Pani Ka Faisla - Aakhri Hissa - Article No. 2416

Pani Ka Faisla - Aakhri Hissa

پانی کا فیصلہ (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2416

”یہ فقیر جھوٹا اور مکار ہے۔یہ اشرفیاں اس کی نہیں ہیں بلکہ ان دو اجنبی مسافروں کی ہیں۔اس دھوکے باز فقیر کو لے جا کر قید میں ڈال دو۔اور اشرفیاں ان دونوں بھائیوں کے حوالے کر دو۔“

جمعرات 15 دسمبر 2022

محمد فہیم عالم
”میری حضور سے گزارش ہے کہ ان چوروں سے اس غلام کی جان چھڑوائی جائے اور ان کو قید خانے میں ڈال دیا جائے تاکہ یہ دوبارہ مجھ جیسے کسی اور قسمت کے ستائے ہوئے کو تنگ نہ کر سکیں۔“فقیر انتہائی عاجزی و انکساری سے بولا۔یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔اُس کی درد بھری باتیں سن کر دربار میں موجود لوگوں کے دل پسیج گئے تھے۔

”کیوں بھئی کیا یہ فقیر سچ کہہ رہا ہے؟“
بادشاہ سلامت نے سوالیہ نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھا۔
”نہیں عالی جاہ۔“یہ مکار و عیار بوڑھا جھوٹ بول رہا ہے۔حضور!ہم دونوں بھائی ہیں۔تلاش روزگار نے ہمیں وطن سے بے وطن کر دیا اور ہم روزی کمانے کے لئے آپ کے ملک میں آ گئے۔

(جاری ہے)

سلطان معظم!ہم قصاب کا کام کرتے ہیں۔ہم نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے یہ اشرفیاں جمع کی تھیں اور اب سات سالوں بعد اپنے وطن واپس جا رہے تھے کہ اچانک ہم نے اس فقیر کی عجیب و غریب صدا سنی۔

یہ کہہ رہا تھا:”کوئی ہے جو میرے ہاتھ پر تھوڑی دیر کے لئے چند اشرفیاں رکھ دے تاکہ میں بھی کچھ دیر دولت کے احساس کا مزہ چکھ سکوں۔“
”حضور!ہمیں اس پر ترس آ گیا اور ہم نے اشرفیاں اس کے ہاتھ پر رکھ دیں اور یہ ان پر قبضہ جما کر بیٹھ گیا۔میری حضور سے التجا ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے اور ہمیں ہماری اشرفیاں واپس دلوائی جائیں تاکہ ہم جلد از جلد اپنے وطن پہنچ سکیں۔
“اتنا کہہ کر وہ نوجوان خاموش ہو گیا۔وہ بڑا بھائی تھا۔تمام معاملہ سن کر بادشاہ سلامت گہری سوچ میں پڑ گئے۔وہ بہت ہی انصاف پسند اور عقل مند بادشاہ تھے لیکن یہ عجیب و غریب ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔اچانک انہیں ایک خیال آیا۔
”ایک برتن میں گرم پانی لایا جائے۔“
اچانک دربار میں بادشاہ سلامت کی بارعب اور پُرجلال آواز گونجی۔
یہ سن کر دونوں بھائی تھرتھر کانپنے لگے۔وہ سمجھے شاید بادشاہ سلامت کو فقیر کی بات پر یقین آ گیا ہے۔اور وہ ان دونوں کو لٹیرے خیال کر کے سزا دے رہے ہیں۔کچھ ہی دیر بعد خادم ایک بڑے سے برتن میں کھولتا ہوا گرم پانی لے آیا۔
”فقیر․․․!تمام اشرفیاں اس گرم پانی میں ڈال دو۔“
بادشاہ سلامت بولے۔فقیر نے حسرت سے ایک نظر بادشاہ سلامت کی طرف دیکھا اور اشرفیاں پانی میں ڈال دیں۔
دربار میں موجود تمام لوگ بھی تعجب سے بادشاہ سلامت کی طرف دیکھ رہے تھے کہ آخر وہ کرنا کیا چاہتے ہیں؟بادشاہ سلامت اپنے تخت سے اُٹھے اور پانی کے برتن کے پاس آ گئے۔کافی دیر وہ بغور پانی کو دیکھتے رہے۔
”یہ فقیر جھوٹا اور مکار ہے۔یہ اشرفیاں اس کی نہیں ہیں بلکہ ان دو اجنبی مسافروں کی ہیں۔اس دھوکے باز فقیر کو لے جا کر قید میں ڈال دو۔
اور اشرفیاں ان دونوں بھائیوں کے حوالے کر دو۔“
بادشاہ سلامت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔سب لوگ ان کے اس فیصلے پر حیران تھے کہ آخر ان کو کیسے پتہ چلا۔فقیر جھوٹا اور دونوں بھائی سچے ہیں۔
”حضور!سلطان کا اقبال بلند ہو۔اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں“آخر ایک درباری نے ہمت کی۔
”امان دی جاتی ہے۔کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔

”حضور!ابھی آپ نے جو فیصلہ فرمایا ہے۔درست ہی فرمایا ہے۔کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ بہت ہی انصاف پسند ہیں ناانصافی تو آپ کر ہی نہیں سکتے۔عالی جاہ!آپ کا یہ فیصلہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ نے یہ فیصلہ کیسے کر لیا۔“درباری بولا۔
”یہ فیصلہ میں نے نہیں دراصل گرم پانی نے کیا ہے۔“
”پانی نے․․․․بھلا وہ کیسے․․․․؟سب نے حسرت سے بادشاہ سلامت کی طرف دیکھا۔

”جی ہاں!پانی نے۔وہ اس طرح کہ ان دونوں بھائیوں کا کہنا تھا کہ یہ قصاب کا کام کرتے ہیں۔گوشت کاٹتے بیچتے ہیں تو عام طور پر قصابوں کے ہاتھ سے گوشت کے ذرات اشرفیوں پر لگ جاتے ہیں جب میں نے اشرفیاں پانی میں ڈالیں تو گوشت کے ذرات گرم پانی کی وجہ سے الگ ہو کر اوپر تیرنے لگے۔بس میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ بھکاری جھوٹ بول رہا ہے اور یہ دونوں بھائی سچے ہیں۔“بادشاہ سلامت بولتے چلے گئے جبکہ دربار میں موجود لوگ محبت و عقیدت سے اپنے عقل مند بادشاہ کو دیکھ رہے تھے اور اُن اجنبی مسافروں کے دلوں سے بادشاہ سلامت کے لئے دعائیں نکل رہی تھیں۔

Browse More Moral Stories