Pariyon Ki Malka Ka Darbaar - Article No. 1490

Pariyon Ki Malka Ka Darbaar

پریوں کی ملکہ کا دربار - تحریر نمبر 1490

پرستان میں پریوں کی ملکہ کا دربار سجا تھا․․․․․

پیر 5 اگست 2019

پرستان میں پریوں کی ملکہ کا دربار سجا تھا․․․․․خوبصورت پریاں رنگ برنگے پیراہن لہراتی باادب گھوم رہی تھیں ملکہ ست رنگی لباس پہنے ،سر پر پھولوں کا تاج سجائے صندل کی لکڑی سے بنے اپنے تخت پر بیٹھی تھی اور فخر سے اپنے دربار میں گھومتی پریوں کو دیکھ رہی تھی جو تتلیوں کی طرح ہلکی پھلکی تھیں اور اِدھر اُدھر اڑتی پھر رہی تھیں۔
یہ دربار ہر روز صبح شام لگتا تھا جس میں تمام پریاں اکٹھی ہوا کرتی تھیں۔

صبح کو اکٹھی ہو کر وہ سارا دن کئے جانے والے کاموں اور تفریحات کے منصوبے بناتی تھیں اور شام کو مل کر سارا دن کی رودادایک دوسرے کو سنایا کرتی تھیں،اس طرح ملکہ کے سامنے ان سب کی حاضری بھی لگ جایا کرتی تھی کہ آیا تمام پریاں محل میں موجود ہیں یا نہیں۔
سبزپری جو ملکہ کی کنیز خاص اور مشیر بھی تھی وہ ہمیشہ ملکہ کی دائیں بائیں با آدب اور ہوشیار کھڑی رہتی تھی،ملکہ کا اشارہ پاتے ہی حکم بجالاتی تھی۔

(جاری ہے)

سبز پری کی یہی عادتیں تھیں جو ملکہ کو بہت بھاتی تھیں اور وہ کسی بھی پل اس کو اپنی نظروں سے دور ہونے نہیں دیتی تھی۔
یوں تو سبھی پریوں کے پر سفید ہوتے تھے براق کی طرح بالکل سفید،لیکن ملکہ کے پروں پر مور پنکھ کی طرح سنہری دائرے پڑے ہوتے تھے،یہ سنہری دائرے نسل درنسل چلتے تھے۔ملکہ تو ایک ہی شہزادی کو بننا ہوتا تھا لیکن یہ سنہری دائر ے جس کے پروں پر بھی ہوں وہ اس بات کی علامت ہوتے تھے کہ اس پری کا تعلق بھی شاہی خاندان سے ہے ۔
اسی طرح جس پری زاد کے پروں پر سنہری دائرے ہوں وہ بادشاہ بنتا تھا یا شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔
سبز پری کے پروں پر بھی ہلکے ہلکے سنہری دائرے تھے جو اس بات کی علامت تھے کہ اس کا تعلق بھی شاہی خاندان سے تھا شاید اس لیے وہ ملکہ کو بہت عزیز تھی اور وہ سبزپری کو اپنی اولادکی طرح چاہتی تھی۔
اب سوچنے کی بات تھی کہ اگر سبز پری کے پروں پر بھی سنہری نشان تھے تو اس کو ملکہ نے اپنے برابر مقام کیوں نہ دیا․․․․آخر اس میں بھی تو شاہی خون تھا،پھر اس کا درجہ کنیزکا کیوں تھا․․․․․․؟
اس کی سب سے بڑی وجہ شہزادی سفید پری کا حسد تھا،جو ملکہ کی بیٹی اور مستقبل کی ملکہ تھی ،کیونکہ ملکہ کا کوئی بیٹا نہ تھا،ایک ہی بیٹا تھا جو کچھ سال پہلے لا پتہ ہو گیا تھا۔
سبز پری ناصرف سفید پری سے زیادہ خوبصورت تھی بلکہ وہ انتہائی ذہین اور سگھڑ بھی تھی،معاملہ فہم اور انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال تھی ،بے حد فرمانبرداری اور خوش مزاج بھی تھی سب کی مدد کرتی تھی ،غرضیکہ وہ ایسے لاجواب کردار کی مالک تھی کہ ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیتی تھی۔سب لوگ اس کو ”اچھی پری“کے نام سے بلاتے تھے،پھر بھی اس کا مقام ایک کنیز کا تھا۔

سفید پری گوکہ مستقبل کی ملکہ تھی مگرزمانے کی ساتھ چلنے والی اس میں کوئی بھی خوبی اور صلاحیت نہ تھی سوائے اس کے کہ وہ شہزادی تھی ملکہ کی بیٹی تھی اور دادی پری کی سر چڑھی تھی۔پریوں کے یہاں یہ بات قابل اعتراض سمجھی جاتی تھی کہ کسی پری زاد یا پری زادی میں کوئی بھی گن نہ ہو چاہئے وہ شہزادہ یا شہزادی ہی کیوں نہ ہو۔پھر نہ جانے کیوں ملکہ نے ابھی تک شہزادی کے ساتھ اتنی رعایت برتی ہوئی تھی۔
سفیدپری کو صرف دوہی کام آتے تھے․․․․․
سونا اور کھانا وہ اٹھتے ہی سب پر غصہ کرتی تھی اور کھانا کھاتے وقت تو سب سے زیادہ غصہ کرتی تھی کیونکہ اس کو کوئی کھانا پسند ہی نہیں آتا تھا ۔اس کو اپنے محل کا سادہ ماحول بھی پسند نہیں تھا،اس کو اپنا سفید لباس تک پسندنہ تھا․․․․․مگر کیا تھا کہ وہ خود سے کچھ کرنا بھی نہیں چاہتی تھی ،بے حد سست اور کام چور تھی۔
اس کے پھوہڑپن کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھاکہ وہ ابھی تک سفید پری ہی کہلاتی تھی ۔یعنی کہ جوان ہو جانے کے باوجود وہ اپنے لباس کو رنگ نہیں پائی تھی۔پریوں کی یہ ریت تھی کہ پیدا ہوتے ہی سب بچوں کو نہایت نفیس ریشم سے تیار کیا گیا سفید لباس پہنا دیا جاتا تھا وہ لباس بے حد نفیس اور ہلکا پھلکا ہوتا تھا تاکہ ان کواڑنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔عام طور پر بوڑھی پریاں ریشم اور سنیل کی روئی سے پہننے اور دیگر استعمال کے لئے کپڑا تیار کرتی تھیں پھر اس کو باریک کانٹوں کی سوئی سے سیتی تھیں۔

لیکن بڑے ہو کر ہر پری زادی کو اپنا لباس خودرنگنا ہوتا تھا اور وہ جس رنگ میں بھی اپنے لباس کو رنگ لیتی تھی وہی اس کا نام پڑجاتا تھا،کیونکہ رنگ کردار اور عادتوں کی عکاسی کرتے ہیں وہ خود اپنی بچیوں کے نام کچھ بھی رکھتے ہوں لیکن جب پری اپنا لباس رنگ لیتی تھی تو اس کا نام اسی رنگ سے منسوب ہو جاتا تھا ۔ضروری نہیں تھا کہ ہر کوئی بہت اچھا رنگ تیار کرے ،بس جس سے جیسا بھی رنگ بن جاتا تھا وہی اس کی علامت بن جاتا تھا۔
لباس رنگنے کے لئے رنگ وہ اپنی پسند کے پھولوں اور پودوں سے یا جس چیز کو بھی وہ پسند کریں اس سے تیار کرتی تھیں۔اس سے ان کے سگھڑپن کا پتا چلتا تھا حتیٰ کہ ملکہ بھی اپنا لباس خود رنگتی تھی لیکن اس کو یہ اعزاز حاصل ہوتا تھا کہ وہ اپنے لباس میں ایک سے زیادہ جتنے چاہے رنگ استعمال کر سکتی تھی بلاشبہ اس میں محنت تو زیادہ لگتی تھی لیکن یہ بھی ملکہ کے عام پریوں سے زیادہ سگھڑہونے کی دلیل تھی۔

پری زادے لباس رنگنے کی شرط سے آزاد ہوتے تھے کیونکہ ان کو اپنے ہنر دوسرے کاموں میں دکھانے ہوتے تھے وہ سفید لباس ہی پہنتے تھے جو ان کے مرد ہونے کی دلیل بھی تھا۔دس سال تک تو پری زادے اپنی ماں کی زیر نگرانی رہتے تھے لیکن دس سال کا ہوتے ہی ان کو الگ محل میں بھیج دیا جاتا تھا پھر وہ بادشاہ کی نگرانی میں چلے جاتے تھے جہاں زندگی گزارنے سے متعلق مختلف ہنر سیکھتے تھے ان کو بلا ضرورت اور بغیر اجازت زنانے محل میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

پریاں فطر تاً بہت نیک صلح پسند اور سادہ مزاج ہوتی تھیں ،اسی طرح ان کا محل بھی بہت سادہ تھا ،اتنا سادہ کہ ہم انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔سب سے اونچے پہاڑوں کی سب سے اونچی چوٹی پر واقع پرستان میں ان کا یہ محل تھاجہاں کسی اور ذی روح کا نام ونشان بھی نہ تھا۔بادل بھی بہت نیچے رہ گئے تھے کبھی کبھی کچھ بادل ہوا کے زور سے اوپر بھی آجایا کرتے تھے ۔یہ لوگ الگ الگ گھر بنانے کی بجائے ایک ہی محل میں سب مل جل کر اپنے بادشاہ اور ملکہ کی زیر نگرانی رہتے تھے زنانہ اور مردانہ محل الگ الگ تھے ۔سفر کے لئے شاہی افراد کے پاس تو براق تھے۔(پروں والے گھوڑے)اور ․․․․جاری ہے

Browse More Moral Stories