Rah E Haq - Article No. 2052
راہِ حق (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2052
سچ ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور انسان اپنے عمل سے
بدھ 1 ستمبر 2021
ریاض احمد جسٹس
ہر کام کروانے کے لئے زور زبردستی کی ضرورت نہیں ہے۔میرے بادشاہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں کسی کو بھی بغیر جرم کئے جو مرضی سزا دے دوں۔اصل حکومت تو اللہ تعالیٰ کی ہے پھر میں کون ہوتا ہوں اس کے حکم کے بغیر کسی کو مجرم ٹھہرانے والا۔میں نے بھی یوم حشر والے دن اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے۔کیونکہ یہ حکومت مجھے اللہ تعالیٰ نے امانت کے طور پر دی ہے اور میں نے اس کا جواب بھی دینا ہے۔ یقینا اس کام کے لئے کوئی اور بھی حل ہو گا۔
ایک دن تاجر اپنے دوستوں میں بیٹھ کر مزے مزے کے کھانے کھا رہا تھا اور غلام اپنے آقا کی خدمت میں مصروف تھا۔تاجر نے جب غلام کے چہرے پر نظر دہرائی تو وہ بہت پریشان لگ رہا تھا۔جب تاجر کے دوست چلے گئے تو تاجر نے غلام کو نہایت پیار اور محبت سے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ تمہاری آنکھوں میں آنسو!اس سے پہلے تو میں نے تمہیں اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا۔
غلام نے جواب دیا میرے آقا آپ تو اپنے دوستوں میں بیٹھ کر مزے مزے کے کھانے کھاتے ہیں اور ڈھیروں باتیں کرتے ہیں۔اور ایک میں ہوں جو اپنے ماں باپ،بہن بھائیوں سے سینکڑوں میل دور ہوں اور اپنی زندگی کے دن گن گن کر گزار رہا ہوں۔تاجر غلام کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتا تھا۔کیونکہ اس نے غلام کو پیسے دے کر نہیں خریدا تھا بلکہ اس کے کسی دوست نے اسے تحفہ کے طور پر غلام دیا تھا۔پھر تاجر نے غلام سے سوال کیا کہ تم اپنی غلامی کی زندگی کب سے گزار رہے ہو؟آقا سے مخاطب ہو کر کہنے لگا”ایک دن میں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل تھا اور جنگل میں ہرن پکڑنے کی غرض سے چلا گیا۔اس دن سخت گرمی تھی۔ایک پیاسا ہرن پانی کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔میں نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر اس کے پیچھے اپنا گھوڑا دوڑانا شروع کر دیا۔یوں میں نے اپنے تمام تیر ہرن پکڑنے میں استعمال کر دیئے۔ہرن بچ بچا کر دور نکل گیا لیکن میں اس بات سے بے خبر تھا کہ جہاں میں پہنچ چکا ہوں وہ بستی وہ جاگیر میرے وطن کی نہیں ہے۔شام کے سائے پھیلنے لگے تھے سورج مکمل طور پر غروب ہو چکا تھا۔دور یا نزدیک سے کوئی بھی چیز نمایاں نظر نہیں آرہی تھی۔پھر چند بدو لوگ میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے رسیوں سے جکڑ لیا۔چند روز انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھا اور اس کے بعد انہوں نے کسی کے آگے فروخت کر دیا۔اس طرح نا جانے میں کتنے ہاتھوں میں بکنے کے بعد آپ کے دوست کی ملکیت بن گیا۔پھر اس نے مجھے بطور تحفہ آپ کے حوالے کر دیا۔یہ تھی میری کہانی۔
تاجر نیک دل اور سخی تھا۔اس نے غلام کی کہانی سننے کے بعد کہا”میں نے تمہیں آزاد کیا،میں نے تمہیں اللہ کی رضا کے لئے آزاد کیا“۔غلام نے آزادی حاصل کرنے کے بعد کہا۔جب میں اللہ کی یاد سے غافل تھا تو غلامی میرا مقدر بن گئی اور جب میں نے اللہ کا ذکر کثرت سے کیا تو اللہ پاک نے میری رہائی کا خود ہی انتظام کر دیا۔تاجر نے اپنے آزاد کئے ہوئے غلام سے کہا کہ سچ کہا تم نے میں بھی اب تک اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل تھا جو انسانوں کی تجارت کو وسیلہ رزق سمجھ بیٹھا تھا۔اب جب تم نے مجھے اللہ کے خلاف کا احساس دلا ہی دیا ہے تو میں اللہ کی رضا کے لئے اپنے تمام غلام آزاد کرتا ہوں۔غلام کی بات پر تاجر پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے اللہ کی رضا کے لئے اپنے تمام غلام آزاد کر دیئے۔ اب ہر وقت تاجر اللہ کی یاد میں رہنے لگا تھا۔وہ دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر آخرت کی فکر میں لگ گیا تھا۔اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہ کا شاہی محل بھی بن چکا تھا۔بادشاہ نے اپنے محل کی پرانی عمارت کو مرمت کروانے کے بعد مدرسہ کے لئے وقف کر دیا تھا۔یوں ملک میں تعلیم کا نظام عام ہو گیا۔
سچ ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور انسان اپنے عمل سے
ہر کام کروانے کے لئے زور زبردستی کی ضرورت نہیں ہے۔میرے بادشاہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں کسی کو بھی بغیر جرم کئے جو مرضی سزا دے دوں۔اصل حکومت تو اللہ تعالیٰ کی ہے پھر میں کون ہوتا ہوں اس کے حکم کے بغیر کسی کو مجرم ٹھہرانے والا۔میں نے بھی یوم حشر والے دن اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے۔کیونکہ یہ حکومت مجھے اللہ تعالیٰ نے امانت کے طور پر دی ہے اور میں نے اس کا جواب بھی دینا ہے۔ یقینا اس کام کے لئے کوئی اور بھی حل ہو گا۔
ایک دن تاجر اپنے دوستوں میں بیٹھ کر مزے مزے کے کھانے کھا رہا تھا اور غلام اپنے آقا کی خدمت میں مصروف تھا۔تاجر نے جب غلام کے چہرے پر نظر دہرائی تو وہ بہت پریشان لگ رہا تھا۔جب تاجر کے دوست چلے گئے تو تاجر نے غلام کو نہایت پیار اور محبت سے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ تمہاری آنکھوں میں آنسو!اس سے پہلے تو میں نے تمہیں اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا۔
(جاری ہے)
تاجر نیک دل اور سخی تھا۔اس نے غلام کی کہانی سننے کے بعد کہا”میں نے تمہیں آزاد کیا،میں نے تمہیں اللہ کی رضا کے لئے آزاد کیا“۔غلام نے آزادی حاصل کرنے کے بعد کہا۔جب میں اللہ کی یاد سے غافل تھا تو غلامی میرا مقدر بن گئی اور جب میں نے اللہ کا ذکر کثرت سے کیا تو اللہ پاک نے میری رہائی کا خود ہی انتظام کر دیا۔تاجر نے اپنے آزاد کئے ہوئے غلام سے کہا کہ سچ کہا تم نے میں بھی اب تک اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل تھا جو انسانوں کی تجارت کو وسیلہ رزق سمجھ بیٹھا تھا۔اب جب تم نے مجھے اللہ کے خلاف کا احساس دلا ہی دیا ہے تو میں اللہ کی رضا کے لئے اپنے تمام غلام آزاد کرتا ہوں۔غلام کی بات پر تاجر پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے اللہ کی رضا کے لئے اپنے تمام غلام آزاد کر دیئے۔ اب ہر وقت تاجر اللہ کی یاد میں رہنے لگا تھا۔وہ دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر آخرت کی فکر میں لگ گیا تھا۔اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہ کا شاہی محل بھی بن چکا تھا۔بادشاہ نے اپنے محل کی پرانی عمارت کو مرمت کروانے کے بعد مدرسہ کے لئے وقف کر دیا تھا۔یوں ملک میں تعلیم کا نظام عام ہو گیا۔
سچ ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور انسان اپنے عمل سے
Browse More Moral Stories
گھر کی باتیں
Ghar Ki Baatain
حق بات کا انعام
Haq Baat Ka Inaam
ہمدردی اور رحم دلی
Humdardi Aur Rehamdili
علی کا خواب پورا ہوا
Ali Ka Khawab Poora Hua
دو پیسے کی برکت
Do Paisay Ki Barket
جھیل کی سیر
Jheel Ki Sair
Urdu Jokes
شیر ہے شیر
Sher hai Sher
مریض
Mareez
دو افیمی رات کو
do afeemi raat ko
صحیح عمر
sahih Umar
نائی کی دکان
Nai ki Dukan
سکول
School
Urdu Paheliyan
دھرا پڑا ہے سرخ پیالہ
dhara para hai surkh piala
منہ ہے چھوٹا بڑی ہے بات
munh hai chota badi hai baat
اک گھر میں دو رشتے دار
ek ghar me do rishtedar
جب بھی دسترخوان بچھایا
jab bhi dastarkhwan bichaya
کتیا بھونک کہ جو کہتی ہے
kutiya bhounk ke jo kehti hai
اک جتھے کا وہ سردار
aik juthy ka wo sardar
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos