Phool Naraz Nahi HooN Ge - Article No. 1652

Phool Naraz Nahi HooN Ge

پھول ناراض نہیں ہوں گے - تحریر نمبر 1652

”پھول تم سے ناراض نہیں ہوں گے۔انھیں معلوم ہے کہ تم ان کے پاس کیوں نہیں آئے۔ناشتا کرکے دوا کھالو،وہ دن ضرور آئے گا جب ہم پھولوں کی وادی میں جائیں گے۔“

پیر 3 فروری 2020

نذیر انبالوی
دادی جان نے عبداللہ کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو انھیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ بخار کی شدت میں خاصی کمی ہو گئی ہے۔وہ ساری رات اپنے پوتے کی چار پائی کے قریب بیٹھی رہی تھیں۔عبداللہ کی والدہ دو سال پہلے ایسے ہی موسم میں اللہ تعالیٰ کے پاس چلی گئی تھیں۔عبداللہ اس وقت آٹھ سال کا تھا۔ماں کی جدائی میں وہ خوب رویا،آخر صبر آہی گیا۔
سردیوں نے اپنی آمد کا اعلان کیا تو عبداللہ کو کشمیری سبز چائے کی یاد ستانے لگی۔دادی جان خود بیمار تھیں۔گھر کا کام کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔کار خانے جانے سے پہلے ابوجا ن گھر کا کچھ کام کر دیتے اور باقی کام دادی جان دن بھر میں کرتیں۔انھیں معلوم تھا کہ عبداللہ کو سبز چائے بہت پسند ہے ۔وہ ہر روز ایک مرتبہ اپنے پوتے کے لئے سبز چائے بناتیں۔

(جاری ہے)


عبداللہ مزے دار سبز چائے چسکیاں لے لے کر پیتا اور ہر گھونٹ پر”واہ واہ‘کرتا جاتا۔
باورچی خانے میں الماری میں چار کپ دکھائی دیتے تھے۔ہر کپ پر ایک ایک تصویر تھی۔تین کپ تو ہر روز استعمال ہوتے تھے۔بس ایک کپ الماری ہی میں رکھا رہتا۔وہ کپ عبداللہ کی امی جان کا تھا۔ عبداللہ جب بھی باورچی خانے میں آتا اس کی نظر کپ پر پڑتی تو بے اختیار سے امی جان کی یاد آجاتی۔

کیا خوب صورت دن تھے۔جب موسم بہار میں پہاڑیوں پر رنگ برنگے پھول کھلتے تو عبداللہ امی جان کی اُنگلی پکڑے ان پھولوں کو دیکھنے ضرور جاتا۔پھول تو اس بار بھی کھلے تھے،مگر اس بار امی جان نہیں تھیں۔اب کی بار اس کی انگلی دادی جان نے پکڑی تھی۔ایک رنگ برنگے پھول کو دیکھتے ہوئے اچانک اس نے سوال کیا:”کیا ہم ایسے پھول گھر میں اُگاسکتے ہیں؟“
”ہاں ،میرے بیٹے!ایسا کیا تو جا سکتاہے۔
“دادی جان نے محبت بھرے انداز میں جواب دیا۔عبداللہ نے گھر میں پھول اُگانے کے لئے اپنے دوست دانیال کے ابو کی مدد لی۔دانیال کے ابو کی پودوں کی نرسری تھی۔زمین کی تیاری سے لے کر پھولوں کے ننھے ننھے پودے اُگانے تک ایک تجربہ کار مالی نے عبداللہ کی رہنمائی کی۔پودوں کی حفاظت عبداللہ کے ساتھ ساتھ دادی جان نے بھی اپنے ذمے لے لی تھی۔اب تو ہر روز عبداللہ پودوں کو پانی دیتا۔
ہر پودے کو غور سے دیکھتا۔ننھے ننھے پتوں پر اوس کے قطرے جب سورج کی روشنی سے چمکتے تو بہت بھلے دکھائی دیتے۔عبداللہ کی جب بھی آنکھ کھلتی،وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کھول کر پودوں پر نگاہ ڈالتا۔
وقت کے ساتھ ساتھ پودے بڑھتے چلے گئے۔اس دن تو عبداللہ کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔جب دو تین پودوں پر کونپلیں پھوٹ پڑیں تھیں۔دادی جان نے اسے بتایا کہ اب ان کونپلوں سے پھول نکلیں گے۔
پیارے پیارے،خوب صورت پھول۔عبداللہ کو اس روز کا شدت سے انتظار تھاجب پھولوں کو ان کے آنگن میں کھلنا تھا۔اگلے دن عبداللہ نے سکول جاتے ہوئے اور پھر واپس آتے ہی کونپلوں کو غور سے دیکھا۔
وہ چھٹی کا دن تھا۔عبداللہ نے بستر سے نکل کر کھڑکی کے پٹ کھولتے تو ایک پودے پر کھلے ہوئے پھول پر اس کی نظر پڑی تو وہ خوشی سے بھاگتا ہوا کمرے سے باہر آکر چلانے لگا:”دادی جان،ابو جان،دادی جان،!ابو جان!“
دادی جان تو تھوڑی دیر کے بعد باہر آئیں۔
پہلے ابو جان اس کے سامنے سوالیہ نشان بنے کھڑے تھے۔”ابو جان!وہ دیکھیے کتنا خوب صورت پھول کھلا ہے،آپ خود دیکھ لیجیے۔“ابو جان اور دادی جان نے عبداللہ کو ایک عرصے کے بعد اتنا خوش دیکھا تھا۔امی جان کے دنیا سے جانے کے بعد وہ مر جھا سا گیا تھا۔دادی جان نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا:”میرے آنگن کا پھول اسی طرح کھلا رہے۔“
عبداللہ کے گھر میں بنے چھوٹے سے باغیچے میں پھول کھلتے ہی چلے گئے۔
وہ ان رنگ برنگے پھولوں کے بارے میں اپنے دوستوں کو بتاتے ہوئے بہت فخر محسوس کرتا۔اپنے ماموں زاد بھائی شارق کو ان پھولوں کی تصویریں واٹس ایپ کیں تو اس نے لکھا کہ وہ جلد آکر ان پھولوں کو دیکھے گا۔آنگن کے ساتھ ساتھ پہاڑیوں کے پھولوں نے بھی اپنی بہار د کھانا شروع کر دی تھی۔
بہارکے موسم میں وادی کشمیر پھولوں کی خوشبو سے مہک اٹھتی ہے۔
عبداللہ نے اس موسم بہار میں شارق کے ساتھ پہاڑیوں پر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔شارق نے اتوار کو اس کے پاس آنے کے لئے کہا۔سب تیاریاں مکمل تھیں۔عبداللہ نے ایک بیگ میں کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھ لی تھیں۔شارق کے آنے سے ایک دن پہلے پورے علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا۔دادی جان نے اسے بتایا کہ ان حالات میں کوئی اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتا۔
ابو جان بھی کار خانے نہ جا سکے۔سکول بھی بند تھا۔کچھ دن تو موبائل فون کی سہولت حاصل تھی،پھر وہ سہولت بھی ختم ہو گئی۔سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے۔
عبداللہ اپنے آنگن میں کھلے پھول دیکھ کر تو خوش تھا ہی اس کی خواہش تھی کہ وہ پھولوں کو دیکھنے کے لئے پہاڑیوں پر بھی جائے۔اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پھول اس کا انتظار کررہے ہیں۔
جب بھی کرفیو میں ذرا نرمی ہوتی وہ دادی جان کی اُنگلی پکڑ کر ضد کرتا:”چلیں پہاڑیوں پر پھول دیکھنے کے لئے۔“
دادی جان اس سے کہتیں:”پہاڑ دور ہیں،کرفیو پھر لگ جائے گا،واپسی نہیں ہو سکے گی۔“
”ہم واپس نہیں آئیں گے،پھولوں کے پاس ہی رہیں گے،چلیے دادی جان!“
عبداللہ کی معصومیت پر دادی جان کو پیار آجاتا وہ آخر اپنے پیارے پوتے کو کس طرح سمجھاتیں۔
عبداللہ اپنی ضد پر اَڑا رہا۔ضد کرتے کرتے وہ رو دیا تھا۔دادی جان اور ابو جان اس کے سرخ وسپید رخساروں پر پھیلتے آنسو دیکھ کر تڑ پ کر رہ گئے تھے۔دادی جان نے اُسے گود میں بیٹھا لیا تھا۔عبداللہ کا جسم گرم تھا۔ شام تک بخار کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی،اس لئے گھر میں جو دوا تھی ،وہ عبداللہ کو پلادی گئی۔
جب بخار کی شدت زیادہ ہوئی تو دادی جان نے ٹھنڈی پانی میں تولیہ ڈبو کر اس کی پیشانی پر رکھ دیا۔یہ عمل وہ رات بھر دہراتی رہیں۔صبح تک بخار خاصا کم ہو گیا تھا۔ سورج نے کھڑکی سے جھانک کر اپنی آمد کی خبر دی تو عبداللہ نے آنکھیں کھول دیں۔کھڑکی کا پٹ کھلتے ہی اپنے آنگن میں کھلے پھولوں پر اس کی نظر پڑی تو اس کی آنکھوں کے سامنے پہاڑیوں پر کھلے پھول لہلہانے لگے۔

”دادی جان!وہ پہاڑیوں کے خوب صورت پھول․․․․․“
##ابھی باہر کر فیو ہے ،ہم وہاں نہیں جا سکیں گے۔“دادی جان نے اس کی بات درمیان سے اُچک لی تھی۔
”کرفیو کب ختم ہو گا؟“عبداللہ نے پوچھا۔
”معلوم نہیں،یہ کر فیو کب ختم ہو گا۔“
”پھول مجھ سے ناراض تو نہیں ہوں گے۔وہ میرا انتظار تو کررہے ہوں گے؟“
عبداللہ کی معصوم باتوں پر صدقے واری جاتے ہوئے دادی جان بولیں:”پھول تم سے ناراض نہیں ہوں گے۔
انھیں معلوم ہے کہ تم ان کے پاس کیوں نہیں آئے۔ناشتا کرکے دوا کھالو،وہ دن ضرور آئے گا جب ہم پھولوں کی وادی میں جائیں گے۔“
”دادی جان!وہ دن کب آئے گا؟“عبداللہ نے اپنے آنگن میں بہار دکھاتے پھولوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”وہ دن بہت جلد آئے گا۔“دادی جان نے جواب دیا۔
عبداللہ کو اس دن کا انتظار ہے جب وہ وادی میں پھولوں سے ملنے جائے گا۔وہ دن خدا جانے کب آئے گا!

Browse More Moral Stories