Pari Ka Bhai - 1st Qist - Article No. 1578

Pari Ka Bhai - 1st Qist

پری کا بھائی - (پہلی قسط) - تحریر نمبر 1578

زریں پری اپنے باپ کی موت کےبعد اس دنیا میں بالکل تنہا رہ گئی تھی- اس کے باپ کو مرے ہوئے پورا ایک ہفتہ ہو گیاتھا-اسے رہ رہ کر اپنا باپ یاد آتا تھا جو اس سے بے حد محبّت کرتا تھا

Mukhtar Ahmad مختار احمد منگل 19 نومبر 2019

زریں پری اپنے باپ کی موت کےبعد اس دنیا میں بالکل تنہا رہ گئی تھی- اس کے باپ کو مرے ہوئے پورا ایک ہفتہ ہو گیاتھا-اسے رہ رہ کر اپنا باپ یاد آتا تھا جو اس سے بے حد محبّت کرتا تھا اور اس کی ذرا سی تکلیف پر خود بھی تڑپ اٹھتا تھا- زریں پری کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ایک روز اتنی محبّت کرنے والا باپ اسے چھوڑ کر چلا جائے گا- اس کا دل غم سے لبریز تھا اور آنکھوں میں بار بار آنسو بھر آ رہے تھے-

اس کی یہ حالت دیکھ کر اس کے گھر کی بوڑھی خادمہ بہت کڑھ رہی تھی، اگر اس کے بس میں ہوتا تو وہ زریں پری کی جھولی میں ڈھیر ساری خوشیاں لا کر ڈال دیتی- مگر وہ بھی مجبور تھی اور سواے زریں پری کو دلاسہ دینے کے کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی-

زریں پری کی حالت کافی خراب ہوگئی تھی- اس کا رنگ بالکل زرد پڑ گیا تھا اور وہ کافی کمزور سی نظر آنے لگی تھی- اس کی بھوک پیاس بالکل ختم ہوگئی تھی- وہ ہر وقت اپنے باپ کے خیال میں ڈوبی خاموش بیٹھی رہتی- دل زیادہ بے چین ہو جاتا تو وہ سسکیاں بھر بھر کر رونے لگتی- ایسے وقت میں اس کی بوڑھی خادمہ اس کو بڑے پیار سے کہتی کہ اس کے رونے دھونے سے اس کے باپ کی روح کو تکلیف پہنچے گی لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے- زریں پری ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ اس کی وجہ سے اس کے باپ کی روح بے چین ہو اس لیے اب اس نے آنسو بہانا چھوڑ دیا تھا مگر اس کا دل اب بھی اداس رہتا تھا-

ایک روز جب وہ اپنے کمرے میں اپنی مسہری پر یونہی آنکھیں موندے لیٹی تھی تو بوڑھی خادمہ اس کے پاس آئ، اس کے قدموں کی آواز سنکر زریں پری نے آنکھیں کھول دیں- خادمہ کے ہاتھ میں ایک تہہ کیا ہوا کاغذ تھا- اس نے وہ کاغذ زریں پری کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا- "زریں بیٹی، تمہارے باپ نے مرنے سے پہلے مجھے یہ خط دیا تھا اور تاکید کی تھی کہ میں اس خط کو ان کی موت کے دس روز بعد تمہیں دے دوں- آج تمہارے باپ کو اس دنیا سے گئے ہوۓ پورے دس روز ہوگئے ہیں، لہٰذا اب میں تمہیں ان کا یہ آخری خط دے رہی ہوں-"

زریں پری نے بے تابی سے وہ خط خادمہ کے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور اسے کھولنے لگی- خادمہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی- زریں پری سمجھ گئی تھی کہ اس کے باپ نے اس خط میں ضرور کوئی اہم بات لکھی ہوگی- خط کی تہیں کھولتے ہوۓ اس کے ہاتھ دھیرےدھیرے کانپنے لگے تھے- پھر وہ جلدی جلدی پڑھنے لگی- اس کے باپ نے اس خط میں لکھا تھا-

"میری پیاری بیٹی،

جس وقت تم میرا یہ خط پڑھ رہی ہوگی مجھے اس دنیا سے گئے ہوۓ دس دن ہوگئے ہونگے- میری موت نے تمہیں بہت رنجیدہ اور اداس کر دیا ہوگا- اگر تم میری روح کو سکون پہنچانا چاہتی ہو تو خوش و خرّم رہنے کی کوشش کرو-

تم یہ ضرور سوچتی ہوگی کہ میرے مرنے کے بعد تم اس دنیا میں تنہا رہ گئی ہو- مگر میری بیٹی یہ بات درست نہیں ہے- ابھی اس دنیا میں تمہارا ایک بھائی بھی ہے- آج میں ایک راز سے پردہ اٹھا رہا ہوں- یہ راز گزشتہ بائیس سال سے میرے سینے میں دفن تھا- میں نے بائیس سال قبل انسانوں کی دنیا میں ایک لڑکی سے شادی کر لی تھی- میں اپنے ایک دوست سے ملنے کے لیے آدم زادوں کی دنیا میں گیا تھا اور میری ملاقات وہیں اس لڑکی سے ہوئی تھی- ایک آدم زاد لڑکی سے شادی کرنا پرستان میں اچھا نہیں سمجھا جاتا اسی لئے میں نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی- اس لڑکی سے شادی کے بعد میں اکثر اس کی دنیا میں جاتا رہتا تھا- پھر شادی کے ایک سال بعد خدا نے ہمیں ایک چاند سا بچہ عطا فرمایا- میں نے اس بچے کا نام انور رکھا تھا- مگر وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا- جس جگہ میری بیوی رخسانہ اور بچہ رہتے تھے وہاں پر ایک شدید قسم کا زلزلہ آیا اور وہاں کی تمام آبادی اس خوفناک زلزلے کی بھینٹ چڑھ گئی-

مگر پھر بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو زندہ بچ گئے اور انھیں بادشاہ کے سپاہی اپنے ساتھ لے گئے تھے تاکہ ان کی دیکھ بھال اور علاج وغیرہ کیا جائے- کیونکہ وہ بے چارے زخمی ہو گئے تھے- اس دوران میں پرستان میں تھا- مگر مجھے جیسے ہی اس زلزلے کی خبر ملی، میں بھاگا بھاگا وہاں گیا مگر وہاں پہنچتے ہی مجھ پر جیسے بجلی سی گر پڑی- جس مکان میں میری بیوی رخسانہ مقیم تھی وہ زمین بوس ہو چکا تھا- ایک دیوار کے نیچے میری بیوی کی لاش پڑی تھی مگر میرے بیٹے انور کا کہیں پتہ نہیں تھا- اس کو یقیناً بادشاہ کے سپاہی اپنے ساتھ لے گئے تھے- میں نے انور کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلا-

ادھر پرستان میں میری بوڑھی ماں اس بات سے سخت پریشان تھیں کہ میں آدم زادوں کی دنیا میں اتنا وقت کیوں گزارتا ہوں-اس بات کا انہوں نے یہ حل نکالا کہ میری شادی کردی- شادی کے بعد میری ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں اس لئے اب میں اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کے لیے آدم زادوں کی دنیا میں نہیں جا سکتا تھا- پھر شادی کے کچھ عرصہ بعد تم پیدا ہوئیں- تمہاری پیدائش کے ایک ہفتہ بعد تمہاری امی بخار میں مبتلا ہو کر خالق حقیقی سے جا ملیں- اب تمہاری پرورش کا بار میرے کندھوں پر آن پڑا تھا- میں تمہاری پرورش میں لگ گیا- وقت گزرتا رہا اور تم بڑی ہوگئیں مگر میں اپنے بیٹے انور کو اب تک نہیں بھول سکا ہوں-

میں اب زندگی سے بالکل مایوس ہو گیا ہوں- میں یہ خط اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میرے بعد تم خود کو بالکل تنہا مت سمجھنا- اگر ہوسکے تو اپنے بھائی انور کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنا مجھے امید ہے کہ خدا کی مہربانی سے تم اسے پالوگی- ظاہر ہے تم انور کی شکل سے ناواقف ہوگی- اس لیے یہ ضروری ہے کہ میں تمہیں اس کی پہچان کے لیے ایک نشانی بتا دوں- تمہارے بھائی انور کی پیدائش کے وقت اس کی ہتھیلی پر ایک چمکدار ستارہ بنا ہوا تھا جو رات کو اندھیرے میں جھلمل جھلمل کرتا نظر آتا تھا-

میری دعا ہے کہ تم اپنے بھائی کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاؤ- جب تم اسے اپنی کہانی سناؤ گی تو وہ تمہیں ضرور اپنی بہن تسلیم کر لے گا، کیونکہ جب زلزلے نے تباہی مچائی تھی تو اس وقت وہ چار سال کا تھا اور خوب باتیں کرتا تھا- اسے اب بھی سب کچھ یاد ہوگا-

اچھا بیٹی اب مجھے اجازت دو- میرا سانس اب سینے میں گھٹنے لگا ہے اور اب مجھ میں اتنی ہمت نہیں رہ گئی کہ مزید کچھ اور لکھ سکوں- خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے-

خط پڑھ کر زریں پری کی آنکھوں میں ایک غم آلود خوشی جھلکنے لگی تھی- اپنے بھائی انور کے متعلق پڑھ کر اسے شدید حیرت ہوئی تھی- اس نے فیصلہ کر لیا کہ انور کو تلاش کرنے کے لیے آج ہی روانہ ہو جائے گی-
____________

زریں پری کے بھائی انور کے متعلق سنکر بوڑھی خادمہ بھی بے حد خوش ہوئی تھی- اس نے زریں پری کو مشوره دیا کہ وہ اپنے بھائی کو تلاش کر کے پرستان ہی لے آئے-

دوپہر کے وقت زریں پری نے ایک کمرے کا دروازہ کھولا- اس کمرے کے دروازے پر ایک موٹا سا قفل لگا ہوا تھا- زریں پری اس کمرے میں داخل ہوگئی اور پھر اس نے وہاں سے ایک جادو کا قالین اٹھایا اور ایک جادو کی چھڑی لی اور پھر شام ہونے کا انتظار کرنے لگی-

شام کو اس نے اپنےسفر کا آغاز کیا اور جادو کے قالین پر بیٹھ کر انسانوں کی دنیا کے اس شہر کی جانب روانہ ہوگئی جہاں پر اس کا بھائی تھا- اس نے یہ قالین اس لیے لیا تھا تاکہ وہ اپنے بھائی انور کو اس پر بٹھا کر اپنے ساتھ پرستان لا سکے- انور بے چارہ اڑ تو سکتا نہیں تھا اور پھر اگر وہ گھوڑے پر سفر کرتا تو پرستان پہنچتے پہنچتے کئی ہفتے لگ جاتے-

زریں پری اڑتے ہوۓ قالین پر بیٹھی ہوئی جانے کیا سوچ رہی تھی- قالین کی رفتار بہت تیز تھی اور زریں پری کے سنہری پر ہوا کے زور سے پھڑ پھڑا رہے تھے- سورج کو غروب ہوۓ کافی دیر ہوگئی تھی اور آہستہ آہستہ رات کی تاریکی نے اپنے پر پھیلانا شروع کر دیے تھے- زریں پری نے کچھ دیر بعد نیچے جھانک کر دیکھا- وہ کسی شہر پر سے گزر رہی تھی، ایک گہری سانس لے کر وہ پھر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی-

قالین کو اڑتے ہوۓ کافی دیر ہوگئی تھی- آسمان پر چاند پوری آب و تاب سے چمکنے لگا تھا اور ستارے جھلمللانے لگے تھے- زریں پری نے اندازہ لگایا کہ آدھی رات گزر چکی ہے- اسے اب نیند آ رہی تھی مگر وہ منزل کے قریب آ کر سونا نہیں چاہتی تھی- نیند سے بچنے کے لیے وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں گھورنے لگی-

تھوڑی دیر بعد قالین نیچے اترنے لگا- زریں پری سنبھل کر بیٹھ گئی- قالین زمین پر اتر چکا تھا- زریں پری نے قالین کو لپیٹ کر اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور اپنے ارد گرد دیکھنے لگی- وہ ایک گلی میں کھڑی تھی- گلی میں بالکل خاموشی چھائی ہوئی تھی اور وہاں پر مکمل تاریکی کا راج تھا- فی الحال زریں پری کے سامنے صرف یہ مسئلہ تھا کہ وہ یہ رات کہاں گزارے- اس نے سوچا کہ اس مقصد کے لیے سراے سب سے زیادہ بہتر جگہ ہوگی- مگر اسے یہ بھی خطرہ تھا کہ ایک پری کو دیکھ کر وہاں کے لوگ چونک جائیں گے اور وہ اچھا خاصہ تماشہ بن جائے گی- اس لیے اس نے اپنی جادو کی چھڑی نکالی اور اسے باری باری اپنے دونوں پروں سے لگایا- ایسا کرتے ہی اس کے دونوں پر غائب ہوگئے-

پھر وہ وہاں سے چل دی- ابھی وہ کچھ ہی دور گئی تھی کہ اسے ایک سپاہی نظر آیا- وہ سپاہی ایک دیوار سے پشت لگاۓ اونگھ رہا تھا مگر زریں پری کے قدموں کی آواز سن کر وہ چونک پڑا اور آنکھیں ملتے ہوۓ سیدھا ہوگیا- زریں پری کو دیکھ کر اس نے کڑک کر پوچھا- "اوے – کون ہو تم؟-"

اتنی کڑک دار آواز سن کر زریں پری کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا- وہ خوفزدہ ہو کر وہیں کھڑی ہوگئی-

"ادھر میرے قریب آؤ-" سپاہی نے سخت لہجے میں کہا-

زریں پری دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھی- اتنی دیر میں سپاہی نے تلوار نکال لی تھی مگر زریں پر کو دیکھ کر اس نے تلوار میان میں رکھ لی اور بولا- "لڑکی تم کون ہو اور اتنی رات گئے کہاں جا رہی ہو، یہ علاقہ بہت خطرناک ہے- آئے دن چوریاں ہوتی ہیں، دن دہاڑے قتل ہوتے ہیں، مجھے حیرت کہ تم ایک لڑکی ہو کر اس خطرناک علاقے میں اکیلی گھوم رہی ہو-"

زریں پری نے کہا- "جناب میں اس شہر میں اجنبی ہوں- اپنے بھائی سے ملنے کے لیے بہت دور سے آئ ہوں، اگر آپ محھے کسی سرائے کا پتہ بتا دیں تو میں بہت شکرگزار ہونگی-"

سپاہی زریں پری کے اخلاق سے بہت متاثر ہو، کہنے لگا- "اے اجنبی لڑکی اس بات پر شکر کرو کہ تم مجھ جیسے شریف سپاہی سے آن ملی ہو، اس علاقے میں دوسرے سپاہی بھی گشت کر رہے ہیں، کیونکہ آج شاہی قید خانے سے ایک نوجوان قیدی بھاگ گیا ہے- بادشاہ کو اطلا ع ملی ہے کہ وہ نوجوان اس علاقے میں روپوش ہو گیا ہے- اس لیے بادشاہ نے پورے ڈیڑھ سو سپاہیوں کو اس علاقے کی نگرانی پر مامور کر دیا ہے تاکہ اس قیدی کو پھر سے گرفتار کیا جاسکے- اگر تم کسی دوسرے سپاہی کے ہتھے چڑھ جاتیں تو وہ تمہیں سیدھا جیل خانے لے جاتا-

"بغیر کسی جرم کے؟" زریں پری حیرت سے بولی-

"رات آرام کرنے کے لیے بنائی گئی ہے- اگر کوئی شخص رات کو آوارہ گردی کرے تو یہ بھی جرم بن جاتا ہے-" سپاہی بولا-

زریں پری سر ہلا کر رہ گئی تھی- پھر وہ سپاہی اسے ایک سراۓ کے دروازے پر چھوڑ کر چلا گیا- زریں پری نے سرائے کے دروازے پر دستک دی- سرائے کی عمارت بہت بڑی اور مضبوط تھی- اس کا دروازہ بہت بڑا تھا اور اتنی موٹی لکڑی کا تھا کہ زریں پری کی دستک کچھ زیادہ آواز پیدا نہ کرسکی- اس نے مجبوراً کنڈی کو زنجیر کو زور زور سے ہلایا- تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دروازے کے پیچھے سے ایک خوفزدہ مردانہ آواز ابھری- "کون ہے؟"

"میں ایک مسافر ہوں- تمھاری سرائے میں ٹھہرنا چاہتی ہوں- زریں پری نے آواز میں بے چارگی پیدا کرتے ہوۓ کہا-

"دروازہ نہیں کھلے گا- میں سمجھ گیا ہوں کہ تم شاہی قید خانے سے بھاگے ہوۓ قیدی ہو اور آواز بدل کر بول رہے ہو- مگر میں اتنا بیوقوف نہیں ہوں کہ تمہاری چال میں آ جاؤں- سیدھی طرح چلے جاؤ ورنہ میں شور مچا کر سپاہیوں کو بلا لوں گا-" دوسری طرف سے دھمکی آمیز لہجے میں کہا گیا-

زریں پری بہت جھنجھلائ- مگر وہ سمجھ گئی تھی کہ سرائے کا مالک کسی بھی قیمت پر دروازہ نہیں کھولے گا، اس لئے وہ واپس مڑ گئی- وہ اس قیدی کو برا بھلا کہہ رہی تھی جس نے قید خانے سے فرار ہو کر اس کیلئے دشواریاں پید کردی تھیں- نیند کی زیادتی کے سبب اس کی آنکھوں میں مرچیں سی لگ رہی تھیں اور اس کی یہ شدید خواہش تھی کہ وہ کسی جگہ آرام سے سو جائے-

وو وہاں سے کچھ ہی دور آئی تھی کہ اس کی نظر ایک ٹوٹے پھوٹے مکان پر پڑی- مکان کا دروازہ بند تھا مگر اس کے بند ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ دروازے کے برابر والی پوری دیوار ٹوٹی ہوئی تھی- مکان کے آس پاس لمبی لمبی گھاس تھی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ مدتوں سے کسی نے اس جگہ کا رخ نہیں کیا ہے- زریں پری نے فیصلہ کر لیا کہ وہ رات اس مکان میں بسر کریگی- اسے بستر وغیرہ کی پرواہ نہیں تھی- وہ اپنا قالین بچھا کر سو سکتی تھی-

وہ مکان کی طرف بڑھی- لمبی لمبی گھاس کو عبور کر کے وہ دیوار کے ٹوٹے ہوۓ حصے سے اندر داخل ہوئی اور ابھی اس نے پہلا ہی قدم اٹھایا تھا کہ چاند کی دودھیا روشنی میں ایک الجھے ہوۓ بالوں والے نوجوان کو اپنی طرف گھورتے ہوۓ دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی- وہ نوجوان کچی زمین پر پاؤں پھیلاے بیٹھا تھا-
____________

زرین پری کمزور دل کی مالک نہیں تھی، مگر اس نوجوان کو یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر وہ ڈر گئی تھی- قالین اور جادو کی چھڑی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرپڑی اور وہ چلاتے ہوۓ واپس بھاگی-

وہ نوجوان غرّا کر اٹھا اور زریں پری کے پیچھے دوڑا- زریں پری کی چیخیں رات کے سناٹے میں دور تک پہنچ رہی تھیں- مگر وہ تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ اس نوجوان نے اسے پکڑ لیا- زریں پری سمجھ گئی کہ اب اس کی خیر نہیں- یہ نوجوان یقیناً شاہی قید خانے سے بھاگا ہوا مجرم ہے اور اب اسے قتل کردے گا- موت کا خیال آتے ہی اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور بڑے دکھ کے ساتھ سوچنے لگی کہ اب وہ اپنے بھائی انور کو کبھی نہ دیکھ سکے گی- اچانک اس کے کانوں سے اس نوجوان کی آواز ٹکرائی-

"بے وقوف لڑکی، کیا میں شکل سے بھوت نظر آتا ہوں- تم مجھے دیکھ کر بلی کی طرح چلانے کیوں لگی تھیں؟-

زریں پری کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے- اسے آج تک کسی نے بھی بلی نہیں کہا تھا- اسے روتا دیکھ کر اس نوجوان نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور پھر اس سے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا- وہ چونک کر گھوما اور پھر حیرت سے اچھل پڑا- گھوڑے پر ایک خوبصورت نوجوان بیٹھا ہوا تھا- شکل و صورت سے وہ شہزادہ معلوم دیتا تھا- وہ اپنے گھوڑے سے نیچے اتر آیا ادر ان دونوں کے قریب آکر بولا- "اصغر میں تمہیں تلاش کرتے کرتے تھک گیا تھا- مایوس ہو کر میں محل کا رخ کرنے ہی والا تھا کہ میری سماعت سے اس لڑکی کی آوازیں ٹکرائیں- میں ان چیخوں کا سبب معلوم کرنے ادھر چلا آیا اور اب خدا کا شکر ہے کہ تم مجھے مل گئے ہو-"

وہ نوجوان جس کا نام اصغر تھا، بڑی اداسی سے بولا- "شہزادے اکبر- میں بے گناہ ہوں- میں نے ہرگز تمہاری امی کو زہر نہیں دیا تھا- یہ سب سازش اس مکّار وزیر کی ہے مگر تمہارے ابّا نے میری ایک نہ سنی اور مجھے قید خانے میں ڈال کر میری موت کا حکم دیدیا- یقین کرو میں جیل سے اس لیے نہیں بھاگا ہوں کہ مجھے زندگی عزیز ہے یا میں موت سے ڈرتا ہوں، میں تو صرف اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہتا ہوں- بادشاہ سلامت نے مجھے اپنے بیٹوں کی طرح پالا ہے- انہوں نے مجھے اس وقت سہارا دیا تھا جب میں صرف چار سال کا تھا اور میری امی ایک خوفناک زلزلے کی نذر ہوگئی تھیں- میں بادشاہ سلامت کو اپنا باپ اور ملکہ صاحبہ کو اپنی ماں سمجھتا تھا- تم ہی بتاؤ بھلا کوئی اپنی ماں کو بھی قتل کر سکتا ہے؟-"

اصغر کی باتیں سنکر زریں پری کے ذہن میں آندھیاں سی چلنے لگیں- اس نے اصغر کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا اور پھر سوچنے لگی کہ کیا یہ ہی اس کا بھائی ہے؟

شہزادہ اکبر نے افسردہ ہو کر کہا- "اصغر مجھے تمہاری بے گناہی پر پورا یقین ہے- مگر وہ وزیر بہت چالاک اور عیّار ہے- ہم دونوں مل کر اس کی عیّاری کا پردہ چاک کریں گے- پھر ابا جان کو یقیناً پتہ چل جاۓ گا کہ مجرم تم نہیں وہ وزیر ہے-"
(اس کہانی کا بقیہ حصہ دوسری قسط میں پڑھیے)

Browse More Moral Stories