہ ہیبل کتنی اچھی تھی۔انھیں کھانا بھی دیتی تھی۔اب وہ جب مر گئی تو بھی اس نے سب کو پناہ دی تھی۔
مگر جب ہیبل اداس تھی تو انھوں نے اس کی بات سننا بھی گوارا نہ کیا۔ہائے اللہ!ہمیں معاف کر دینا۔۔۔ہم نے اپنی دوست کی پریشانی میں کوئی مدد نہ کی۔مگر اب ان کے پاس رونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔بچو!سخت سردی میں اپنے آس پاس کا خیال رکھیں،کسی بچے ،بوڑھے یا غریب کو آپ کی مدد کی ضرورت تو نہیں تاکہ آپ کو بھی پچھتانا نہ پڑے۔

Browse More Moral Stories