Pani Zindagi Hai - Article No. 1298

Pani Zindagi Hai

پانی زندگی ہے - تحریر نمبر 1298

”نوید! پانی تھوڑا کھولو!“ ”نوید!نہا کر جلدی نکلو۔ٹنکی میں پانی ختم ہو جائے گا۔“

منگل 12 فروری 2019

محمد شعیب مرزا
”نوید!نلکا تو صحیح طرح بند کیا کرو۔دیکھو،کتنی دیر سے پانی یونہی بہ کر ضائع ہورہا ہے۔“
یہ تھیں وہ باتیں ،جونوید کو روزانہ کئی بار سننی پڑتی تھیں،کیوں کہ وہ ہاتھ منھ دھوتے ہوئے ٹونٹی اتنی زیادہ کھولتا کہ پانی تیزی سے بہتا رہتا۔نہانے جاتا تو دیرتک نہاتا ہی رہتا۔اس کی ایک اور بُری عادت یہ تھی کہ ہاتھ منھ دھونے یا نہانے کے بعد وہ ٹونٹی پوری طرح بند نہ کرتا۔

یوں جب تک کوئی دوسرا آکر ٹونٹی مکمل بند نہ کرتا،پانی ضائع ہوتا رہتا۔
نوید کی امی اس کی اس عادت سے پریشان تھیں ،کیوں کہ اس کی لاپرواہی کی وجہ سے ٹنکی میں پانی جلد ختم ہوجاتا اور باربار ٹنکی بھرنی پڑتی۔امی ابو اور آپی اسے سمجھا سمجھا کرتنگ آچکے تھے،لیکن بات نوید کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔

(جاری ہے)


ایک روز رات کو امی نے کھانا میز پر لگا کر آواز دی کہ سب ہاتھ دھوکر آجائیں اور کھانا کھائیں ۔

پہلے نوید کے ابو اور پھر نوید ہاتھ دھو کر آئے ۔اس کے بعد آپی ہاتھ دھوکر آئیں تو انھوں نے بتایا کہ نوید ٹونٹی کھلی چھوڑ آیا تھا اور پانی بہ رہا تھا۔
نوید ڈھٹائی سے کہنے لگا کہ میں نے تو بند کی تھی ،شاید جلدی کی وجہ سے تھوڑی کھلی رہ گئی ہو۔نوید کے ابو کے چہرے سے ناگواری ظاہر ہوئی ،لیکن وہ چپ ہی رہے۔
کھانا کھانے کے بعد نوید نے پانی سے گلاس بھرا۔
دو تین گھونٹ پیے اور میز پر رکھ کر اُٹھنے لگا۔نوید کے ابو اسے دیکھ رہے تھے ۔انھوں نے نوید سے اس کی پڑھائی کے بارے میں پوچھنا شروع کردیا۔نوید دوبارہ بیٹھ گیا اور ابو کو پڑھائی کے بارے میں بتانے لگا۔
باتوں باتوں میں انھوں نے نوید سے کہا کہ پانی کھانے سے پہلے اور ضرورت پڑنے پر درمیان میں پینا چاہیے۔کھانا کھانے کے بعد کم از کم آدھے گھنٹے تک پانی نہیں پینا چاہیے۔
پانی اللہ کی نعمت ہے ۔اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔تم نے گلاس میں سے دوتین گھونٹ پانی پی کر باقی رکھ دیا۔تم کو چاہیے تھا کہ گلاس میں اتنا ہی پانی نکالتے ،جتنا تمھیں پینا تھا۔اس طرح باقی پانی ضائع ہونے کے بجائے کسی اور کے کام آجاتا۔
نوید نظریں جھکائے سر ہلاتا رہا۔امی نے موقع غنیمت جانا اور نوید کی پانی ضائع کرنے والی عادتوں کے بارے میں بتانا شروع کردیا۔
اس کے ابو نے نوید سے کہا:”تمھیں یہاں وافر پانی دستیاب ہے ،لیکن بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔بعض لوگوں کو دور دور سے پانی لانا پڑتا ہے ۔بار شیں نہیں ہوتیں تو وہ لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں ۔“
نوید کی بڑی بہن بولی :”ہماری اُستانی بتارہی تھیں کہ زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے گررہی ہے ۔

پانی کی اتنی قلت ہو جائے گی کہ فصلوں کے لیے پانی نہیں ملے گا،جس کی وجہ سے قحط بھی پڑ سکتا ہے ۔“
”بیٹا ! میں تو ہمیشہ تمھیں سمجھاتی ہوں کہ پانی کو احتیاط سے استعمال کیا کرو۔ضائع نہ کیا کرو۔جو لوگ اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے ،وہ نعمتیں ان سے چھن جاتی ہیں ۔“امی نے بھی سمجھایا۔
”مجھے اُمید ہے کہ آئندہ تم پانی ضائع نہیں کرو گے۔
“یہ کہہ کر ابو اُٹھ گئے۔باقی سب بھی اُٹھ کر اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے ۔رات کو نوید پانی کے متعلق سوچتے ہوئے سو گیا۔
صبح اُٹھ کر نوید ہاتھ منھ دھونے لگا تو پانی نہیں آرہا تھا۔بس ایک مگ میں پانی بھرا تھا۔اس کی امی نے کہا کہ اس میں سے تھوڑا سا پانی لے کر ہاتھ منھ دھولو۔
”میں اتنے سے پانی سے ہاتھ منھ نہیں دھو سکتا۔“نوید غصے سے بولا۔

”اب پانی نلکوں میں نہیں آیا کرے گا۔سر کاری ٹینکر تھوڑا تھوڑا پانی سب گھر وں میں دے جایا کرے گا،اسی سے گزارا کرنا پڑے گا۔“
پھر یہی ہونے لگا۔صبح ٹینکر آتا۔سب گھروں کو تھوڑا تھوڑاپانی ملتا،جس سے سب لوگ گزارا کرتے۔
بہت زیادہ پانی استعمال کرنے کی وجہ سے پانی زمین کی سطح کے بہت نیچے چلا گیا تھا۔حکومت نے پانی کی قلت کی وجہ سے 2لیٹر فی آدمی کے حساب سے پانی کا کوٹہ مقرر کر دیا تھا۔
دنیا کے مختلف ممالک تیل یادیگر ذخائر پر قبضہ کرنے کے بجائے پانی کے ذخائر پر قبضے کر رہے تھے۔لوگ گلی محلوں میں بھی پانی پر لڑنے جھگڑنے لگے تھے ۔ہفتے میں ایک دن اضافی پانی دینے کے لیے پانی کا ٹینکر آتا تو لوگ قطاروں میں کھڑے ہوجاتے ۔بعض لوگ تو قطار توڑ کر پانی لینے کی کوشش کرتے ،جس پر جھگڑا ہو جاتا۔
نوید بھی کین اُٹھائے پانی کے لیے کھڑا تھا۔
اس کی باری آنے ہی والی تھی،جب پیچھے سے ایک نوجوان نے آکر اپنا کین ٹینکر کے قریب کردیا۔نوید نے اس کوروکاتو بات ہا تھا پائی تک جاپہنچی۔اس نو جوان نے نوید کو زور سے دھکادیا تو نوید گرگیا۔
آواز سن کر ساتھ والے کمرے سے نوید کی امی جلدی سے آئیں ۔دیکھا تو نوید بستر سے زمین پر گرا ہو ا تھااور اٹھنے کی کوشش کررہا تھا۔اس کی امی نے اسے سہارا دے کر اُٹھایا تو وہ اردگرد حیرت سے دیکھنے لگا۔

اس کی امی کہنے لگیں :”لگتا ہے ،تم کوئی خواب دیکھ رہے تھے ۔صبح ہو گئی ہے ۔اُٹھو،ہاتھ منھ دھولو۔میں ناشتالگاتی ہوں۔“
نوید حیرت زدہ ساغسل خانے گیا۔ٹونٹی کھولی تو پانی تیزی سے بہنے لگا۔اس کا چہرے خوشی سے کھل اُٹھا۔
وہ شکر کررہا تھا کہ وہ سب خواب تھا۔ہاتھ منھ دھونے کے دوران اس نے بہت کم پانی استعمال کیا تھا۔
ہاتھ منھ دھو کر وہ باہر نکلنے لگا تو ایک دم پلٹا۔ٹونٹی سے تھوڑا تھوڑا پانی بہ رہا تھا۔اس نے آگے بڑھ کر ٹونٹی کو اچھی طرح بند کر دیا۔
اس عزم کے ساتھ کہ پانی احتیاط سے استعمال کرے گا اور دوسروں کو بھی پانی بچانے کی تلقین کرے گا،کیوں کہ پانی زندگی ہے ۔

Browse More Moral Stories