Pehli Tehreer - Article No. 1814

Pehli Tehreer

پہلی تحریر - تحریر نمبر 1814

اب سوچ رہا ہوں کہ کوئی تحریر لکھوں کہ شاید میں بھی چھوٹا موٹا ادیب بن جاؤں

جمعرات 8 اکتوبر 2020

محمد حسن دانش منصوری جسی،کراچی
”کس سوچ میں کھوئے ہو احسن!“سر شوکت،احسن کو خیالات کی دنیا سے باہر لے آئے ۔”کچھ نہیں سر!“اس نے اپنی بات کو ٹالنا چاہا،پھر سر شوکت کے اصرار پر اس نے بتایا کہ وہ کوئی تحریر لکھنے کے بارے میں سوچ رہا ہے ۔
”کیسی تحریر؟“سر نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔
احسن نے بتایا:”میں پابندی سے ایک رسالہ پڑھتا ہوں اور اس رسالے پر تبصرہ بھی کرتا ہوں ۔
اب سوچ رہا ہوں کہ کوئی تحریر لکھوں کہ شاید میں بھی چھوٹا موٹا ادیب بن جاؤں ۔“
یہ سننا تھا کہ پوری کلاس قہقہے کی آواز سے گونج اُٹھی ۔
سر شوکت صاحب نے تمام بچوں کو خاموش کرایا اور تعریف کے انداز میں بولے:”اس میں کون سی بُری بات ہے،پڑھائی کے ساتھ ساتھ دیگر سر گرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔

(جاری ہے)


سر شوکت نے بچوں کو سمجھاتے ہوئے مزید کہا:”اگر آپ لوگوں کا ساتھی اچھی سر گرمیوں میں حصہ لے رہا ہے تو اس کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔


پھر سر نے احسن کو مخاطب کرکے کہا:”بیٹا!اگر تمہاری تحریر شائع ہوئی تو میں تمہیں خصوصی انعام دوں گا ۔“
سر شوکت کے اس مختصر تعریف بھرے الفاظ سے احسن کا حوصلہ مزید بڑھ گیا اور ہر سال میں تحریر لکھنے کا ارادہ کر لیا ۔کچھ دیر بعد چھٹی کی بیل بجی ۔تمام بچے اپنے بیگ کاندھوں پر لٹکا کر گھر کی طرف چل پڑے ۔اس کلاس میں شریر بچوں کا ایک گروپ بھی تھا ۔
سر شوکت کے کلاس سے باہر جاتے ہی شریر گروپ کے سر براہ رافع نے سب ساتھیوں کو مخاطب کرکے شرارتی انداز میں کہا:”بچوں! اللہ نے ہمیں دو کان اس لئے دیے ہیں کہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دو ۔“شریر سردار کی یہ بات سن کر اس کے سارے چیلے ہنسنے لگے ۔
احسن نے بھی اپنا بیگ اُٹھایا اور گھر کی طرف چل پڑا ۔جوں ہی وہ اسکول سے نکلا تو اس کے شریر کلاس فیلو رافع،نعمان اور فہیم نے اسے روکا اور کہا کہ آج تمہاری وجہ سے کلاس میں ہماری بے عزتی ہوئی ہے ،لہٰذا اب تم سے بدلہ ہم پرواجب ہے ۔
یہ کہتے ہوئے انھوں نے احسن کو مارنا شروع کر دیا ۔مارنے کے بعد رافع نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر تم نے یہ بات سر کو بتائی تو ہم سے بُرا کوئی نہ ہو گا ۔
احسن روتا ہوا گھر پہنچا ۔احسن ایک یتیم لڑکا تھا ۔وہ بچپن سے ماں باپ دونوں کی شفقت سے محروم ہو گیا تھا ۔اس کی تربیت نانی نے کی تھی اور وہ نانی کے گھر پر ہی رہتا تھا ۔نانی نے جب اسے روتا ہوا گھر میں داخل ہوتے دیکھا تو وہ بے حد پریشانی ہو گئی ۔
اس نے اسے گلے لگایا اور پوچھا:”احسن بیٹا!کیا ہوا تمہیں؟ کسی نے مارا ہے کیا؟“
احسن نانی کو کوئی جواب دیے بغیر کمرے میں چلا گیا اور چارپائی پر منہ چھپا کر لیٹ گیا ۔تھوڑی دیر بعد وہ نیند کی آغوش میں جا چکا تھا ۔سوکر اُٹھا تو اس نے تمام واقعہ نانی کو بتا دیا ۔نانی نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا:”بیٹا!دنیا میں اچھے لوگ کم ہونے کے باوجود بُرے لوگ پر غالب آتے ہیں ۔
اس لئے بیٹا! اچھائی کا راستہ کبھی مت چھوڑنا اور استادوں اور بڑوں کا کہنا مانتے رہنا،کامیابی تمہارے قدم چومے گی ۔
احسن نے نانی کی نصیحت کو غور سے سنا اور ان باتوں پر عمل کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا ۔مہینے کی پہلی تاریخ ہوئی تو اسکول سے واپسی پر اس نے رسالہ خریدا اور گھر آکر رسالہ کھول کر اس نے صفحات پلٹنا شروع کیے ۔اتنے میں اس کی نگاہ اپنی تحریر پر پڑی ۔
اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھاکہ یہ واقعی اس کی اپنی تحریر ہے ۔وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا ۔
اس نے ماموں جان اور نانی جان کو رسالے میں اپنی تحریر دکھائی تو ماموں جان نے اسے سو روپے کا انعام دیا ۔اگلے دن وہ رسالہ لے کر اسکول پہنچا اور کلاس میں سر شوکت صاحب کے سامنے رکھتے ہوئے پر اعتماد لہجے میں بولا:”سر!یہ دیکھیے آپ کے شاگرد کی محنت کا نتیجہ ۔

سر شوکت نے جب اس کی تحریر دیکھی تو وہ بے حد خوش ہوئے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہنے لگے:”شاباش بیٹا!یہ ہوئی بات ۔ مزید محنت کرو ۔ایک دن تم بڑے ادیب بنو گے اور میں تمہیں ہیڈ ماسٹر صاحب سے انعام دلواؤں گا ۔“سر شوکت صاحب کے یہ تعریفی الفاظ سن کر شریر گروہ کے سر براہ رافع کے منہ پر تو ایسا لگ رہا تھا جیسے بارہ بج رہے ہوں ۔

Browse More Moral Stories