Safaid Billi - Pehla Hissa - Article No. 2124

Safaid Billi - Pehla Hissa

سفید بلی (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2124

بلی سانپ کو ماڑ ڈالنے میں کامیاب ہو گئی لیکن اس کی پوری سفید کھال سانپ کے خون سے تر اور سرخ ہو گئی تھی

ہفتہ 27 نومبر 2021

ڈاکٹر تحسین فراقی
پرانے زمانے میں ایک شخص تھا جو ایک حاکم کے ماتحت میرغضب (جلاد) کے فرائض سر انجام دیتا تھا۔جب کسی گنہگار کو کوڑے مارنے کا مرحلہ آتا تو اسے طلب کیا جاتا۔میرغضب کی ایک بیوی تھی،بڑی اچھی اور سلیقہ مند،اور وہ اسے اپنی جان کی طرح عزیز رکھتا تھا۔ابھی ان کا کوئی بچہ نہ تھا۔انہوں نے ایک خوبصورت سفید بلی پال رکھی تھی جو کئی برسوں سے ان کے ہاں رہتی تھی اور ایک معصوم بچے کی طرح ان کی خوشی اور شادمانی کا باعث تھی۔
وہ اپنی دلچسپ شرارتوں اور کرتبوں سے انہیں ہنساتی اور خوش رکھتی تھی اور گھر کے چوہوں کی خبر بھی لیتی رہتی تھی۔
کچھ عرصہ بعد ان کے ہاں ایک بچی کی ولادت ہوئی مگر میرغضب کی اہلیہ بچی کی ولادت کے دوران شدید بیمار ہو گئی۔

(جاری ہے)

طبیبوں کے علاج سے کچھ فائدہ نہ ہوا اور وہ چند روز بعد انتقال کر گئی اور نومولود بچی کو تنہا چھوڑ گئی۔بچی بڑی خوبصورت تھی اور میرغضب جو اپنی بیوی کی موت سے بڑا غمگین تھا،بیوی کی اس یادگار کو بہت عزیز رکھتا تھا۔

اسے اپنی بچی کی نگہداشت کا بڑا خیال رہتا تھا۔اس نے اس کے لئے ایک دایہ کا اہتمام کیا جو اسے دودھ پلاتی اور اس کی پرورش کرتی۔وہ خود اپنا زیادہ تر وقت گھر پر گزارتا اور گھر کے کاموں میں مشغول رہتا۔
سفید بلی بھی پہلے کی طرح اسی گھر کی باسی تھی۔اسے بچی کا رونا اور اس کی حرکتوں کا مشاہدہ اچھا لگتا تھا۔ ایک ماہ گزر گیا اور رفتہ رفتہ بلی اس بچی سے مانوس ہو گئی۔
وہ اپنی اُچھل کود اور شرارتوں سے بچی کو ہنساتی۔جب اس نے دیکھا کہ اس کی دلچسپ اور انوکھی حرکتوں سے اہل خانہ خوش ہوتے ہیں تو خود اسے بھی خوشی اور اطمینان ملتا۔اپنی ہوش مندی کے ساتھ جو عام طور پر حیوانوں میں پائی جاتی ہے،وہ روز بروز کوشش کرتی کہ اہل خانہ اسے اور عزیز رکھیں اور وہ ان کی مہربانیوں سے فیض یاب ہو۔
بلی دیکھتی تھی کہ بچی کی دایہ اس کے جھولے کو مسلسل حرکت دیتی ہے۔
وہ یہ سمجھ گئی کہ جھولا جھلانا اچھا کام ہے۔جب کبھی جھولا رک جاتا تو بلی خود بڑھ کر اسے حرکت دیتی اور بچی رونا بند کر دیتی۔وہ اسے بہلانے کے لئے اُچھلتی کودتی۔بچی کا والد بھی یہ منظر دیکھ کر خوش ہوتا۔
کچھ عرصے تک یہی معمول رہا حتیٰ کہ ایک روز بچی کی دایہ گھر سے باہر تھی اور بچی اپنے جھولے میں سو رہی تھی۔اس کا باپ جھولے کو حرکت دے رہا تھا کہ اچانک حاکم کے وہاں سے پیغام آیا کہ میرغضب فوراً حاضر ہو۔
میرغضب کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔اس نے فوراً لباس تبدیل کیا۔تازیانہ اور تلوار ہاتھ میں لی،بلی کو گہوارے کے پاس لایا اور اسے حرکت دی۔بلی سمجھ گئی کہ اب یہ فرض اسے بجا لانا ہے۔اس نے جھولے کو حرکت دینا شروع کی اور میرغضب گھر سے نکلا کہ اپنا فرض بجا لائے۔
بلی جھولا جھلا رہی تھی اور ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ ایک کالا ناگ کوئلوں کے ڈھیر کے اندر چھپا ہوا تھا،باہر نکلا اور وہاں سے کمرے میں گھس آیا۔
وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح جھولے میں داخل ہو جائے۔بلی کی سانپ سے پرانی دشمنی چلی آ رہی ہے۔جب بلی نے دیکھا کہ سانپ جھولے میں جانے کا ارادہ کیے ہوئے ہے۔اس نے جھولے کو چھوڑا اور سانپ سے لڑنے کے لئے آگے بڑھی۔
چونکہ بلی کو یہ بات معلوم تھی کہ سانپ جب بھی کسی بلی کو کاٹنا چاہتا ہے تو پہلے اس کی ناک کے اس حصے پر ڈنک مارتا ہے جس پر بال نہیں ہوتے چنانچہ اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنی ناک پر رکھا اور غراتی،اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتی،خُرخُر کی آواز نکالتی اور نیچے لہراتی سانپ سے لڑنے لگی۔
اب سانپ اور بلی کی جنگ کا آغاز ہو گیا۔
بلی کے پنجے مسلسل سانپ کے بدن پر پڑ کر اسے زخمی کر رہے تھے۔سانپ نے بھی بلی کے جسم کو اپنے شکنجے میں کس لیا تھا۔تھوڑی دیر کی لڑائی کے بعد بلی سانپ کو ماڑ ڈالنے میں کامیاب ہو گئی لیکن اس کی پوری سفید کھال سانپ کے خون سے تر اور سرخ ہو گئی تھی۔اس صورت حال میں بلی کی وحشت ناک آواز سے بچی بھی خوف زدہ ہو کر رونے لگی تھی۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories