Qasoor Waar Kon - Article No. 1249

Qasoor Waar Kon

قصور وار کون؟ - تحریر نمبر 1249

جیسے ہی تھا نے کاعملہ بیرونی دروازے کی طرف بڑھا ،احمد تیزی سے مال خانے کی طرف لپکا ۔اس نے گندھی ہوئی مٹی کا ڈھیلا جیب سے نکالا اور مال خانے کے دروازے کے تالے کی چابی والے سوراخ پررکھ کر ہتھیلی سے دبایا ،پھر اسے اُٹھا کردیکھا تو مٹی پر چابی کے سوراخ کی شبیہہ اُبھرآئی تھی ۔

بدھ 12 دسمبر 2018

جاوید اقبال
جیسے ہی تھا نے کاعملہ بیرونی دروازے کی طرف بڑھا ،احمد تیزی سے مال خانے کی طرف لپکا ۔اس نے گندھی ہوئی مٹی کا ڈھیلا جیب سے نکالا اور مال خانے کے دروازے کے تالے کی چابی والے سوراخ پررکھ کر ہتھیلی سے دبایا ،پھر اسے اُٹھا کردیکھا تو مٹی پر چابی کے سوراخ کی شبیہہ اُبھرآئی تھی ۔احمد علی نے مٹی کا ڈھیلا احتیا ط سے دوبارہ جیب میں رکھ لیا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔


احمد علی کو پولیس میں نوکری کرتے بیس سال ہو گئے تھے ۔اس کے چار بچے تھے ،جس میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ۔بڑا بیٹابی اے کرکے نوکری کی تلاش میں تھا۔بڑی بیٹی بھی تعلیم مکمل کر چکی تھی۔اب اس کی شادی کی فکر اسے کھائے جارہے تھی۔احمد علی کی ڈیوٹی صبح سے شام تھانے کے اندرہی ہوتی تھی۔

(جاری ہے)

یوں اوپر کی کمائی کا کوئی امکان بھی نہیں تھا۔منہگائی کے دور میں اس کی تنخواہ مہینا ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی اور پھر اُدھار کا سلسلہ چل پڑتا۔


بڑی بیٹی کی بات کہیں چل رہی تھی ۔لڑکی والے جہیز کی لمبی فہرست دے گئے تھے ۔یہاں روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے ،لڑکے والوں کی فرما یشیں کیسے پوری ہوتیں ۔جوان بیٹے سے اُمید تھی کہ باپ کا سہارا بنے گا ،مگر وہ نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔سارا دن وہ گھر سے غائب رہتا ،رات گئے آتا ،دو لقمے کھاکے سوجاتا ،صبح ہوتے ہی پھر گھر سے نکل جاتا۔

باپ نوکری کا پوچھتا تو کہتا:” ابا جی! رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری کہاں ملتی ہے اور میں یہ دونوں چیزیں کہاں سے لاؤں ؟“
آج صبح تھانے کے عملے نے منشیات کے ایک اڈے پر چھاپامارا تھا ۔وہاں سے بھاری مقدار میں منشیات پکڑی گئی تھی ۔جب مال مسروقہ مال خانے میں رکھا جارہا تھا تو احمد علی نے سوچا ،یہ لاکھوں کا مال ہے ،اگر میں ایک یادو تھیلیاں غائب کرلوں تو کسی کو کیا پتا چلے گا۔
میں انھیں کسی منشیات فروش کو بیچ دوں گا۔مجھے اتنی رقم مل جائے گی کی بیٹے کی نوکری کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
معاشی بوجھ تلے دبا احمد علی یہ بھول ہی گیا کہ اس کا منصب گناہ کے اس کار وبار کو روکنا ہے ،اس مکر وہ کار بار کے پھیلاؤ کا حصہ بننا اس کی وردی کی توہین ہے ۔اس نے اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر سہلادیا کہ میں بس ایک بار ہی ایسا کروں گا۔
اب مسئلہ مال خانے کی چابی کا تھا ۔
چابی حوالدار کے پاس رہتی تھی ۔احمد علی نے سوچا،مجھے متبادل چابی بنوانی چاہیے۔چناںچہ آج دو پہر کو وہ بچوں کے کھیلنے والی چکنی مٹی خرید لایا تھا۔اس نے مٹی کوگوندھ کر گوالا سا بنالیا تھا۔پھر موقع پاتے ہی اس نے تالے میں چابی کے خلا کا سانچا مٹی پہ اُتار لیا تھا۔
احمد علی چھٹی کے بعد سیدھا چابی بنانے والے کے پاس گیا اور اس سے چابی بنوائی۔
وہ چابی جیب میں ڈالے اپنے گھر کی طرف چل دیا۔جب وہ اپنے کی گلی میں داخل ہوا تو اسے اندھیری گلی میں دو سائے کھڑے نظر آئے ۔اسے دیکھتے ہی ایک سایہ ایک دم بھاگا اور گلی کے دوسرے ٹکڑپہ غائب ہو گیا۔پھر اس کی نظر دوسرے سائے پرپڑی ۔یہ اس کا بیٹا فیصل تھا۔
”فیصل ! تم ․․․․․․تم یہاں کیا کررہے ہو ؟“اس نے اپنے بیٹے سے پوچھا۔
بیٹے نے جوب دینے کے بجائے کوئی چیز اپنے پیچھے چھپانی چاہی ۔
احمد علی نے دیکھ لیا اور ڈپٹ کر کہا :”کیا ہے تمھارے پاس ،کیا چھپارہے ہو؟“
پھر اس نے آگے بڑھ کر بیٹے کے ہاتھ میں پکڑی چیز چھین لی ۔اس کا بیٹا جلدی سے گھر میں گھس گیا۔احمد علی نے موبائل کی روشنی میں اس چیز پر نظر ڈالی ،پھر اس نے اپنا ہاتھ یوں جھٹکا ،جیسے اس کے ہاتھ پہ بچھونے ڈنگ مار دیا ہو ۔
”نشے کی پڑیا ۔“اس کے منھ سے نکلا۔
تو فیصل نشہ کرنے لگا ہے ،اس لیے وہ دن بدن کم زور ہورہا تھا اور اس کا سامنا کرنے سے کترانے لگا تھا۔
اس نے سوچا،میں اپنی اولاد کی خوش حالی کے لیے جو زہر قوم کے بچوں کی رگوں میں اُتار نے والاتھا ،یہ اسی بیمار سوچ کی سزا ہے کہ آج نشے کا زہر میرے اپنے بیٹے کے خون میں شامل ہوکر اس کی رگوں میں دوڑرہا ہے ۔
ایک دم سے جیسے اس کی آنکھوں کے آگے چھایا اندھیر اچھٹ گیا۔
اس نے جیب سے ڈپلی کیٹ چابی نکالی اور اسے کھلے میں ہول میں پھینک دیا اور ایک عزم سے اپنے گھر داخل ہو گیا اور خوف سے کانپتے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر گلوگیر آوازمیں بولا:”بیٹے ! قصور وار تم نہیں ،قصور وار میں ہوں ۔میں غلط راستے پہ چلتے ہوئے یہ بھی بھول گیا کہ اولاد کو دولت سے زیادہ اچھی تربیت کی ضرورت ہے ۔میں عہد کرتا ہوں کہ میرے بیٹے! تمھیں زندگی کی طرف واپس لاؤں گا اور قوم کے بچوں میں زہر یلانشہ پھیلانے والے انسانیت دشمن لوگوں کے خلاف جہاد کروں گااور اس کام میں تم میرے بازوبنوگے ۔بولو میر ا ساتھ دو گے نا؟“
فیصل نے سراُٹھا کر باپ کی طرف دیکھا اور ہاں کہتے ہوئے باپ کے گلے لگ گیا۔

Browse More Moral Stories