Pari Ka Bhai - Last Qist - Article No. 1590

Pari Ka Bhai - Last Qist

پری کا بھائی (آخری قسط) - تحریر نمبر 1590

ہوا دراصل یہ تھا کہ شہزادہ اکبر نے بے خیالی میں اپنا گھوڑا باہر ہی باندھ دیا تھا- شہر کا کوتوال بھی دوسرے سپاہیوں کی طرح بادشاہ کے حکم پر اصغر کو گرفتار کرنے کے لیے شکاری کتے کی طرح اس کی بو سونگھتا پھر رہا تھا

Mukhtar Ahmad مختار احمد بدھ 4 دسمبر 2019

ہوا دراصل یہ تھا کہ شہزادہ اکبر نے بے خیالی میں اپنا گھوڑا باہر ہی باندھ دیا تھا- شہر کا کوتوال بھی دوسرے سپاہیوں کی طرح بادشاہ کے حکم پر اصغر کو گرفتار کرنے کے لیے شکاری کتے کی طرح اس کی بو سونگھتا پھر رہا تھا- اس نے جو ایک ویران اور سنسان جگہ پر ایک کھنڈر نما مکان کے قریب ایک گھوڑا بندھا دیکھا تو اس کا ماتھا ٹھنکا- وہ گھوڑے سے اتر کر خاموشی سے اس مکان کی طرف بڑھا- اندر اصغر، زریں پری اور شہزادہ کو اپنی آپ بیتی سنانے میں مصروف تھا- اصغر کو دیکھ کر تو کوتوال کی بانچھیں کھل گئیں- وہ بھاگا بھاگا گیا اور بہت سارے سپاہیوں کو لے آیا اور اب اس نے اصغر کو دھمکی دی تھی کہ وہ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردے ورنہ اس کی تکا بوٹی کردی جائے گی-

شہزادہ اکبر اور اصغر دونوں ہی کوتوال کی اس اچانک آمد پر حیرت آمیز پریشانی میں مبتلا ہو گئے تھے مگر زریں پری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی-

شہر کوتوال نے دو سپاہیوں کی طرف ایک رسی پھینکی اور بڑی نخوت سے بولا- "ملکہ عالیہ کے قاتل کی مشکیں کس دو- یہ سمجھتا تھا کہ قید خانے سے بھاگ کر بچ جائے گا، مگر مجھ جیسے کوتوال کی گرفت سے بچ کر نکل جانا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے-"

دونوں سپاہیوں نے رسی تھامی اور اصغر کی طرف بڑھنے لگے- اصغر بے بسی سے شہزادہ اکبر کو دیکھ رہا تھا جو خود بھی بہت رنجیدہ نظر آنے لگا تھا-
____________

وہ دونوں سپاہی ابھی ان کے قریب پہنچے ہی تھے کہ زریں پری نے جادو کے قالین کو چپکے سے بلند ہونے کا حکم دیا- وہ تینوں قالین پر بیٹھے تھے- قالین فضا میں بلند ہوا اور خاصی بلندی پر جا کر ٹھہر گیا- تمام سپاہی ہکا بکا رہ گئے- وہ دو سپاہی جو اصغر کو باندھنے کیلئے آئے تھے، اس منظر سے اتنا متاثر ہوۓ کہ انہوں نے پہلے تو چیخ ماری پھر اچھل کر پیچھے ہٹے اور دھڑام سے زمین پر گر کر بے ہوش ہو گئے-

اصغر اور شہزادہ اکبر بھی کچھ کم حیران نہیں تھے- مگر وہ جان گئے تھے کہ یہ زریں پری کا جادوئی قالین ہے- اصغر نے ایک اطمینان بھری سانس لیتے ہوۓ کہا- "سپاہیوں کی آمد اس قدر اچانک تھی کہ میں سواے دم بخود ہوجانے کے کچھ بھی نہ کر سکا- زریں بہن اگر تم مدد نہ کرتیں تو میں بری طرح پھنس جاتا-" زریں پری بھائی کے تعریف کرنے پر شرما گئی اور اس کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی- شہزادہ اکبر نے نیچے جھانکتے ہوۓ کہا- "بے چارے سپاہی کس قدر بے بسی اور حسرت سے ہمیں دیکھ رہے ہیں-" اصغر اور زریں پری بھی نیچے دیکھنے لگے- کوتوال نے انھیں اپنی طرف متوجہ دیکھا تو چیخ کر بولا- "میں سمجھ گیا ہوں یہ پری تمہاری مدد کو آئ ہے- اگر تم مجھے بھی اس جادوئی قالین پر بیٹھا کر آسمان کی سیر کرا دو تو میں تمہیں کچھ نہیں کہونگا اور زندگی بھر تمہارا احسان مند رہونگا-"

اصغر نے بھی چلا کر جواب دیا- "ہم تمہارے بھّرے میں نہیں آئیں گے- بے وقوف آدمی زمین پر رہ کر آسمان کی سیر کے خواب دیکھتے ہو، گر پڑے تو ہڈی پسلی ایک ہوجائیگی-"

اس کی بات پر شہزادہ اکبر اور زریں پری دونوں ہنس پڑے- پھر زریں پری نے کہا- "اصغر بھائی- میں چاہتی ہوں کہ ملکہ عالیہ کے قتل کا الزام آپ کے سر سے جلد ہی اتر جائے- میں نے آپ کو قسمت کی مہربانی سے پا تو لیا ہے مگر یہ کیسی مشکل ہے کہ ہم دونوں اطمینان سے گفتگو بھی نہیں کر سکتے- ساری زندگی تو ہم اس قالین پر ٹنگے نہیں رہ سکتے- بہتر یہ ہو گا کہ ہم بادشاہ سلامت سے ملیں اور انھیں تمام کہانی سے آگاہ کردیں-"

"پھر وہ ہی مرغے کی ایک ٹانگ-" اصغر برا سا منہ بنا کر بولا- "ارے بادشاہ سلامت کبھی بھی میری یا تمہاری بات پر یقین نہیں کریں گے-"

"یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں- بادشاہ سلامت کو یقین دلانا میرا کام ہے-" زریں پری نے مسکراتے ہوۓ کہا- کچھ دیر بعد اس نے منہ نیچے کر کے کوتوال سے کہا-

"میاں کوتوال- میں اصغر کی بہن زریں پری ہوں- میں جانتی ہوں کہ اصغر بھائی ملکہ عالیہ کے قاتل نہیں ہیں-"

"یہ بات اس کی بہن نہیں کہے گی تو اور کون کہے گا-" کوتوال نے دانت پیس کر کہا- "تم نے میرے کام میں مداخلت کر کے اپنی موت کو دعوت دی ہے- اگر میں نے تمہیں عبرتناک سزا نہ دی تو میرا نام بدل دینا-"

زریں پری اس کی بات سنکر کر اڑ کر زمین پر آ گئی اور کوتوال سے بولی- "اگر تم میں ہمت ہے تو مجھے ہاتھ لگا کر دکھاؤ- مان جاؤں گی تمہیں-" یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ میں موجود جادو کی چھڑی کو ان لوگوں کی طرف کر کے ہلا یا- اس چھڑی میں سے روشنی سی نکلی اور کوتوال سمیت تمام سپاہی کمر تک پتھر کے ہو گئے- کوتوال کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں- اس کی ساری اکڑ فوں رخصت ہو گئی تھی، وہ رونی صورت بنا کر بولا- "ہم تو پہلے ہی مٹی کے بنے ہوۓ تھے، اب تم نے ہمیں پتھر کا بنا دیا ہے، آخر تم چاہتی کیا ہو؟"

"میں چاہتی ہوں کہ بادشاہ سلامت سمیت تمام لوگوں کی یہ غلط فہمی ختم ہوجائے کہ میرے بھائی نے ملکہ کو زہر دیا ہے-" زریں پری بولی-

"کیا تم یہ غلط فہمی ہمیں پتھر کا بنا کر دور کرنا چاہتی ہو؟" کوتوال نے گھبراۓ ہوۓ لہجے میں کہا-

"نہیں- میں تم سب کو ابھی ٹھیک کر دوں گی، مگر اس سے پہلے تم میرا ایک پیغام سن لو جو کہ تمہیں بادشا تک پہنچانا ہے- اپنے بادشاہ سے کہنا کہ میں ایک انصاف پسند پری ہوں اور یہ جانتی ہوں کہ ملکہ کو زہر میرے بھائی نے نہیں دیا ہے- وہ بالکل بے گناہ ہے- اصلی قاتل وزیر ہے اور سزا اسی کو ملنی چاہیے-"

"مگر اس کا ٹھوس ثبوت بھی تو ہونا چاہیے-" کوتوال نے اصرار کر تے ہوۓ کہا-

"ثبوت بھی میں دوں گی، مگر پہلے تم اپنے سپاہیوں کو یہاں سے چلتا کر دو-" یہ کہہ کر زریں پری نے دوبارہ اپنی جادو کی چھڑی کو حرکت دی- تمام سپاہی دوبارہ اپنی اصلی حالت میں آ گئے اور پھر کوتوال کا اشارہ پاتے ہی وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے-

زریں پری نے اسے اپنی انگلی سے اتار کر ایک چمکدار رنگوں والی انگوٹھی دی اور کہا- "یہ انگوٹھی سچ اور جھوٹ کا پتہ چلاتی ہے- اگر اس انگوٹھی کو وزیر کے جسم سے رگڑا جائے تو اگر وہ سچا ہے تو اسے کچھ نہیں ہوگا- لیکن اگر وہ میرے بھائی کو پھنسانے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کا چہرہ خرگوش کے چہرے میں تبدیل ہو جائے گا- تم یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو، میرے خیال میں یہ ثبوت کافی ہوگا-"

کوتوال نے زریں پری سے وہ انگوٹھی لے لی اور پھر اس سے جانے کی اجازت چاہی- جب زریں کوتوال کو رخصت کر کے واپس قالین پر آئ تو اصغر نے اس سے پوچھا کہ وہ کوتوال سے کیا باتیں کر رہی تھی- زریں پری نے مختصراً اسے سب کچھ بتا دیا- ان دونوں کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا- وہ سوچنے لگے کہ زریں پری نہ جانے کیا کرنا چاہتی ہے- زریں پری نے قالین کو محل کی طرف جانے کا حکم دیا اور خاموش ہو کر اندھرے میں گھورنے لگی-
____________

بادشاہ گہری نیند سو رہا تھا- وہ تینوں اس کی خواب گاہ میں کھڑے تھے- انھیں محل میں آ ے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی- قالین نے انھیں محل کی چھت پر اتارا تھا اور وہ سیڑھیوں کی مدد سے نیچے آئے تھے- پہرے داروں نے انھیں حیرت بھری نگاہوں سے دیکھا تھا، مگر شہزادہ اکبر چونکہ ان کے ساتھ تھا اس لیے وہ کچھ بولے نہیں تھے-

زریں پری نے شہزادہ اکبر کو اشارہ کیا کہ وہ بادشاہ کو اٹھا دے- شہزادہ اکبر بادشاہ کو اٹھانے لگا- اصغر ایک طرف مجرموں کی طرح سر جھکاے کھڑا تھا- تھوڑی سی کوشش کے بعد بادشاہ بیدار ہو گیا- اس نے حیرت بھری نظروں سے ان تینوں کو دیکھا، اصغر پر نظر پڑتے ہی وہ جھٹکے سے بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا- پھر لال پیلی آنکھیں کر کے دھاڑا- "نمک حرام-"

زریں پری تڑپ کر آگے بڑھی اور تلخی سے بولی- "میرے بھائی کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئی ہیں، اس کے دکھ سن سن کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے- آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ اس سے ایسے لہجے میں گفتگو کریں-"

بادشاہ نے اپنی خشمگیں نگاہیں زریں پری کی طرف پھیر یں اور بولا- "بھائی؟- تم اس کو بھائی کہہ رہی ہو، شائد تم پوری کہانی سے واقف نہیں ہو، ارے اس نے اس عورت کو زہر دے دیا ہے جس نے ماں بن کر اسے پالا تھا-"

"یہ سب جھوٹ ہے، فریب ہے، میرا بھائی وزیر کی سازش کا شکار ہوا ہے-" زریں پری نے پر زور الفاظ میں کہا- "آپ نے وزیر کی باتوں میں آ کر اصغر بھائی کی ایک نہ سنی اور انھیں قید خانے میں ڈلوا دیا- میں چاہتی تو اصغر بھائی کو لے کر پرستان بھی جا سکتی تھی مگر میں نہیں چاہتی تھی کہ انھیں بعد میں ایک قاتل کی حثیت سے یاد کیا جائے- میں یہ ثابت کر کے رہوں گی کہ یہ تمام سازش وزیر کی ہے، پھر میں اور اصغر بھائی ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلے جائیں گے- اگر آپ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو میرے ساتھ وزیر کے گھر چلنا پڑے گا-"

"یہ تم نے کیا بے سروپا باتیں شروع کردیں"- بادشاہ منہ بگاڑ کر بولا- " اس وقت وزیر کے گھر جانے سے کیا ہوگا-"

"ابّا حضور آپ کبھی تو کسی کی بات مان لیا کریں-" شہزادہ اکبر نے تیزی سے کہا- "وزیر کے گھر جانے میں حرج ہی کیا ہے- وہاں جا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا-"

بادشاہ مجبوراً ان کے ساتھ وزیر کے گھر جانے پر رضا مند ہوگیا-

اتنی رات گئے وہ لوگ باہر جا رہے تھے، اس لیے پہرے داروں میں ہلچل سی مچ گئی، پھر ایک پری کی موجودگی انھیں مزید حیرت زدہ کر رہی تھی، مگر کسی میں بھی یہ ہمت نہ تھی کہ وہ کچھ پوچھنے کی جرات کرتا-

زریں پری کا خیال تھا کہ کوتوال بادشاہ کے پاس جانے سے پہلے وزیر کے پاس جائے گا، کیوں کہ اس نے کوتوال کی باتوں سے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ بھی ایک چالاک اور لالچی انسان ہے- اور یہ تھی بھی حقیقت- کوتوال پری سے مرعوب ہو گیا تھا- وہ ایک لالچی قسم کا انسان تھا اس لیے یہ بات قرین قیاس تھی کہ وہ وزیر سے کچھ مال حاصل کرنے اور اس کی خوشنودی کی خاطر اسے تمام باتوں سے آگاہ کرے گا- زریں پری ان کے درمیان ہونے والی گفتگو بادشاہ کو سنانا چاہتی تھی-

اس نے راستے میں بادشا کو اصغر سے سنی ہوئی تمام کہانی تفصیل سے سنا دی تھی- یہ کہانی سن کر بادشاہ کی آنکھیں سوچ میں ڈوب گئی تھیں- پھر زریں پری نے اسے بتایا کہ اس نے کوتوال کے ساتھ کیا چال چلی ہے-

تھوڑی دیر بعد وہ لوگ وزیر کے مکان پر پہنچ گئے- وہ چاروں اس کے باغ میں داخل ہوے اور ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئے-

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہاں پر ایک گھڑ سوار آیا- وہ کوتوال تھا- اس نے وزیر کو آواز دے کر باہر بلایا- وزیر اس کی دوسری آواز پر ہی باہر نکل آیا تھا- وہ کوتوال کو دیکھ کر بےصبری سے بولا- "کیا اصغر گرفتار ہوگیا؟"

کوتوال نے نفی میں گردن ہلاتے ہوۓ کہا- "اصغر کو ایک پری مل گئی ہے، وہ پری جادو بھی جانتی ہے- اس نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو آدھا پتھر کا بھی بنا دیا تھا- اس کے پاس جادوئی قالین بھی ہے اور وہ خود کو اصغر کی بہن بتاتی ہے-"

"جب سے اصغر قید خانے سے بھاگا ہے، مجھے پل بھر کو بھی سکون نہیں ملا ہے، کیونکہ میں نے ہی اس کا راز افشا کیا تھا کہ اس نے ہی ملکہ کو زہر دیا ہے- اب مجھے خدشہ ہے کہ وہ مجھ سے انتقام لینے کے لیے نہ آجائے- وہ پری اسے کہاں لے گئی ہے؟" وزیر نے پوچھا-

کوتوال نے جواب دیا- "یہ تو میں بھی نہیں جانتا، مگر اس کو اس بارے میں پورا یقین تھا کہ اصغر نے ملکہ عالیہ کو قتل نہیں کیا ہے- وہ اس کا ذمہ دار تمہیں ٹھہراتی ہے- اس نے میرے ہاتھ ایک پیغام بادشاہ سلامت کے لیے بھجوایا ہے اور ایک انگوٹھی دی ہے- وہ انگوٹھی جادو کی ہے- وہ سمجھتی ہے کہ ملکہ عالیہ کو تم نے ہی زہر دیا ہے-"

یہ کیا بکواس ہے، بھلا ملکہ سے میری کیا دشمنی تھی جو میں انھیں زہر دیتا؟" وزیر بھڑک کر بولا-

"یہ چیز دیکھنے کے لیے اس نے میرے ہاتھ بادشاہ سلامت کے لیے ایک انگوٹھی بھی بھیجی ہے- اگر یہ انگوٹھی تمہارے جسم سے چھو دی جائے تو تمہارا چہرہ خرگوش کے چہرے میں تبدیل ہو جائے گا، صرف اس صورت میں کہ اگر تم نے جھوٹ بول کر اصغر کو پھنسانے کی کوشش کی ہو اور اگر تم سچے ہو تو پھر تمہیں کچھ نہ ہوگا- میں تمہارے پاس اس لیے چلا آیا تھا کہ اگر تم واقعی جھوٹ بول کر اصغر کو پھنسا رہے ہو تو مجھ سے سودا کر لو- میں بادشاہ کو ہرگز نہیں بتاؤں گا کہ پری نے مجھ سے کیا کہا تھا- اور اگر اصغر واقعی ملکہ کا قاتل ہے تو پھر تمہیں ڈرنے یا خوف زدہ ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے- پھر بھی یہ ضرور ہے کہ غلطی انسانوں سے ہی ہوتی ہے- بولو کیا تم اس جادو کی انگوٹھی کا سودا کرنے پر تیار ہو؟"

وزیر کا چہرہ پسینے میں بھیگ گیا تھا، وہ لوگ حالانکہ باغ کے نزدیک کھڑے تھے جہاں پر ہر وقت ٹھنڈی ہوا کا گزر رہتا ہے- اس سے کچھ ہی فاصلے پر بادشاہ، شہزادہ اکبر، اصغر اور زریں پری پھولوں کی کیاری میں دبکے ان دونوں کی گفتگو بڑے غور سے سن رہے تھے- آخر وزیر نے پھنسی پھنسی آواز میں کہا- "خدا اس پری کی بچی کو غارت کرے- ہاں کوتوال بھائی مجھ سے غلطی ہو گئی تھی، میں نے ہی ملکہ کو زہر دیا تھا اور میں اصغر کو بھی اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا تھا- اسی لیے میں نے اس قتل کا الزام اصغر کے سر منڈھ دیا تھا- خدا کے لیے بادشاہ کو پری کی انگوٹھی کے بارے میں کچھ نہیں بتانا- میں تمہیں اس کے لیے بڑی سے بڑی قیمت دینے پر تیار ہوں-"

اس کی بات ابھی ختم ہوئی ہی تھی کہ بادشاہ پودوں کی آڑ سے نکل کر گرجا- "نمک حرام وزیر- اب ہمیں تیری حقیقت معلوم ہو گئی ہے- تو ہی ہماری ملکہ کا قاتل ہے- اب ہم تجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے-"

یہ کہہ کر بادشاہ نے تلوار نکالی اور وزیر کی گردن اڑا دی- کوتوال اس قدر خوفزدہ ہوا کہ گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں سے بھاگ گیا-

شہزادہ اکبر، اصغر اور زریں پری پودوں سے نکل آے تھے- زریں پری نے کہا- "خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اصغر بھائی کے سر سے قتل کا الزام اتر گیا-" بادشاہ نے اصغر کو سینے سے لگاتے ہوۓ کہا- "اصغر بیٹا- ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں- امید ہے کہ تم ہمیں معاف کردو گے-" اصغر کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے-

پھر وہ لوگ محل واپس چلے آئے- اگلے دن تمام رعایا کو پتا چل گیا کہ ملکہ کا قاتل کون تھا- زریں پری کی ذہانت کے چرچے گھر گھر ہو رہے تھے، جس نے اپنے بھائی کو ایک جھوٹے الزام سے بچا لیا تھا- بادشاہ بھی زریں پری کی عقلمندی سے بہت خوش تھا-

چند روز وہاں رہنے کے بعد زریں پری اپنے بھائی اصغر کو لے کر پرستان چلی گئی- وہاں پر اصغر نے نارّنگیوں اور سیبوں کا ایک باغ خرید لیا اور پھلوں کی تجارت کر نے لگا-

ایک روز وہ اپنے باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ زریں پری نے اسے اطلا ع دو کہ بادشاہ اس سے ملنے آیا ہے- اصغر نے بادشاہ کی بہت خاطر مدارات کی اور اسے سات روز تک اپنا مہمان رکھا اور پرستان کی سیر کرائی- بادشاہ دراصل زریں پری کا رشتہ اپنے بیٹے شہزادہ اکبر کے لیے مانگنے آیا تھا- اصغر نے بھی رضامندی ظاہر کر دی اور یوں چند روز کے بعد زریں پری اور شہزادہ اکبر کی شادی ہوگئی- (ختم شد)

Browse More Moral Stories