Pari Ka Bhai - 2nd Qist - Article No. 1583

Pari Ka Bhai - 2nd Qist

پری کا بھائی (دوسری قسط) - تحریر نمبر 1583

پھر شہزادہ اکبر نے زریں پری کو دیکھتے ہوۓ کہا- "اصغر یہ لڑکی کون ہے؟" ۔۔اصغر نے نفی میں گردن ہلاتے ہوۓ کہا

Mukhtar Ahmad مختار احمد منگل 26 نومبر 2019

پھر شہزادہ اکبر نے زریں پری کو دیکھتے ہوۓ کہا- "اصغر یہ لڑکی کون ہے؟"


اصغر نے نفی میں گردن ہلاتے ہوۓ کہا- "میں بھی نہیں جانتا کہ یہ لڑکی کہاں سے ٹپکی ہے- تمہارے ابا حضور نے میرے پیچھے اتنے سپاہی لگا دئیے تھے کہ مجبوراً ان لوگوں کی گرفت سے بچنے کے لیے مجھے اس خستہ حال مکان میں پناہ لینا پڑ گئی- میں وہاں چھپا سونے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ لڑکی وہاں آ گئی اور مجھے دیکھ کر چیختی چلاتی وہاں سے بھاگی، میں اس کے پیچھے دوڑا تاکہ اسے بتا سکوں کہ میں انسان کا بچہ ہی ہوں، بھوت پریت نہیں ہوں- اب یہ لڑکی ہی بتاے گی کہ کون ہے-" پھر اصغر نے زریں پری سے پوچھا- "لڑکی تم کون ہو؟"

زریں پری نے کہا- "میں تمہارے اس سوال کا جواب تمہارے ہاتھ کی ہتھیلی دیکھ کر بتاؤں گی-" یہ کہہ کر اس نے اصغر کے دونوں ہاتھ اپنے سامنے پھیلاے اور پھر یہ دیکھ کر اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اصغر کے سیدھے باتھ کی ہتھیلی پر ایک ننھا سا ستارہ چمک رہا تھا- وہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر اس سے لپٹ گئی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی-

اصغر اور شہزادہ اکبر حیرت سے زریں پری کو دیکھ رہے تھے- کچھ دیر کے بعد اصغر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا- "ننھی لڑکی- مجھے وجہ تو بتاؤ کہ اس ستارے کو دیکھ کر تمہیں رونا کیوں آگیا ہے- اچھا اب تم رونا بند کرو-"

"پہلے اپنی گردن بچانے کی کوشش کرو-" شہزادہ اکبر نے کہا- "اگر سپاہیوں کی نظر وں میں آ گئے تو پھر جان بچانا بھی مشکل ہو جائے گی- ابّا حضور تم سے سخت ناراض ہیں اور تمہیں دیکھتے ہی قتل کروا دیں گے-"

اصغر کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی تھی- اس نے آہستگی سے زریں پری کو خود سے علیحدہ کیا اور پھر اسی مکان کی طرف بڑھ گیا جہاں پر اس نے پہلے پناہ لے رکھی تھی- شہزادہ اکبر اور زریں پری بھی اس کے پیچھے روانہ ہو گئے- شہزادہ اکبر نے اپنا گھوڑا مکان کے دروازے کی کنڈی سے باندھ دیا تھا- زریں پری نے اپنا قالین نیچے بچھایا اور پھر وہ تینوں اس پر بیٹھ گئے- جب وہ اطمینان سے بیٹھ گئے تو اصغر نے بڑی سنجیدگی سے کہا- "ہاں تو لڑکی اب بتاؤ کہ تم کون ہو؟"

"میں تمہاری بہن ہوں اور میرا نام زریں پری ہے-" زریں پری نے بڑی محبّت سے کہا-

"غالباً تم شاعرہ ہو پری تمہارا تخلص ہوگا-" اصغر نے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا- "مگر میری شاعرہ بہن مجھے کوئی شعر سنانے کی کوشش مت کرنا کیونکہ اگر کوئی شعر مجھے پسند نہ آ ئے تو میں سنانے والے کو کاٹ کھاتا ہوں-"

اس کی بات سن کر شہزادہ اکبر ہنس پڑا اور زریں پری روہانسی ہو گئی- بولی- "انور بھائی آپ میری بات پر یقین کیوں نہیں کرتے؟"

اس کی بات میں جانے کیسا جادو تھا کہ اصغر اپنی جگہ سے اچھل پڑا اور پھر بڑی بے صبری سے بولا-

"میں نے – میں نے آج تک کسی کو اپنا اصلی نام نہیں بتایا تھا- تم میرا نام کس طرح جانتی ہو؟"

"کیا یہ چیز اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ میں آپ کی بہن ہوں؟-" زریں پری نے اٹھلا کر پوچھا-

"مگر میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میری کوئی بہن نہیں تھی-" اصغر نے خشک لہجے میں کہا-

زریں پری نے ایک لمحہ کچھ سوچا اور پھر اسے اپنی کہانی سنانے لگی- پھر اس نے اصغر کو وہ خط بھی دکھایا جو اس کے باپ نے مرتے ہوۓ لکھا تھا- اس کی تمام کہانی سنکر اصغر نے زریں پری کو محبّت سے لپٹا لیا اور بولا- "میری پیاری بہن، تم بہت باہمت لڑکی ہو- تم نے آخر مجھے ڈھونڈ ہی نکالا- اگر تم مجھے نہ ملتیں تو میں ہمیشہ اس بات سے بےخبر رہتا کہ میری اس دنیا یں اتنی پیاری سی بہن بھی ہے- لیکن افسوس اس بات کا ہے میں ابّا سے کبھی نہ مل سکوں گا-"

"مگر انور بھائی آپ کے پیچھے سپاہی کیوں لگے ہوۓ ہیں؟" زریں پری نے پوچھا-

"یہ ایک دردناک کہانی ہے-" اصغر ایک آہ بھر کر بولا- "میں تمہیں شروع سے تمام واقعات سناتا ہوں- یہ اس روز کا واقعہ ہے جب شہر میں زلزلہ آیا تھا- میں تقریباً چار سال کا تھا- اس روز میں اپنے ابّا کا بہت بے چینی سے انتظار کر رہا تھا- کیونکہ انہوں نے میرے لیے بہت سارے کھلونے اور مٹھایاں لانے کا وعدہ کیا تھا- وہ پرستان میں رہتے تھے اور اس لیے وہ بہت دنوں بعد گھر پر آتے تھے- امی شام کے کھانے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئیں اور میں گلی کے بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا کہ ایک دم سے ایسا محسوس ہوا جیسے ہمیں پکڑ کر کسی نے جھنجھوڑ دیا ہو، پھر دھماکے سے ہوۓ، مکانات کی چھتیں گرنے لگیں اور ہر طرف گردو غبار چھا گیا- اچانک ہی میرے سر پر کوئی چیز لگی اور پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا-

جب میری آنکھ کھلی تو میں شاہی محل میں تھا- میرا سر زخمی ہو گیا تھا- ملکہ اور بادشاہ سلامت میرے پلنگ کے قریب کھڑے مجھے محبّت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے- میں نے وہاں پر ایک اپنا ہم عمر لڑکا بھی دیکھا تھا، وہ بادشاہ اور ملکہ کا بیٹا تھا اور اب تم اسے شہزادہ اکبر کے روپ میں دیکھ رہی ہو-"

زریں پری نے شہزادہ اکبر کو دیکھا وہ سرجھکاے اصغر کی باتیں سن رہا تھا- اصغر نے پھر کہا-

"میری امی الله کو پیاری ہو گئی تھیں- میں نے بادشاہ سلامت کو بتا دیا تھا کہ میرے ابّا پرستان میں رہتے ہیں- بادشاہ سلامت نے بہت کوشش کی کہ میرے ابّا مل جائیں مگر بہت ڈھوندنے کے بعد بھی کامیابی نہ ہوئی- میں صرف چار سال کا تھا اور ہر وقت امی اور ابّا کو یاد کر کے روتا رہتا تھا- ملکہ صاحبہ مجھ سے بہت محبّت کرتی تھیں اور پھر آخر انہوں نے مجھے اپنا بیٹا بنانے کا فیصلہ کر لیا-

بادشاہ سلامت بھی ان کے اس فیصلے سے بہت خوش ہوۓ اور مجھے بھی اکبر کی طرح اپنا ہی بیٹا سمجھنے لگے- آہستہ آہستہ میں اپنی امی اور ابّا کو بھولتا گیا اور پھر میں جواں ہوگیا- میری پرورش شہزادوں کی طرح ہی ہوئی تھی اور میں اور شہزادہ اکبر ایک دوسرے سے بالکل سگے بھائیوں کی طرح محبّت کرتے تھے- میرا اصلی نام تو انور ہی تھا مگر ملکہ صاحبہ نے مجھے اصغر کہنا شروع کردیا کیونکہ اکبر اور اصغر بہت ملتے جلتے نام میں-"

زریں پری نے اس کی بات بیچ میں سے کاٹتے ہوۓ کہا- "مگر اصغر بھائی جب ملکہ اور بادشاہ آپ کو اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے تو پھر اب بادشاہ سلامت آپ کے خلاف کیوں ہوگے ہیں؟"

"میں تمہیں اسی کے متعلق بتانے جا رہا ہوں-" اصغر نے ایک گہری سانس لیکر کہا- "ہوا یوں کے بادشاہ سلامت کا وزیر ایک نہایت خراب شخص ہے- وہ ویسے تو بادشا سلامت کا خیر خواہ ہے مگر اس کی حقیقت کیا ہے، یہ مجھے اس روز پتہ چلا جب وہ میرے پاس آیا- پہلے تو مجھ سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا پھر بولا-

"اصغر – میں جانتا ہوں کہ بادشاہ تم سے اپنی اولاد جیسی محبّت کرتا ہے اور تم بھی اسے اپنے باپ کی جگہ سمجھتے ہو مگر اس بات کو یاد رکھنا کہ منہ بولے بیٹے کبھی اصلی اولاد کی جگہ نہیں لے سکتے- بادشاہ کی کافی عمر ہوگئی ہے- وہ چند سال کے بعد اپنا تخت و تاج اپنے سگے بیٹے شہزادہ اکبر کو سونپ دیگا اور پھر اس کے بعد تمہاری حثیت کیا رہ جائے گی- شہزادہ اکبر تمہیں ذرا سی بھی گھاس نہیں ڈالے گا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ تم اس کے حقیقی بھائی نہیں ہو- وہ یقیناً تمہیں محل سے نکال دیگا- اور پھر تم در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرو گے- لہٰذا تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم میرا ساتھ دو- اگر تم نے میرے کہنے پر عمل کیا تو تمہاری زندگی نہایت عیش و آرام سے گزرے گی-"

"اس وزیر کی بات سنکر میں کھٹک گیا کہ یہ عیار شخص ضرور کوئی چال چل رہا ہے جو یقیناً بادشاہ سلامت کے خلاف ہوگی، اس لیے میں نے کہا- "محترم وزیر آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے- شہزادہ اکبر کے تخت و تاج سنبھالنے کے بعد میری موجودہ حثیت بالکل ختم ہو جائے گی- مجھے اپنا مستقبل عزیز ہے، آپ مجھے جو رائے دیں گے میں اس پر عمل کروں گا-"

وزیر میری بات سن کر بہت خوش ہوا اور بڑی محبّت سے بولا- "میں نے بادشاہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے- تم اسے ختم کر دو- شہزادہ اکبر ابھی صرف بیس سال کا ہے- وہ پچیس سال کی عمر میں ہی حکومت کی باگ ڈور سنبھال سکتا ہے- دستور کے مطابق وزیر کو بادشاہ بنا دیا جائےگا، پھر شہزادہ اکبر کو بھی راستے سے ہٹا دیا جائے گا- میں بادشاہ بن گیا تو تمہیں بے اندازہ مال و دولت انعام میں دونگا- بولو کیا تم میری مدد پر آمادہ ہو؟"

میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وزیر اتنا نمک حرام ہو جائے گا- میرا جی تو چاہ رہا تھا کہ اس مکّار کی بھٹہ سی گردن اڑا دوں مگر میں نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوۓ کہا- "یہ کام بہت مشکل ہے اور میں کچھ وقت چاہتا ہوں تاکہ اطمینان سے اس پر کچھ سوچ سکوں-"

وزیر نے کہا- "میں تمہیں کل تک کی مہلت دیتا ہوں- کل شام کو تم مجھے اپنے فیصلے سے آگاہ کر سکتے ہو-"

یہ کہہ کر وزیر تو چلا گیا اور میں سوچ میں ڈوب گیا- بادشاہ سلامت اور شہزادہ اکبر تین روز کے لیے شہر سے باہر کسی کام سے گئے ہوۓ تھے- محل میں صرف ملکہ عالیہ تھیں-"

ابھی اصغر کی بات جاری تھی کہ شہزادہ اکبر نے اچانک کہا- "اصغر تم نے یہ بادشاہ سلامت اور ملکہ عالیہ کی کیا رٹ لگا رکھی ہے- تم ان کا تذکرہ امی حضور اور ابّا حضور کہہ کر کیوں نہیں کر رہے ہو؟"

"اب مجھ میں اتنی ہمت نہیں رہی کہ میں تمہارے امی ابّا سے اپنا رشتہ جوڑوں- مجھے اپنی حثیت کا علم ہو گیا ہے- ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ بادشاہ سلامت اور شہزادہ اکبر محل سے غیر حاضر تھے- مجھے کچھ اور تو سوجھا نہیں میں نے سوچا کہ یہ بات ملکہ عالیہ کو بتانا چاہیے- میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں وزیر کی حرکت سے آگاہ کیا-"

ملکہ عالیہ بہت ناراض ہوئیں اور فوراً وزیر کو طلب کیا- ملکہ عالیہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا- میں ایک طرف سر جھکائے کھڑا تھا-

وزیر نے فوراً ہی بھانپ لیا کہ میں نے اسکی شکایت کر دی ہے مگر وہ اتنا عیار شخص ہے کہ اس نے اپنے چہرے سے کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں ہونے دیا- ملکہ عالیہ نے اسے پوری بات بتا کر پوچھا- "کیا یہ سچ ہے کہ تم نے اصغر سے بادشاہ سلامت کو قتل کرنے کا کہا تھا؟"

وزیر نے ہاتھ باندھ کر کہا- "جی ہاں ملکہ عالیہ یہ بات بالکل درست ہے-"

وزیر کی بات سن کری میرے علاوہ ملکہ عالیہ بھی چونک پڑیں- وزیر نے کہا- "میں بادشاہ سلامت کا وفادار ہوں- مجھے اصغر کی طرف سے شبہ تھا کہ اس کے دل میں دولت حاصل کرنے کی ہوس ہے- میں اپنا یہ شبہ دور کرنا چاہتا تھا- اسی لیے میں نے اس کا امتحان لینے کے لیے یہ سب چکّر چلا یا تھا- مجھے خوشی ہے کہ اصغر ایک نیک دل آدمی ہے- اگر وہ لالچی ہوتا تو میرے منصوبے کو بخوشی عملی جامہ پہنانے پر تیار ہو جاتا- آپ سے اس کی شکایت نہ کرتا-"

ملکہ عالیہ کا منہ حیرت سے کھل گیا- پھر وہ مسکرا کر بولیں- "واقعی تم بادشاہ سلامت کے خیر خواہ ہو، مگر اب آئندہ کبھی اصغر کا امتحان لینے کی کوشش مت کرنا- یہ ہمیں اتنا ہی عزیز ہے جتنا کہ اکبر-"

خیر بات آئ گئی ہو گئی- اس واقعہ کے تیسرے روز کا قصہ ہے- ملکہ عالیہ کی طبیعت کچھ خراب ہوگئی تھی- شاہی طبیب انھیں دوا دے گیا تھا اور سواے دودھ کے ہر چیز سے پرہیز کرنے کو کہا تھا- دوپہر کے وقت میں اپنے کمرے میں جا رہا تھا کہ راہداری میں مجھے وزیر مل گیا- اس کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا- مجھے دیکھ کر وہ بولا- "اصغر تمام غلام اور کنیزیں پتا نہیں کہاں مر گئے ہیں- تم یہ دودھ کا گلاس ملکہ عالیہ کو دے آؤ- انہوں نے ابھی ابھی دودھ منگوا یا تھا- شائد بادشاہ سلامت اور شہزادہ اکبر واپس آ گئے ہیں- میں ان کا استقبال کرنے جا رہا ہوں-"

میں نے وزیر کے ہاتھ سے گلاس لے لیا اور ملکہ عالیہ کے کمرے کی طرف بڑھ گیا- انھیں بھوک لگی تھی مگر کھانے پر تو پاپندی لگی ہوئی تھی، اس لیے دودھ ہی انھیں غنیمت معلوم دیا- انہوں نے فوراً ہی گلاس خالی کر دیا مگر دودھ پیتے ہی ان کی حالت غیر ہوگئی- انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے گلا پکڑ لیا اور تڑپنے لگیں- میں یہ تمام ماجرہ بڑی حیرت اور پریشانی سے دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں بادشاہ سلامت، شہزادہ اکبر اور وزیر کمرے میں داخل ہوۓ-

ملکہ کی حالت دیکھ کر بادشاہ سلامت کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے- انہوں نے جلدی سے شاہی طبیب کو بلایا مگر ملکہ کو دیکھ کر اس نے مایوسی سے کہا- "اب کچھ نہیں ہو سکتا- ملکہ عالیہ کو دودھ میں زہر دیا گیا ہے-"

شاہی طبیب کی بات سنتے ہی وزیر نے اچھل کر میرا گریبان پکڑ لیا اور چیخ کر بولا- "سچ بتا تو باہر راہداری میں ملکہ عالیہ کے دودھ میں کیا ملا رہا تھا؟"

ادھر وزیر کی بات ختم ہوئی اور ادھر ملکہ عالیہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی- وزیر کی اس حرکت پر میں حیرت سے گنگ ہو کر رہ گیا تھا- وزیر نے بادشاہ سلامت کو قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کہ اس نے مجھے دودھ کے گلاس میں زہر ملاتے دیکھا تھا- انھیں اس کی بات پر یقین آگیا اور انہوں نے مجھے قید خانے میں ڈلوا دیا- وہ حالانکہ مجھے ایک باپ کی طرح چاہتے تھے مگر اب ان کی محبّت نفرت میں بدل گئی تھی- پھر انہوں نے میرے قتل کا حکم دیدیا- آج سے ٹھیک تین دن بعد مجھے پھانسی دیدی جاتی، مگر میں اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہتا تھا- میری خواہش تھی کہ بادشاہ سلامت کو پتہ چل جائے کہ ملکہ عالیہ کا قاتل میں نہیں بلکہ وزیر ہے- اسی لیے میں قید خانے سے فرار ہو گیا-"

اصغر خاموش ہوا تو زریں پری نے حیرت بھرے لہجے میں کہا- "افوہ- وہ وزیر کا بچہ کتنا چالاک تھا- وہ واقعی بادشاہ سلامت کو قتل کرنا چاہتا تھا- اسی لیے اس نے دودھ میں زہر ملا کر آپ کے ذریعے وہ دودھ ملکہ کو پلوادیا- اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے تھے، ملکہ عالیہ بھی ختم ہوگئیں اور آپکو بھی ان کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا-"

"اور ہم دونوں کا راستے سے ہٹنا ضروری تھا-" اصغر نے سوچ میں ڈوبے ہوۓ لہجے میں کہا- "وزیر کو شبہ تھا کہ جب یہ قصّہ بادشاہ سلامت تک پہنچے گا کہ وزیر نے میرا امتحان لینے کے لیے انھیں قتل کرنے کی پیشکش کی تھی تو انھیں اس میں وزیر کی مکاری کی جھلک نظر آئیگی اور وہ اس کی طرف سے چوکنا ہو جائیں گے، اسی لیے وہ ہم دونوں کو اپنے راستے سے ہٹا دینا چاہتا تھا-"

شہزادہ اکبر جو ان کی باتیں بڑی خاموشی سے سن رہا تھا، بڑے غصے سے بولا- "مجھے یہ سب باتیں پہلے معلوم نہیں تھیں- میں ابھی جا کر ابّا حضور کو تمام حالات سے باخبر کرتا ہوں، وہ اس کمینے وزیر کو عبرتناک سزا دیں گے-"

اصغر نے اس کا شانہ تھپکتے ہے کہا- "میرے بھائی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا- بادشاہ سلامت تمہاری ایک نہیں سنیں گے- میں ہی اس کے لیے کوشش کروں گا کہ انھیں میری بے گناہی کے یقین ہو جائے-"

زریں پری بولی- "نہیں اصغر بھائی- اب آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں ہی کوئی ترکیب کروں گی کہ وزیر کی چالاکی بادشاہ سلامت کو معلوم ہو جائے-"

شہزادہ اکبر اور اصغر اس کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگے، پھر اصغر نے کہا- "میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ اگر تم پری ہو تو تمہارے پر کیوں نہیں ہیں، یہ ہی ایک بات ہے جس کی وجہ سے مجھے یقین نہیں آ رہا کے تم میری بہن ہو، حالانکہ ابھی کچھ دیر قبل ابّا جان کا خط دیکھ کر مجھے یقین تھا کہ تم میری بہن ہو، مگر اب میرے دماغ میں یہ خیال آ یا ہے کہ تم پری ہو تو تمھارے پر کیا ہوۓ؟"

زریں پری نے مسکرا کر دو دفعہ تالی بجائی، اس کے دونوں پر جو جادو کی چھڑی لگانے سے غائب ہو گئے تھے، تالیاں بجانے سے پھر ظاہر ہو گئے اور چاند کی روشنی میں جھلمل جھلمل کرنے لگے- اصغر کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی اور اس نے "میری بہن" کہہ کر زریں پری کو گلے سے لگا لیا- زریں پری نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کے بھائی نے اسے اپنی بہن تسلیم کر لیا ہے- اس نے اصغر کو بتایا- "کیونکہ میں یہاں آپ کو تلاش کرنے آئ تھی اس لیے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اپنے پروں کو چھپا دوں کیونکہ ایک پری کو دیکھ کر لوگوں کی اتنی بھیڑ لگ جاتی کہ میں اپنا کام آسانی سے انجام نہیں دے سکتی تھی-"

ابھی ان میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اچانک وہاں پر ایک تیز آواز گونجی- "اصغر تم اس وقت چوالیس سپاہیوں کے نرغے میں ہو، تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ تم چپ چاپ خود کو ہمارے حوالے کر دو ورنہ چوالیس تلواریں تمہیں لمحہ بھر میں کاٹ کر رکھ دیں گی-"

یہ آواز سن کر تینوں اچھل پڑے، ٹوٹی ہوئی دیوار کے پاس شہر کا کوتوال کھڑا تھا، اس کے پیچھے بہت سارے سپاہی ہاتھوں میں ننگی تلواریں لیے اصغر کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے- (جاری ہے)

Browse More Moral Stories