Sam House Aakhri Qist - Article No. 1542

Sam House Aakhri Qist

سام ہاؤس آخری قسط - تحریر نمبر 1542

دونوں مکان سے باہر نکلے تو انھوں نے وہاں ایک عجیب منظر دیکھا۔آسمان پر زرد چاند چمک رہا تھا۔اونچے اونچے گھنے درخت ،بھوتوں کی طرح سر اُٹھائے کھڑے تھے اور پال ایک درخت کے تنے سے چمٹا تھا۔

پیر 14 اکتوبر 2019

جاوید بسام
پروفیسر نے کہا:”وہ احاطے میں نہ چلا گیا ہو!“
بلاقی نے سر ہلایا۔دونوں مکان سے باہر نکلے تو انھوں نے وہاں ایک عجیب منظر دیکھا۔آسمان پر زرد چاند چمک رہا تھا۔اونچے اونچے گھنے درخت ،بھوتوں کی طرح سر اُٹھائے کھڑے تھے اور پال ایک درخت کے تنے سے چمٹا تھا۔اس کی آنکھیں بند تھیں اور سر زور زور سے ہل رہا تھا۔

ایسا لگتا تھا،وہ کچھ پڑھ رہا ہے۔
پروفیسر نے سرگوشی کی:”میں نے پہلے بھی اسے ایسی حالت میں دیکھا ہے۔“
دونوں کچھ دیر تک وہاں کھڑے رہے ،پھر خاموشی سے اندر آگئے۔
تھوڑی دیر بعد آوازیں آہستہ آہستہ دھیمی ہونے لگیں،پھر اچانک بند ہو گئیں۔ہر طرف پُر اسرار سکوت چھا گیا۔ایسا لگتا تھاکہ ہوا چلنی بھی بند ہو گئی ہے۔

(جاری ہے)

کوئی آواز نہیں آرہی تھی،یہاں تک کہ جھینگروں کی سیٹیاں اور پنکھے کی چوں چوں بھی بند ہو گئی تھی۔


بلاقی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا،پھر وہ بولا:”یہ سب بہت حیرت انگیز ہے۔“
پروفیسر نے پوچھا:”کیا یہ تمھیں انسانی کارروائی لگتی ہے؟“
”کچھ کہہ نہیں سکتا۔کیا آپ نے مکان کا جائزہ لیا ہے؟“
”ہاں ،کئی بار۔“
”میں ان چیزوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔“
”مجھے کیا کرنا چاہیے؟“پروفیسر نے پریشانی سے پوچھا۔

”میرا خیال ہے،آپ فی الحال یہ گھر چھوڑ دیں۔“
پروفیسر صاحب سوچتے ہوئے گردن ہلانے لگے۔پھر دونوں سونے کے لیے لیٹ گئے۔بلاقی کو نیند نہیں آرہی تھی۔وہ تمام واقعات کا تجزیہ کررہا تھا۔پھر وہ اُٹھا اور دبے پاؤں راہداری میں نکل آیا۔اس کی تیز نظریں دیواروں کا جائزہ لے رہی تھیں،مگر سپاٹ دیواروں پر کوئی نشان نہیں تھا۔وہ پال کے کمرے کی طرف گیا۔
وہ بے خبر سورہا تھا۔
صبح پروفیسر نے بلاقی سے کہا:”میں نے سوچا ہے،کچھ دن کے لیے اپنے بھائی کے گھر چلا جاؤں۔“
بلاقی نے کہا:”اچھی بات ہے۔“
پروفیسر نے بلاقی کو کچھ رقم دینے کی کوشش کی،مگر اس نے انکا رکر دیا اور آگے بڑھ گیا۔وہ سوچ میں گم تھا۔کچھ دور چلنے کے بعد وہ رک گیا۔وہ شش وپنج میں مبتلا تھا۔وہ اس راز کو معلوم کرنا چاہتا تھا۔
آخر اس نے بگھی گھمالی ۔وہ ایک بار پھر سام ہاؤس کی طرف جارہا تھا۔شاید کوئی کام کی بات معلوم ہو جائے۔
دو دن بعد بلاقی پھر ہل ٹاؤن پہنچا تو رات ہو گئی تھی۔اس نے بگھی پہاڑ کے قریب روکی اور اوپر چڑھنے لگا۔آسمان پر چاند چمک رہا تھا،بلاقی احتیاط سے چل رہا تھا۔وہ اوپر پہنچا تو سام ہاؤس اندھیرے میں ڈوبا تھا۔صرف ایک کمرے میں روشنی نظر آرہی تھی۔
بلاقی رک کر سانس درست کرنے لگا۔اس کی نظریں گھر پر جمی تھیں۔اچانک اسے قدموں کی آہٹ سنائی دی اور ایک پہاڑی کے پیچھے سے تین آدمی نکلتے نظر آئے۔ان کے سروں پر ایک ایک پیٹی رکھی تھی۔بلاقی جھاڑیوں کی اوٹ میں ہو گیا۔وہ سام ہاؤس کی طرف بڑھ رہے تھے۔پھر فضا میں اُلو کی تیز آواز گونجی اور فوراً دروازہ کھل گیا۔تینوں اندر چلے گئے۔بلاقی نے معنی خیز انداز میں گردن ہلادی اور دبے قدموں اس طرف بڑھا۔
روشن کھڑکی کے نیچے پہنچ کر اس نے سن گن لینے کی کوشش کی،مگر کوئی آواز نہ آئی۔پھر اس کی نظر پائپ پر پڑی ۔اس نے آستینیں چڑھائیں اور اوپر چڑھنے لگا۔کچھ دیر بعد وہ چھت پر پہنچ گیا۔زینے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔وہ بغیر آواز پیدا کیے نیچے اُترا۔
ایک کمرے میں سے باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔بلاقی دیوار کے ساتھ چپک کر سننے لگا۔کوئی کہہ رہا تھا:”یہ اچھا ہوا ،پروفیسر گھر چھوڑ کر چلا گیا۔
اب ہم اپنا کام آسانی سے کر سکیں گے۔“
پھر کچھ کھسکانے کی آواز آئی۔بلاقی نے احتیاط سے اندر جھانکا۔پال فرش پر سے قالین ہٹا رہا تھا۔بلاقی کو تہ خانے کا راستہ نظر آیا۔ایک آدمی پیٹی اُٹھا کر نیچے اُتر گیا۔جب تینوں پیٹیاں نیچے پہنچ گئیں تو انھوں نے راستہ بند کر دیا۔ایک آدمی جوان کا سر غنہ لگتا تھا،بولا:”کتنی پیٹیاں ہو گئیں؟“
”تیس ۔
“اندر جانے والے نے جواب دیا۔
”چلو ،ٹھیک ہے۔ہمیں اب تیزی سے کام کرنا ہو گا۔پال ہمارے لیے کھانے کا بندوبست کرو۔“
پال نے سر ہلایا۔بلاقی دبے قدموں اس کمرے کی طرف بڑھ گیا،جس میں اسے بند کیا گیا تھا۔اس میں بجلی نہیں تھی۔
اسی دوران باہر سے ایسی آواز آنے لگی،جیسے کسی نے منھ میں کپڑا ٹھونس دیا ہے۔
بلاقی نے چپکے سے باہر جھانکا۔
پال فرش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کررہا تھا۔
”یہ کیا کہہ رہا ہے؟“ایک آدمی نے پوچھا۔
سر غنہ بولا:”یہ شاید زمین پر بنے نشانوں کی طرف ہماری توجہ دلارہا ہے۔“
پال زور سے ہاں ہاں میں سر ہلانے لگا۔
سر غنہ چلا یا:”اوہ ․․․․․اس کا مطلب ہے ،یہاں کوئی آیا ہے۔“
”ڈھونڈو․․․․․پورے گھر کی تلاشی لو۔
تم اوپر جاؤ۔تم احاطے میں دیکھو ۔“
طوطا بھی شورسن کربولنے لگا تھا۔
وہ ایک کمرے سے دوسر ے کمرے میں جارہے تھے۔جب وہ اندھیرے کمرے کی طرف بڑھے توطوطا
بولا:”کتنی پیٹیاں ہوگئیں․․․․․․کتنی․․․․․․“
”میں کسی دن اس کی گردن مروڑدوں گا۔“سرغنہ غصے سے بولا۔
بلاقی کمرے کے ایک اندھیرے گوشے میں چھپا تھا۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔
پھر دونوں کمرے میں چلے آئے۔سرغنے کے ہاتھ میں پستول تھا،وہ بولا:”بتی جلاؤ۔“
پال نے اشاروں میں سمجھایا کہ اس کمرے میں بتی نہیں ہے۔
”جلدی ٹارچ لاؤ۔“
پال ٹارچ لے آیا۔بلاقی سوچ رہا تھا،آج تو بُرے پھنسے۔
بلاقی پر تیز روشنی پڑی۔
سرغنہ چلایا:”کون ہو تم؟“
”میں ․․․․میں بلاقی ہوں۔
پروفیسر سے ملنے آیاتھا۔“بلاقی ہکلا کر بولا۔وہ خوف زدہ ہونے کی اداکاری کررہا تھا۔
تینوں غصے سے بلاقی کو گھور رہے تھے۔
”اب اس کا کیا کریں؟“ایک آدمی نے پوچھا۔
سرغنہ بولا:”اسے یہیں بند کردو۔بعد میں سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے۔“
و ہ باہر نکلے اور دروازہ بند کر دیا۔
بلاقی چلایا:”میں نے کچھ نہیں کیا ۔مجھے چھوڑ دو۔

ساری رات بلاقی کمرے میں بند رہا۔دروازہ بہت مضبوط تھا اور کھڑکی میں لوہے کی سلاخیں لگی تھیں۔صبح پال ناشتا لے کر آیا۔ایک آدمی پستول سنبھالے اس کے ساتھ تھا۔
بلاقی بولا:”پال !میں پروفیسر کا مہمان ہوں۔مجھے کیوں بند کر دیاہے؟“
انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔کچھ دیر بعدبیرونی دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔کچھ لوگ باہر چلے گئے۔
بلاقی کان لگائے کھڑا تھا۔خاموشی چھائی ہوئی تھی۔صرف کچن سے برتن دھونے کی آوازیں آرہی تھیں۔بلاقی سوچ میں ڈوبا تھا۔آخر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔وہ چلایا:”پال !خدا رادروازہ کھولو۔میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔“
راہداری میں قدموں کی آواز آئی۔
”ہائے ہائے․․․․․میں کیا کروں۔بہت درد ہورہا ہے۔“بلاقی چلائے جارہا تھا۔
پھر وہ زور سے کراہا اور زمین پر گر گیا۔اس کے منھ سے آہیں نکل رہی تھیں۔پال تیزی سے دروازے تک آیا۔بلاقی نے ایک خوف ناک چیخ ماری اور خاموش ہو گیا۔
آخر دروازہ کھلا اور پال نے اندر جھانکا۔بلاقی بے سدھ پڑا تھا۔وہ اندر آکر بلاقی پر جھکا۔بلاقی پہلے سے تیار تھا،اس نے لیٹے لیٹے ٹانگ چلائی ،پال نیچے گرگیا۔وہ بجلی کی تیزی سے اُٹھا اور اس پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔
پھر دو چار زور دار ہاتھ جمائے اور تیزی سے اُٹھ کر باہر نکلا اور دروازہ بند کر دیا۔
’واہ واہ․․․․شاباش۔“طوطا بولا۔
بلاقی مسکراتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔
بلاقی جب پولیس کے ساتھ وہاں آیا،اسی وقت وہ تینوں بھی واپس پہنچے ۔پولیس کو دیکھ کر انھوں بھاگنے کی کوشش کی،مگر پکڑے گئے۔کچھ دیر بعد سب تھانے میں بیٹھے تھے۔پروفیسر سام کو بھی بلالیا گیا تھا۔
جلد ہی تینوں نے اپنا جرم قبول کر لیا۔
ان کاکہنا تھا:”ہم اسمگلنگ کا کام کرتے ہیں،قریبی سرحد سے اسلحہ اسمگل کرتے اور یہاں جمع کرکے پھر آگے لے جاتے ہیں۔ہم نے پال کو رقم کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔“
”تم نے وہ آلات گھر میں کب لگائے؟“پروفیسر صاحب نے پوچھا۔
”کیسے آلات ؟“
”جن سے آوازیں اور چیخیں سنائی دیتی تھیں۔

”ہم نے کوئی آلات نہیں لگائے۔ہم تو خاموشی سے اپنا کام کرتے تھے۔“
سب ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔
”تمھارا مطلب ہے ،تم نے روح کا ناٹک نہیں کیا؟“
”نہیں۔“
”تم نے کبھی وہاں روح کو محسوس کیا؟“
”ہاں کئی بار ،لیکن ہمارا خیال تھا کہ آپ کو ان چیزوں سے دل چسپی ہے۔آپ نے خود ہی لوگوں کو گھر سے دوررکھنے کے لیے یہ ناٹک کررکھا ہے۔

سب سوچ میں پڑگئے۔
پھر پولیس کے ماہرین کی ایک ٹیم دو دن تک گھر کا جائزہ لیتی رہی،مگر انھیں کوئی آلات نہیں ملے۔اسی دوران بلاقی ،پروفیسر کے ساتھ ہی رہ رہا تھا۔وہ تجسس کا شکار تھا اور اس راز کو معلوم کرنا چاہتا تھا۔آخر ماہرین کی ٹیم نے فیصلہ دیا کہ گھرمیں کسی بھی قسم کے آلات نہیں ہیں۔ تب بلا قی کو یقین آیا کہ واقعی کسی آسیب نے گھر پر قبضہ جمالیا ہے،ورنہ پہلے وہ اسے مجروموں کی کارستانی سمجھ رہا تھا۔

اسی دن پروفیسر سام اور بلاقی نے گھر چھوڑ دیا۔پروفیسر اپنے بھائی کے گھر چلے گئے اور بلاقی اپنے قصبے کی طرف چل دیا۔کچھ دنوں بعد بلاقی کو پولیس ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ایک خط اور کچھ رقم موصول ہوئی۔خط میں اس کی خدمات کا شکریہ ادا کیا گیا تھا اور رقم بطور انعام کے تھی۔بلاقی کندھے اُچکا کر رہ گیا تھا۔
سام ہاؤس جو عجیب وغریب واقعات کی وجہ سے اب ویران ہے۔اس واقعے کے دو سال بعد پروفیسرسام اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

Browse More Moral Stories