Pehchaan - Article No. 2009

Pehchaan

پہچان - تحریر نمبر 2009

میں نے خوبصورت پھولوں کو چھوڑ کر جان لیا ہے کہ میری پہچان صرف اور صرف پھول ہیں

منگل 6 جولائی 2021

نذیر انبالوی
نہر کنارے واقع گلابی باغ میں رنگ برنگے گلاب کے پھولوں کے کھلنے کی دیر تھی کہ ہر طرف خوشبو ہی خوشبو پھیل گئی تھی۔مالی گلاب خان گلاب کے پھولوں کو دیکھ دیکھ کر پھولا نہ سماتا تھا۔گلاب خان کی عادت تھی کہ وہ ایک ایک پھول کو سونگھتا اور ایک ہی جملہ دہراتا:”واہ،کیا بھینی بھینی خوشبو ہے۔“
گلاب خان کو کیا معلوم تھا کہ سارے ہی گلاب آپس میں باتیں کرتے ہیں۔
اپنی خوبصورتی پر ناز کرتے ہیں۔وہ گلاب خان کے سامنے اپنی اپنی ٹہنی پر لہراتے ہوئے باتیں کرتے جاتے تھے۔گلاب خان ان کی باتیں سن نہ پاتا تھا۔گلاب کے پھولوں اور خوشبو کے درمیان کئی دنوں سے ایک بحث جاری تھی۔یہ بحث اُس وقت شروع ہوئی تھی جب ایک آدمی نے سرخ گلاب کے پھول کو سونگھتے ہوئے کہا تھا:”بہت اچھی خوشبو ہے،دماغ معطر ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)


یہ بات سن کر خوشبو نے سرخ گلاب کے پھول کی طرف دیکھا اور کہا:”تمہاری جو تعریف ہوتی ہے وہ میری وجہ سے ہوتی ہے،تمہاری ساری اہمیت میرے دم سے ہے۔

میں نہ ہوں تو تمہیں کون پوچھے گا،میں ہوں تو تم ہو۔“
سرخ گلاب نے خوشبو کو گھورتے ہوئے کہا:”واہ،اچھی کہی،تمہیں سونگھنے کے لئے ہمارا ہونا بھی ضروری ہے۔“
”واہ گلاب میاں واہ،میں چلی گئی تو تم سب پھولوں کو کون پوچھے گا۔“خوشبو کی باتیں سن کر ہر گلاب نے اس کی طرف دیکھا تھا۔ایک ٹہنی پر اُگے ایک ننھے سے گلاب کے پھول نے خوشبو سے پوچھا:”کیا تم مجھے بھی چھوڑ جاؤ گی؟“
”ہاں․․․․․ہاں․․․․․میں تم سب کو چھوڑ جاؤں گی،پھر کبھی واپس نہ آؤں گی۔

گلاب کے پھول سمجھے کہ خوشبو یہ بات انھیں ڈرانے کے لئے کہہ رہی ہے،لیکن انھیں اُس وقت صدمہ پہنچا جب رات کی تاریکی میں خوشبو چپکے سے پھولوں سے نکل کر دور کہیں چلی گئی۔خوشبو کے رخصت ہونے سے جہاں گلاب کے پھول اُداس تھے وہاں گلاب خان مالی بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ پھولوں میں خوشبو کیوں نہیں۔گلاب کے پھول لہرا لہرا کر گویا چیخ چیخ کر خوشبو کے جانے کے بارے میں بتا رہے تھے۔
خوشبو باغ سے نکل کر ایک میدان کی طرف بڑھی،وہاں بچے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے۔بلے باز نے ایک زور دار ہٹ لگائی تو خوشبو کا وہاں سے گزر ہوا۔بلے باز نے اپنے ساتھی کو مخاطب کیا:”یہ خوشبو کیسی ہے؟شاید تم نے پرفیوم لگایا ہے۔“
”نہیں تو،میں نے پرفیوم نہیں لگایا۔“دوسرے بلے باز نے جواب دیا۔
خوشبو میدان کا چکر لگا کر بازار کی طرف بڑھ گئی۔
وہ جہاں بھی جاتی۔خوشبو پھیل جاتی۔سب کو اُس کی موجودگی کا پتا تو چل رہا تھا،مگر کوئی اُسے دیکھ نہیں پا رہا تھا۔خوشبو جہاں بھی جاتی،لوگ ایک دوسرے سے یہی سوال کرتے کہ خوشبو کہاں سے آرہی ہے؟کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا۔وہ پکار پکار کر کہتی:”میں خوشبو ہوں،میرا نام خوشبو ہے۔“کوئی اس کی پکار سننے کے لئے تیار نہ تھا۔
خوشبو کئی دنوں تک اِدھر اُدھر گھومتی رہی۔
اُسے لگ رہا تھا کہ اس نے اپنی پہچان کھو دی ہے۔اس نے باغ اور باغ میں موجود گلاب کے پھولوں کو چھوڑ کر اچھا نہیں کیا۔گلاب کے پھول بھی اس کے بغیر اُداس تھے۔وہ خوشبو کی راہ تک رہے تھے۔جس گلاب کے پھول کا خوشبو سے جھگڑا ہوا تھا۔اس کا سر ندامت سے جھکا ہوا تھا۔سب پھول اس سے ناراض تھے۔اس کی وجہ سے خوشبو سب پھولوں کو چھوڑ کر چلی گئی تھی۔اس نے کہا:”میں نے خوشبو سے لڑائی کرکے اچھا نہیں کیا۔
خوشبو واپس آئے گی تو میں اس سے معافی مانگ لوں گا،خوشبو کے بغیر ہم سب ادھورے ہیں۔“
سرخ گلاب کی باتیں خوشبو سن رہی تھی۔وہ چپکے سے باغ میں لوٹ آئی تھی۔وہ درختوں کے قریب کھڑی تھی۔اس کے باغ میں آتے ہی ہر طرف خوشبو بکھر گئی تھی۔گلاب کے پھول سر اُٹھا اُٹھا کر خوشبو کو دیکھ رہے تھے۔
”اے پیارے پھولوں!میں لوٹ آئی ہوں۔میں نے خوبصورت پھولوں کو چھوڑ کر جان لیا ہے کہ میری پہچان صرف اور صرف پھول ہیں۔

”اور ہماری پہچان صرف اور صرف تم ہو۔“سرخ گلاب نے خوشبو کی بات درمیان سے اُچک لی تھی۔
”تو اب یہ دوری کیوں کر رہے ،خوشبو آؤ،پھولوں میں دوبارہ سما جاؤ۔“ایک ننھے پھول کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ خوشبو ہر پھول میں بس گئی۔ اب باغ کا ہر پھول پہلے کی طرح خوشبودار تھا۔اس دن کے بعد نہ گلاب کے پھول خوشبو سے جدا ہوئے اور نہ خوشبو انھیں چھوڑ کر کہیں گئی۔

Browse More Moral Stories