Raju Lakar Haara - Article No. 1522

Raju Lakar Haara

راجو لکڑ ہارا۔۔۔تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1522

راجو کو ڈبّو پر بہت ترس آیا- اس نے لکڑیوں کا گٹھا ایک طرف رکھا اور اسے اٹھا کر گھر لے آیا- اس کی ماں ایک رحمدل عورت تھی- ڈبّو کی حالت دیکھ کر وہ بھی پریشان ہوگئی

پیر 23 ستمبر 2019

راجو ایک لکڑ ہارا تھا- اس کی عمر اٹھارہ انیس سال کی تھی-وہ اپنی ماں کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتا تھا- وہ روز جنگل سے لکڑیاں کاٹتا اور انھیں فروخت کر کے ان سے ملنے والی رقم اپنی ماں کو لا کر دے دیتا- ایک روز راجو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر واپس گھر آ رہا تھا تو اس نے جھاڑیوں میں ایک کتادیکھا- اپنی بڑی جسامت اور شکل و صورت سے وہ کسی اچھی نسل کا کتا لگ رہا تھا- اس کے گلے میں ایک قیمتی پٹہ تھا اوراس پٹے پر اس کا نام بھی درج تھا "ڈبو"- راجو نے اندازہ لگایاکہ وہ کسی امیر آدمی کا کتا ہے- ڈبّو زخموں سے چور تھا- اس کے جسم سے جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا اور وہ زمین پر پڑا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا- راجو اس کے نزدیک آیا تووہ اسے رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگا- راجو کو ڈبّو پر بہت ترس آیا- اس نے لکڑیوں کا گٹھا ایک طرف رکھا اور اسے اٹھا کر گھر لے آیا- اس کی ماں ایک رحمدل عورت تھی- ڈبّو کی حالت دیکھ کر وہ بھی پریشان ہوگئی- اس نے جلدی سے پانی گرم کر کے اس کے زخموں کودھویا- گھر میں موجود جڑی بوٹیوں سے بنی ہوئی دوائی اس کے زخموں پر لگائی- ڈبّو کی حالت ذرا سنبھلی تو اس نے دودھ میں روٹی بھگو کر اسے کھلائی اور نرم نرم سوکھی گھاس کا بستربنا کر اسے اس میں لٹا دیا- جب ان تمام کاموں سے فرصت مل گئی تو راجو دوبارہ جنگل گیا- وہاں سے اپنی لکڑیوں کا گٹھا اٹھا کر انھیں بازار میں بیچنے نکل گیا- اس دوران وہ مسلسل زخمی ڈبّو کے متعلق سوچے جا رہا تھا- اس کے جسم پر لگے زخم کسی تیز دھار ہتھیار کا نتیجہ معلوم دیتے تھے- وہ حیران تھا کہ اس بے زبان پر کس نے اتنا ظلم کیا ہوگا- اس کی لکڑیاں اچھے داموں فروخت ہوگئی تھیں- وہ خوش خوش گھر لوٹا- گھر آیا تو اس نے دیکھا ڈبّو مزے سے گھر کے ایک کونے میں گھاس کے بستر میں لیٹا سو رہا ہے- اس کی ماں مسلسل اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھی-چند روز ہی گزرے تھے کہ ڈبّو بھلا چنگا ہوگیا- اس کے زخم پوری طرح بھر گئے تھے اور وہ بھاگنے دوڑنے کے قابل ہوگیاتھا- اتنے کم عرصے میں ہی وہ راجو اور اس کی ماں سے بہت مانوس ہوگیا تھا- راجو کو دیکھ کر تو اس کی حالت ہی تبدیل ہوجاتی- وہ اپنی دم ہلاتے ہوئے اس کے آگے پیچھے گھومنے لگتا- ایک روز راجو جب جنگل جانے کے لیے گھر سے نکلا تو ڈبّو بھی اس کے ساتھ ہولیا- راجو نے سوچا کہ اسے بھی اپنے ساتھ جنگل لے جائے گا- وہ خوش ہوجائے گا- دونوں جنگل پہنچے-ابھی راجو نے اپنا کام بھی شروع نہیں کیا تھا کہ ڈبّو ان جھاڑیوں کے نزدیک پہنچ گیا جہاں سے چند روز پہلے وہ راجوکو زخمی حالت میں ملا تھا- وہاں پہنچ کر وہ زور زور سے بھونکنے لگا- پھر نہایت تیزی سے بھاگتا ہوا راجو کے پاس آیااور اس کی قمیض کا دامن دانتوں میں دبا کر اسے گھسیٹنے لگا-راجو سمجھ گیا کہ وہ اسے جھاڑیوں کے پاس لے جا کر کوئی چیز دکھانا چاہتا ہے- وہ اس کے ساتھ جھاڑیوں کے نزدیک آیا- ڈبّو جھاڑیوں میں گھس گیا- تھوڑی دیر بعد باہر آیا تو اس کے منہ میں قیمتی موتیوں کا ایک ہار دبا ہوا تھا- اس ہار کو اس نے راجو کے قریب زمین پر گرا دیا- راجو تو حیرت سے گنگ ہوکر رہ گیا- وہ ہار نہایت قیمتی لگ رہا تھا کیوں کہ اس میں ننھے ننھے جگمگاتے ہیرے جڑے ہوئے تھے- راجو کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ ہار ان جھاڑیوں میں کیوں موجود تھا- اس نے ہار کو اٹھا کر اپنے کپڑوں میں چھپا لیا- پھر اس نے ڈبّوکو دیکھا، وہ ابھی تک بے چین نظر آرہا تھا اور سامنے کی طرف پہاڑوں کو دیکھے جا رہا تھا- اس نے ایک مرتبہ پھر راجو کی قمیض منہ میں دبا لی اور اسے کھینچنے لگا- راجو اس کی اس حرکت سے سمجھ گیا کہ وہ اس کو کہیں لے جانا چاہتا ہے-اس نے کہا- "ٹھیک ہے- میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں-"ڈبّو اسے اپنے ساتھ لیے لیے پہاڑوں کی جانب چل پڑا- وہ زمین پر کچھ سونگھتا بھی جا رہا تھا- پہاڑوں کے نزدیک پہنچے تووہاں اس کے دامن میں دور تک بڑے بڑے درخت نظر آئے- ڈبّواسے لے کر ان درختوں کے جھنڈ میں داخل ہوگیا-ابھی وہ لوگ کچھ ہی دور گئے ہونگے کہ راجو کو ایک بڑی سی پختہ عمارت نظر آئی- وہ عمارت باہر سے نظر نہیں آتی تھی کیونکہ اسے درختوں نے گھیر رکھا تھا- عمارت دیکھ کر راجوکو بہت حیرت ہوئی، وہ ڈبّو کے ساتھ جھاڑیوں میں دبک کر بیٹھ گیا اور عمارت کے آس پاس کا جائزہ لینے لگا- اس عمارت کے باہر اسے چند لوگ نظر آئے- ان کی شکلیں کافی خطرناک تھیں اور ان کی میانوں میں تلواریں نظر آ رہی تھیں- ان لوگوں کو دیکھ کر ڈبّو ایک مرتبہ پھر بے چین ہوگیا اور آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگا- راجو نے اسے بڑی مشکل سے قابو میں کیا اور دھیرے سے بولا- "یہ لوگ تو مجھے ڈاکو لگتے ہیں- اگر انہوں نے ہمیں دیکھ لیا تو ہمیں مار ڈالیں گے- ہمیں جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے-" یہ کہہ کر اس نے ڈبّوکے گلے میں پڑے ہوئے پٹے کو پکڑا اور واپسی کے لیے مڑگیا- وہاں سے واپس آ کر اس نے اپنا کام شروع کردیا- دوپہر ڈھلے تک اس نے بہت سی لکڑیاں کاٹ لی تھیں- آج اس نے جلدی واپسی کا سوچا تھا، اس لیے اس نے لکڑیوں کو ایک جگہ باندھااور انھیں اٹھا کر چل پڑا- بازار میں آ کر اس نے جلدی جلدی ان لکڑیوں کو فروخت کیا اور پھر گھر آگیا-گھر آ کر اس نے اپنی ماں کو قیمتی ہار ملنے کا واقع سنایا- اس نے ماں کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ڈبّو کے ساتھ وہ ان خوفناک ڈاکوؤں کے ٹھکانے تک بھی پہنچ گیا تھا کیوں کہ یہ بات سن کراس کی ماں خوفزدہ ہوجاتی- اس کی ماں نے ہار اس سے لے کراحتیاط سے صندوق میں رکھ دیا اور بولی- "اگر کبھی اس کامالک مل گیا تو ہم یہ ہار اسے واپس کردیں گے-" جب رات ہوگئی تو راجو چپکے سے اٹھا- اس کی ماں گہری نیندسو رہی تھی- اس نے ڈبّو کو ساتھ لیا اور خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا- باہر نکلا تو ہر طرف سنّاٹا تھا- سب لوگ مزے سے اپنے اپنے گھروں میں بستروں میں دبکے خواب وخرگوش کے مزے لے رہے تھے- اس نے نیچے بیٹھ کرڈبّو سے سے کہا- "ہم لوگ ایک خطرناک مہم پر جا رہے ہیں- تم وہاں پربالکل شور مت کرنا ورنہ ہم دونوں ہی مارے جائیں گے-"یہ بات سن کر ڈبّو تیزی سے اپنی دم ہلانے لگا جیسے راجو کامطلب سمجھ گیا ہو- وہ لوگ تیز تیز چلتے ہو? جلدی سے اس جگہ پہنچ گئے جہاں پر وہ پراسرار عمارت تھی- وہ گہرے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی، البتہ اس کی کھڑکیوں سے روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی- راجو نے خوب غور سے آس پاس دیکھا، اسے کوئی پہریدار نظر نہیں آیا- وہ دبے قدموں آگے بڑھا اور اس عمارت کے مرکزی دروازے پر پہنچ گیا- ابھی وہ دروازے کو دھکا بھی نہیں دے پایا تھا کہ اس کے کانوں میں ایک گرجدار آواز آئی-"کون ہے؟" راجو کے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی- اس نے کمرسے بندھا خنجر نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا اور اندازہ کرنے لگاکہ آواز کہاں سے آئی تھی- عمارت کے قریب ہی ایک پانی کاتالاب تھا- اس میں کوئی شخص موجود تھا- اس شخص نے راجوکو دیکھ لیا تھا اور اب تالاب سے نکل کر اس کی طرف آنا چاہتاتھا- ڈبّو نے جو یہ دیکھا تو وہ غراتا ہوا اس کی طرف بڑھا- اتنابڑا اور خوفناک کتا دیکھ کر وہ شخص خوفزدہ ہوگیا اور دوبارہ تالاب میں کود گیا- ڈبّو اس کے پاس جا کر کنارے پر ہی کھڑاہوگیا- وہ جیسے ہی باہر نکلنے کی کوشش کرتا، ڈبّو خوفناک اور دل ہلا دینے والی غراہٹوں کے ساتھ اس پر جھپٹنے کو تیارہوجاتا- یہ دیکھ کر راجو کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا- وہ سمجھ گیا تھا کہ ڈبّو اس کوتالاب سے باہر نہیں آنے دے گا- اند عمارت میں دیواروں پر مشعلیں روشن تھیں اور وہاں بڑے بڑے کمرے تھے- راجو آگے بڑھا- ایک جگہ اسے سیڑھیاں نیچے جاتی نظر آئیں- وہ سیڑھیاں اترنے لگا اور ایک تہہ خانہ میں پہنچ گیا- تہہ خانے میں بڑی بڑی بوریاں تھیں جو سونے چاندی اور اشرفیوں سے بھری ہوئی تھیں- ایک کونے میں اسے مضبوط رسیوں میں جکڑی ایک لڑکی نظر آئی جو راجو کوحیرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی-راجو جلدی سے اس کے نزدیک آیا- اپنے خنجر سے اس کی رسیاں کاٹ کر اسے آزاد کیا اور بولا- "اچھی لڑکی- تم کون ہواور تمہیں یہاں کس نے قید کیا ہے؟" "میں اس شہر کے مشہور سوداگر شہریار کی بیٹی حُسن بانوہوں- چند روز پہلے میں اپنے ابّا کے ساتھ دوسرے شہر سے آرہی تھی کہ رات کے وقت ان ڈاکوؤں نے ہمارے قافلے پر دھاوابول دیا اور لوٹ مار شروع کردی- میرے گلے میں ہیرے جواہرات کا ایک قیمتی ہار تھا- میں نے اسے اتار کر جھاڑیوں میں چھپا دیا تاکہ وہ اسے نہ لے سکیں- ہمارا سارا اسباب اپنے قبضے میں لے کر انہوں نے مجھے بھی پکڑ لیا اور اپنے ساتھ یہاں لے آئے- میرے وفادار ڈبّو نے بڑی بہادری سے ان کا مقابلہ کیا مگر ان ظالموں نے اسے خنجروں کے وار کر کر کے ادھ موا کردیا- جانے اب وہ کہاں ہوگا، پتہ نہیں زندہ بھی ہے یا مرگیا- ڈاکوؤں کا سردار مجھ سے شادی کرنے کے لیے اصرار کررہا ہے- میرے انکار پر اس نے غصے میں آ کر مجھے اس تہہ خانے میں قید کردیا ہے- مگر نوجوان تم اس جگہ تک کیسے پہنچے؟""میرا نام راجو ہے- میں ایک لکڑ ہارا ہوں- یہاں تک مجھے تمہارا ڈبّو ہی لے کر آیا ہے- اسے میں نے جھاڑیوں میں زخمی حالت میں دیکھا تھا اور اسے اپنے گھر لے آیا تھا- میری ماں نے اس کے زخموں پر دوا لگا دی تھی اور اب وہ بالکل ٹھیک ہے- یہ ڈاکو اب کہاں ہیں؟"لڑکی یہ سن کر بہت خوش ہی کہ اس کا وفادار ڈبّو زندہ ہے-اس نے کہا- "ڈاکو ہر روز رات کو لوٹ مار کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں اور صبح ہونے سے پہلے واپس آجاتے ہیں- ان کاایک ساتھی یہاں کی نگرانی کے لیے موجود رہتا ہے- اب جلدی سے یہاں سے نکلنے کا سوچو، ایسا نہ ہو کہ وہ آجائے-""اس کی فکر مت کرو- تمہارا ڈبّو اسے تالاب میں سے نکلنے ہی نہیں دے رہا- میرا خیال ہے کہ یہاں پر ایک آدھ گھوڑا توضرور موجود ہوگا- ہمیں یہاں سے نکل کر کوتوال کو اطلاع دیناپڑے گی تاکہ وہ اپنے سپاہیوں کی مدد سے ان ظالم ڈاکوؤں کوگرفتار کرلے-" وہ دونوں تہہ خانے سے باہر آئے- عمارت کی پچھلی طرف ایک اصطبل تھا جس میں ایک گھوڑا بندھا مل گیا- راجو نے جلدی سے اس پر زین کسی اور حُسن بانو کو اس پر بیٹھا کر گھوڑے کو ایڑ لگا دی- گھوڑا تازہ دم تھا اس لیے ہوا سے باتیں کرنے لگا- حُسن بانو کے بتائے ہو? راستے پر چلتا ہوا وہ جلد ہی اس کے گھر پہنچ گیا- شہریار سوداگر اور اس کی بیوی نے جو اپنی بیٹی زندہ سلامت دیکھی تو ان کا خوشی سے برا حال ہوگیا-انہوں نے حُسن بانو کو گلے سے لگا لیا اور راجو کا شکریہ اداکیا- حُسن بانو نے جلدی جلدی انھیں پوری کہانی سنا دی-راجو نے کہا- "جناب- ہمیں دیر نہیں کرنا چائیے- کوتوال اورسپاہیوں کو لے کر فورا ڈاکوؤں کے اڈے پر پہنچنا چاہیے تاکہ انھیں گرفتار کیا جا سکے-" کوتوال جو تھا وہ شہریار سوداگر کا دوست تھا- شہریار سوداگراسی وقت راجو کو لے کر کوتوال کے گھر پہنچا اور اسے پوراواقعہ سنایا- ان ڈاکوؤں نے ہر طرف لوٹ مار مچا رکھی تھی اور تمام لوگ ان سے تنگ تھے- کوتوال بھی چاہتا تھا کہ انھیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دے مگر وہ پکڑ میں ہی نہیں آرہے تھے- شہریار سوداگر کی کہانی سن کر اس نے بہت سارے سپاہیوں کو تیار کیا اور راجو کے ساتھ ڈاکوؤں کے ٹھکانے پرپہنچ گیا- ڈبّو نے ابھی تک ڈاکوؤں کے ساتھی کو تالاب سے نہیں نکلنے دیا تھا، وہ جیسے ہی باہر نکلتا، وہ اس پر غرا کر جھپٹ پڑتا اورڈاکوؤں کا ساتھی مارے ڈر کے دوبارہ پانی میں کود جاتا- راجوانھیں لے کر پہلے تالاب پر ہی پہنچا تھا- سپاہیوں کو دیکھ کرڈاکوؤں کے ساتھی نے پانی میں ڈبکی لگا کر ان سے بچنا چاہا،مگر کب تک، جلد ہی اسے سانس لینے کے لیے اوپر آنا پڑا-ایک سپاہی نے کمان پر تیر چڑھا کر اس کا نشانہ لے کر کہا-"اگر زندگی عزیز ہے تو باہر آجاؤ ورنہ تیروں سے چھلنی کردوں گا-" ڈاکوؤں کا ساتھی خوف سے لرزتا ہوا باہر نکلا اور اسے سپاہیوں نے گرفتار کر لیا- کوتوال نے اپنے سپاہیوں کو ادھر ادھر چھپادیا اور ڈاکوؤں کی واپسی کا انتظار کرنے لگا- صبح ہونے والی تھی- زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ان کے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں آنے لگیں- سب ہوشیار ہو گئے- جلد ہی ڈاکووہاں پہنچ گئے- ان کے سردار نے قہقہہ لگا کر کہا- "آج توہمارے ہاتھ بہت سا مال لگا ہے- میں بہت خوش ہوں- ہماری دولت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے-"اس کے ساتھی گھوڑوں پر لدے لوٹ مار کے سامان کے تھیلے اتارنے میں مصروف تھے کہ کوتوال کا اشارہ پاتے ہی تمام سپاہی تلواریں ہاتھ میں لے کر ان پر ٹوٹ پڑے اور جلد ہی انھیں قابو کرکے ان کی مشقیں کس دیں- سارے ڈاکو زمین پر بندھے پڑے تھا اور خوف بھری نظروں سے کوتوال اور سپاہیوں کودیکھ رہے تھے- "تم لوگوں کو اب معصوم لوگوں پر ظلم و ستم کرنے کا بدلہ ملے گا- قاضی صاحب تمہیں کڑی سزائیں دیں گے- تمھاری وجہ سے مخلوق خدا بہت مشکل میں تھی-" کوتوال نے نہایت غصے سے کہا- اگر نوجوان راجو ہماری مدد نہ کرتا تو تم لوگ یوں ہی ظلم و ستم کا بازار گرم کر کے رکھتے-"اس کے بعد ان کی واپسی ہوگئی- شہریار سوداگر راجو کا بہت احسان مند تھا اور اس نے اس کی بہت خاطر مدارات کی- اگلے روز راجو نے جھاڑیوں سے ملنے والا ہار بھی شہریار سوداگرکے حوالے کردیا - بادشاہ کو بھی اس واقعہ کا علم ہوگیا تھا- اس نے راجو کو اس کارنامے پر ہزاروں اشرفیاں انعام میں دیں کیوں کہ اس کی وجہ سے خوفناک ڈاکو گرفتار ہوئے تھے- کوتوال نے بھی اس کا بہت شکریہ ادا کیا-شہریارسوداگر تو راجو سے بہت ہی خوش تھا- اس کی ہمت اوربہادری کی وجہ سے اس کی بیٹی اسے واپس ملی تھی- ایک روزوہ اس کا شکریہ ادا کرنے اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ اس کے گھر بھی آیا- ڈبّو بھی ان لوگوں کے ساتھ تھا- راجو کی ماں انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی- وہ اس بات پر بھی پھولے نہیں سمارہی تھی کہ اس کے بیٹے نے اتنی بہادری کا کام سر انجام دیاہے جس کی سب تعریف کر رہے ہیں- سوداگر راجو کی شرافت اور ایمانداری سے بھی بہت متاثر تھاکیوں کہ اتنی غربت کے باوجود راجو نے اس کی بیٹی کا ہیرے جواہرات کا قیمتی ہار بھی اسے واپس کردیا تھا- اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ حُسن بانو کی شادی ایماندار اور بہادر راجو سے ہی کرے گا-چند دنوں بعد اس نے اپنی بیٹی کی شادی راجو سے کردی -بادشاہ نے انعام میں جو اشرفیاں راجو کو دی تھیں، ان سے اس نے شہر میں ایک بڑا سا گھر خرید لیا اور خود بھی تجارت کرنے لگا- اب اس کے دن پھر گئے تھے اور وہ اپنی ماں اورحُسن بانو کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگا- (ختم شد)

Browse More Moral Stories