Roone Wala Darakht - Article No. 1628
رونے والا درخت - تحریر نمبر 1628
یہ درخت بھی چرواہے کی طرح پانی پر جھکا ہوا تھا۔جیسے وہ کسی کی تلاش میں پانی میں جھانک رہا ہے ۔
جمعرات 9 جنوری 2020
ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔ایک جل پری سمندر کے کنارے ایک غار میں رہتی تھی۔شام کے وقت جب مچھیرے اپنی کشتیوں میں بیٹھ کر مچھلیاں پکڑنے آتے،تو جل پری کشتی کے ساتھ ساتھ تیرا کرتی اور اُن کی باتیں سنا کرتی تھی۔مچھیرے مزے مزے سے اپنے خوب صورت گاؤں ،ہرے بھرے کھیتوں اور رنگ برنگ کے پھولوں کا ذکر چھیڑتے اور یہ جل پڑی بڑے شوق سے ان کی باتیں سنتی اور حیران ہوتی۔
آخر اس کے دل میں یہ سب خوب صورت چیزیں دیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ایک دن جل پری نے اپنے دل میں اس دریا میں تیرنے کا ارادہ کیا،جوان مچھیروں کے گاؤں کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا سمندر میں گرتا تھا۔ایک رات جب چاند نے سمندر کو اپنی کرنوں کانورانی لباس پہنا دیا،تو جل پری اُس دریا کی طرف چل کھڑی ہوئی۔دریا کا میٹھا پانی اسے بہت عجیب معلوم ہوا۔
(جاری ہے)
جب ستارے چھٹک گئے۔صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔آسمان پر مشرق کی طرف سے ایک زردسی روشنی نمودار ہوئی ،تو جل پری اپنے دل میں ڈری کہ کہیں مجھے کوئی دیکھ نہ لے۔اس خیال کے آتے ہی اس نے اپنا رخ بدل دیا،اور نہایت تیزی سے ہاتھ اور دم مارتی ہوئی اپنے گھر کی طرف لوٹنے لگی۔
عین اس موقع پر ایک نوجوان چرواہا اپنی بھیڑوں کو پانی پلانے کے لئے دریا کی طرف چلا آرہا تھا۔اس کی نظر جل پری کے چاندی جیسے جسم پر پڑ گئی۔اس نے جل پری کو آواز دی۔جل پری نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔وہ اس بلا کی حسین تھی کہ اسے دیکھ کر چرواہے کو اپنے آپ کی کچھ سُدھ بُدھ نہ رہی۔وہ حیرت زدہ جوں کا توں کھڑا رہا،اور اس کے منہ سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔
جل پری نے چرواہے پر نظر پڑتے ہی زور سے ایک چیخ ماری اور پانی میں غوطہ لگا دیا۔پھر پانی کے نیچے ہی نیچے بڑی تیزی سے سمندر کی طرف تیرنے لگی۔
چرواہا بھی دریا کے کنارے کنارے دور تک چلتا گیا۔لیکن اسے جل پری کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔آخر مایوس ہو کر وہ واپس اسی جگہ لوٹ آیا،جہاں دونوں کی آنکھیں چار ہوئی تھیں۔کنارے پر گھنٹوں کے بل بیٹھ گیا اور دریا کی لہروں کی طرف بڑے غور سے دیکھنے لگا۔مگر جل پری نظر نہ آئی۔
سارا دن چرواہا اس اُمید میں کہ شاید میں ایک دفعہ پھر اس جل پری کی پیاری پیاری صورت دیکھ لوں،وہیں بیٹھا رہا۔لیکن جل پری نظر نہ آئی۔
دوسرا دن گزر گیا،پھر تیسرا دن بھی گزر گیا۔مگر جل پری کا کچھ پتہ نہ ملا۔
آخر چرواہے نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہمیشہ کے لئے وہیں دریا کے کنارے بستر جما دیا۔اب تو چرواہا ہر وقت گھٹنوں کے بل بیٹھا رہتا اور ٹکٹکی لگا کر پانی کی طرف بڑے غور سے دیکھتا رہتا۔لیکن جل پری دوبارہ نظر نہ آئی۔
اُدھر جل پری کو اپنے غار میں صحیح سلامت پہنچ کر پھر کبھی انسان اور اس کی چیزوں کو دیکھنے کی جرأت نہ ہوئی اور اس نے دوبارہ سمندر سے نکل کر دریا کا رخ کبھی نہیں کیا۔کچھ عرصے کے بعد چرواہے نے بھوک پیاس اور غم سے وہیں اپنی جان دے دی۔چرواہے کے دوست جب اسے تلاش کرتے کرتے دریا پرپہنچے تو چرواہے کی لاش کنارے پر پڑی تھی۔لاش اس قابل نہ تھی کہ اسے شہر لے جا کر دفن کیا جاتا۔چنانچہ اس کے سب دوستوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے یہیں دریا کے کنارے پر ہی دفن کر دیا جائے۔دوسرے سال اس کی قبر سے ایک ننھی منی کو نپل پھوٹی اور جب کئی سال گزر گئے تو وہ کونپل بڑھتے بڑھتے ایک بہت بڑا اور گھنا درخت بن گیا۔
خدا کی شان!یہ درخت بھی چرواہے کی طرح پانی پر جھکا ہوا تھا۔جیسے وہ کسی کی تلاش میں پانی میں جھانک رہا ہے ۔اور جب شام کی ہوا اس کے پتوں میں سے گزرتی تو ایسی آواز پیدا ہوتی جیسے کوئی آہیں بھر رہا ہو۔لوگوں میں یہ درخت اب تک”رونے والا درخت“کے نام سے مشہور ہے۔
Browse More Moral Stories
شکریہ دادا ابو
Shukriya Dada Abbu
پنکی رومی اور رمضان
Pinki Roomi Or Ramzan
عید کے جوڑے
EID K Jore
انوکھا کارنامہ
Anokha Karnama
سوہا شہزادی
Soha Shehzadi
سچا خزانہ
Sacha Khazana
Urdu Jokes
ہوائی جہاز
Hawai Jahaz
شوہر
shohar
جلسے میں کونسلر
jalsay mein councillor
تھانے میں
thanay main
ریل میں سفر
rail mein safar
دو دوست
Do dost
Urdu Paheliyan
چیز میں ہے اک بالکل بے جان
cheez me hai ek bilkul bejan
سورج کے جانے پر تین
sooraj ke jane per teen
اس کے ہوتے کچھ نہ کھایا
uske hote kuch na khaya
جب آیا چپکے سے آیا
jab aaye chupke se aaya
سب کو دیکھے اور پہچانے
sabko dekhe aur pehchane
کتیا بھونک کہ جو کہتی ہے
kutiya bhounk ke jo kehti hai