Scheme Zer Vazero - Article No. 1657

Scheme Zer Vazero

اسکیم زیر وزیرو - تحریر نمبر 1657

”ماسٹر کریمو خاں نے کہا تھا کہ مقصود فیل ہونے والوں میں اول نمبر آیا ہے۔اس کے ہر مضمون میں زیرو زیرو نمبر آئے ہیں۔“

جمعہ 7 فروری 2020

معراج
اللہ تعالیٰ ماسٹر کریمو کو مرنے کے بعد کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،بلکہ جنت کا داروغہ ہی بنا ڈالے۔ان کے انصاف کا طریقہ بھی سب سے نرالا ہے۔وہ باقاعدہ عدالت لگاتے ہیں،جہاں مجرموں کو ان کے سامنے حاضر کیا جاتاہے۔کریمو خاں صاحب جج کے فرائض انجام دیتے ہیں اور مجرموں کو ان کے جرم کے مطابق سزا سناتے ہیں۔مثلاً معمولی مجرموں کو دو چار بیت مار کر چھوڑ دیتے ہیں۔
بعض کو سزائے قید سناتے ہیں۔یعنی مجرم کوچھٹی کے بعد بھی گھنٹہ دو گھنٹے سکول میں ٹھہرنا پڑتاہے۔بعض کو سزائے قید با مشقت دیتے ہیں،یعنی چھٹی کے بعد سکول میں ٹھہرنے کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی بھی کرنی پڑتی ہے۔سب سے بدترین سزا پھانسی ہوتی ہے۔پھانسی دینے کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ مجرم کی ٹانگوں میں رسی باندھ کر اسے اُلٹا لٹکایا جاتاہے۔

(جاری ہے)

دومنٹ کے بعد ہی اس کی حالت غیر ہونے لگتی ہے۔آنکھوں تلے اندھیرا چھا جاتاہے۔دل دھما دھم،دھما دھم دھڑکنے لگتاہے،لیکن کیا مجال جو ماسٹر کریمو خاں کے کانوں پر جوں رینگ جائے۔
اس خاکسار کو بھی پھانسی کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔یہ سب ہمارے جانی دشمن مقصودے عرف مقصود چودھری کی مہربانی سے ہوا۔
ایک دن میں سکول کے صحن میں سے گزر رہا تھا ۔
دو لڑکے بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور بولے:”ماسٹر کریمو خاں صاحب نے کہا ہے کہ چھٹی ہو گئی ہے۔گھنٹی بجا دو۔“
میں نے بے فکر ہو کر گھنٹی بجا دی۔اس کے ساتھ ہی لڑکوں کا ایک غول شور مچاتا ہوا نکلا۔اچانک زلزلہ سا آگیا۔میرا منہ چرخے کی طرح گھوم گیا اور میں لڑھکنیاں کھاتا ہوا دور جا گرا۔میں نے بہت مشکل سے سر گھما کر دیکھا ،یہ ماسٹر کریمو خاں تھے ،جنھوں نے ابھی چند سیکنڈ پہلے کوئی ڈیڑھ پاؤ کا چانٹا مجھے رسید کیا تھا۔

”تم نے گھنٹی کس کے حکم سے بجائی ہے؟“انھوں نے غصے سے پوچھا۔
”آپ کے حکم سے۔“میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔
انھوں نے ایک اور ڈیڑھ پاؤ کا چانٹا رسید کیا اور دھاڑے :”کیا بکتے ہو۔“
میری آنکھوں سے پردہ ساہٹ گیا ۔میں صاف طور سے جان گیا کہ میرے خلاف ساز ہو ئی ہے اور اس میں مقصود کا ہاتھ ہے۔
کریمو خاں چیخ کر بولے:”اب قطب مینار بنے ہوئے کیوں کھڑے ہو؟بکتے کیوں نہیں؟“
میں اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتا تھا،لیکن بد حواسی میں کچھ بھی تو نہ کہہ سکا۔

ماسٹر کریمو خاں کو مونچھیں غصے سے پھڑک رہی تھیں اور میرا دل دھڑ دھڑدھڑک رہا تھا۔
”اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔“کریمو خاں شاہانہ انداز میں بولے۔
جب مجھے اُجڈ قسم کے لڑکے کھینچتے ہوئے لے جارہے تھے تو روفی نے میرے کان میں کہا:”مجھے تمھارے بے قصور ہونے کا پورا یقین ہے۔ خبر دار!گھبرانا مت۔ہر مومن کی زندگی میں آزمائش کی گھڑی آتی ہے۔
“میری ہمت ایک دم بڑھ گئی اور میں یوں اکڑ اکڑ کر چلنے لگا کہ جیسے میری تاج پوشی ہونے والی ہے۔
نہ جانے میں نے کیا کچھ کہا،لیکن کریمو خاں نے میری بات سننے سے انکار کر دیا۔میں نے احتجاج کیا۔اس پر کریمو خاں اور بگڑے ،وہیں بیت مار مار کر میری چمڑی اُدھیڑ دی اور مجھے سولی پر لٹکانے کا حکم دے دیا گیا۔جب میں پھانسی سے اُتارا گیا تو بہت دیر تک ہوش وحواس درست نہ ہوئے۔
مقصود چپکے چپکے مسکراتا رہا۔میں جانتا تھا کہ یہ ساری گڑ بڑاسی نے کی ہے۔
روفی دانت پیس کر بولا:”اللہ دشمن کو بھی ایسا دشمن نصیب نہ کرے۔“
جب وہ گردن اکڑائے ہوئے ہمارے پاس سے گزرا تو انور موٹو نفرت سے بولا:”شکل بھوتوں کی،دماغ شیطانوں کا۔“
اسی شام میرے کمرے میں میٹنگ ہوئی ۔روفی نے کہا:”اگر اس شرارت کا بدلا نہ لیا تو روفی نام نہیں،بلکہ میرا نام پلٹ کر فیرو رکھ دینا۔

اچانک موٹو زور سے بولا:”بھئی واہ!کیا منصوبہ ذہن میں آیا ہے۔اس کا نام ہے،زیر وزیرو پلان۔“
اقبال عرف بھالو کھانس کر بولا:”بھئی ذرا سلیس اردو میں بولو۔“
موٹو بولا:”ہم اس کے ذہن میں یہ بیٹھا دیں کہ وہ بہت ہی لائق لڑکا ہے اور اسے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔وہ پڑھے بغیر ہی اول آجائے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا․․․․“
میں نے کہا:”وہ تو ویسے ہی پھسڈی ہے ۔
اس فضول اسکیم سے کیا فائدہ ۔“
روفی جلدی سے بولا:”جب ہم بولا کریں توٹو کا مت کرو۔سمجھے بدھو۔“
ان تینوں نے زور وشور سے اس پروگرام پر عمل شروع کردیا۔مقصودے کو کلاس کا مانیٹر بنوایا گیا۔کرکٹ ٹیم کا کپتان بھی اور نہ جانے کیاکیا۔ نتیجہ نکل آیا۔میں اپنی جماعت میں سوم آیا۔انور موٹو اور بھالو بھی پاس ہو گئے۔روفی رعایتی نمبروں سے پاس ہو گیا۔
ہمارا جانی دشمن مقصود فیل ہو گیا۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا:”مقصود فیل ہونے والوں میں اول نمبر پر ہے۔اس کے ہر مضمون میں زیرو زیرو نمبر آئے ہیں۔“
ہمیں اپنے پاس ہونے کی اتنی خوشی نہیں تھی جتنی مقصودے کے فیل ہونے کی۔روفی ہم سے بار بار کہتا:”اللہ کی قسم دل میں ٹھنڈک پڑ گئی۔“
پھر وہ مقصودے کے پاس پہنچا اور بہت راز داری سے بولا:”ابھی گھر مت جانا،بلکہ کسی پارک میں چھپ جاؤ۔
شام تک چودھری صاحب کا غصہ کم ہو جائے گا،بلکہ وہ تمھارے لئے اتنے فکر مند ہوں گے کہ سب کچھ بھول بھال جائیں گے۔“
موٹو نے مشورہ دیا:”تم پارک کی بارہ دری میں چھپ جاؤ ۔وہ سب سب محفوظ جگہ ہے۔“
اور اس بے وقوف نے ہماری بات پر پوری طرح عمل بھی کیا۔جب ہم چودھری صاحب کے مکان کے پاس سے گزررہے تھے تو وہ ہمیں دیکھ کر بولے:”کیوں میاں!نتیجہ نکل آیا ہے تمھارا؟“
روفی فخر سے بولا:”ہم سب پاس ہو گئے ہیں جی۔

”اور مقصود کا کیا رہا؟“چودھری صاحب نے پوچھا۔
روفی نے کہا:”ماسٹر کریمو خاں بتا رہے تھے کہ وہ سکول میں اول آیا ہے۔“
میں نے روفی کا ٹہوکا مارا۔وہ بگڑ کر بولا:”دیکھو جی،جب میں بولا کروں تم ٹوکا مت کرو۔“
چودھری صاحب خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔وہ پونچھوں پر تاؤ دے کر بولے:”تم گلزار حلوائی کے پاس سے گزرو تو اسے پانچ سیر لڈو کا کہہ دینا۔

میں نے روفی سے اس حمایت کی وجہ دریافت کی تو وہ بولا:”کل ہی کی تو بات ہے کہ اس نے تمھیں پھانسی دلوائی اور آج تم اس کی پٹائی کا موقع ہاتھ سے جانے دے رہے ہو۔“
موٹو سوچتے ہوئے بولا:”شاید حکیم افلا طون کا قول ہے یا کسی اور کاکہ دشمن کا کچو مر نکال دینا عین عقل مند ی ہے۔“
مقصودے کے اول آنے کی خبر پورے شہر میں بجلی کی طرح پھیل گئی۔
روفی نے دو روپے دے کر ڈاکیے کو تاکید کر دی تھی کہ ہر گھر میں گھنٹی بجا بجا کر مقصودے کی خبر بھی سناتا جائے۔ہم کوئی گھنٹے یا ڈیڑھ گھنٹے کے بعد چودھری صاحب کے گھر کے پاس سے گزرے ۔وہ دروازے پر مونڈھا بچھائے بیٹھے تھے۔روفی کو دیکھ کر چودھری صاحب نے کہا:”مقصود ابھی تک نہیں آیا۔“
روفی نے مسکین سی صورت بنا کر کہا:”جی وہ مارکے ڈر سے نہیں آرہا ہے اور باغ کی بارہ دری کے اندر چھپا ہوا ہے۔

چودھری صاحب نے حیران ہو کر پوچھا:”وہ کیوں بھلا؟“
روفی بولا:”ماسٹر کریمو خاں نے کہا تھا کہ مقصود فیل ہونے والوں میں اول نمبر آیا ہے۔اس کے ہر مضمون میں زیرو زیرو نمبر آئے ہیں۔“
چودھری صاحب کا منہ لٹک گیا۔ہم نے مقصودے کی تلاش میں چودھری صاحب کی پوری پوری مدد کی اور اس کو باغ کے اس کونے سے ڈھونڈنکالا،جہاں کچھ دیر پہلے روفی نے خود اسے چھپایا تھا۔

ادھر چودھری صاحب کے گھرمبارک دینے والوں کا تا نتا بندھ گیا۔چودھری صاحب ہر ایک سے کہتے کہتے تھک گئے کہ مقصود فیل ہو گیا ہے۔غضب تو یہ ہوا کہ ملا لاحول ولا بھی منہ میٹھا کرنے پہنچ گئے۔جب انھیں اصل بات معلوم ہوئی تو غصے سے بولے:”اجی لاحول ولا۔میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ ان شاء اللہ اس دفعہ بر خور دار فیل ہو گیا۔اف لا حول ولا۔“
ان کے جانے کے بعد چودھری صاحب برس پڑے اور مقصودے کی وہ پٹائی کی کہ وہ ہفتے بھر تک کمر سینکتا رہا۔

اس شام جب ہم روفی کے گھر پہنچے تو چچا شبراتی کو منتظر پایا۔ان کے تیوربتا رہے تھے کہ وہ سخت غصے کی حالت میں ہیں۔انھی ہماری شرارت کا علم ہو چکا تھا۔چچا شبراتی غصے میں دھاڑے :”یہ کیا حرکت کی تم نے ؟“
روفی ان کا جاہ وجلال دیکھ کر تھر تھر کانپنے لگا۔ان کی یہ عادت ہے کہ دو چار ہاتھ مار کر کہتے ہیں:”اب بول۔“
”چچا جان!میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں بے قصور ہوں۔

چچا جان نے جلال میں آکر ایک خوف ناک سی آواز نکالی اور اس زور سے ہاتھ گھمایا کہ اگر روفی کے پڑ جاتا تو وہ زمین میں دھنس کر رہ جاتا، لیکن میری گناہ گار آنکھوں نے دیکھا کہ چچا جان کا ہاتھ روفی کے سر سے گزر گیا اور وہ چک پھیری کھا کررہ گئے۔ادھر روفی نے ایک زور دار چیخ ماری اور میرے ہاتھوں میں جھول کر رہ گیا۔
ہم نے اس زور شور سے فریاد کی کہ درودیوار ہل گئے۔
چڑیاں درختوں سے اُڑگئیں۔مکان کے برآمد میں سے خواتین دوڑی ہوئی آئیں۔ چچا شبراتی گھبرا کر بھاگ نکلے۔
”ہائے مرنے والا بہت خوبیوں کا مالک تھا۔“انور موٹو چیخ چیخ کر مرثیہ پڑھنے لگا۔
روفی آنکھ کھول کر بولا:”اتنی زور سے مت روکہ مجھے ہنسی آجائے اور بھالو!تم مجھے گد گدی کیوں کررہے ہو؟یاد رکھو ہوش میں آکر سب سے پہلے تمھاری ٹھکائی کروں گا۔

موٹو تعجب سے بولا:”اوہو!تو تم ابھی زندہ ہو۔لعنت ہی ایسی زندگی پر۔تم جی کر کیا کروگے؟تم کو تو ڈھنگ سے مرنا تک نہیں آتا۔“
روفی نے پھر آنکھیں بند کرلیں۔خواتین ہمارے پاس آگئیں اور رونے پیٹنے میں شریک ہو گئیں تب میں نے آہستہ سے کہا:”شاید بے ہوش ہو گیا ہے۔“
”اسے جوتا سنگھاؤ۔“موٹو نے بسورتے ہوئے کہا۔
میں نے اسے ڈانٹا:”بے وقوف !مریض کو دودھ جلیبی کھلانی چاہیے۔

روفی کمزور رسی آواز میں بولا:”ہاں ہاں،مجھے دودھ جلیبی کھا کر ہی ہوش آئے گا۔“
روفی کی دادی جان نے دس کا نوٹ بھالو کو دیا اور اس کے لئے جلیبیاں منگوائی گئیں۔وہ راستے میں پاؤ بھر جلیبیاں تو ویسے ہی اُڑا گیا۔بد قسمتی سے چچا شبراتی بھی ادھر آنکلے۔دادی نے انھیں خوب ڈانٹا۔آخر انھیں جان بچا کر دوبارہ فرار ہونا پڑا۔
وہ دن اور آج کا دن چچا شبراتی جب بھی پٹائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پہلے اِدھر اُدھر دیکھ لیتے ہیں۔آج بھی انھیں شبہ ہے کہ تھپڑ نہیں لگا تھا اور روفی نے سب ڈراما کیا تھا،لیکن روفی کا اصرار کہ وہ پٹنے کے بعد بے ہوش ہوا تھا۔

Browse More Moral Stories