School Ka Pehla Din - Article No. 1142
اسکول میں پہلا دن
میری عمر تو جب آٹھ نو برس کی ہو گی لیکن اسکول میں وہ میرا پہلا دن تھا۔ پہلے تین درجوں کی کتابیں میں گھر پر ہی پڑھ چکا تھا اور اس دن پہلے درجے میں نہیں ، چوتھے درجے میں داخلے کے لیے تیاری تھی ۔ شاید اسی سبب کے گھر کے سب لوگ مجھے سکول بھجوانے کے لیے ضرورت سے زیادہ اہتمام کر رہے تھے۔
جمعرات جون

فیض احمد فیض:
میری عمر تو جب آٹھ نو برس کی ہو گی لیکن اسکول میں وہ میرا پہلا دن تھا۔ پہلے تین درجوں کی کتابیں میں گھر پر ہی پڑھ چکا تھا اور اس دن پہلے درجے میں نہیں ، چوتھے درجے میں داخلے کے لیے تیاری تھی ۔ شاید اسی سبب کے گھر کے سب لوگ مجھے سکول بھجوانے کے لیے ضرورت سے زیادہ اہتمام کر رہے تھے۔
(جاری ہے)
یہ سب کچھ مجھے آج بھی اس لیے یاد ہے کہ اس دن جو کچھ بھی اسکول میں میرے سا تھ گزری، اس میں زیادہ تر ہاتھ اسی لباس کا تھا۔تو خیر اس براتیوں کی سی وضع قطع میں ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔
ایک ملازم ہماری کتابیں اُٹھائے ساتھ ہوا، اور ہماری سواری اسلامیہ پرائمری سکول کی پرانی ایک منزلہ عمارت کے سامنے جا رکر کھڑی ہوئی۔ جسے ہی ہم اپنی فٹن سے نیچے اُترے، تو کچھ لڑکے جو اسکول کے باہر اِدھر اُدھر گھوم پھر رہے تھے، ہمیں دیکھتے ہی زور زور سے غل مچاتے ہوئے اسکول کے اند ر کی طرف بھاگے لڑکوں کا شور سن کر ایک دو ماسٹر صاحبان ہڑ بڑاکر باہر نکل آئے۔ یہاں پہلے ہی مارے خوف کے کلیجہ دھک دھک کر رہا تھا، اس شور اور ہنگامے کی وجہ سے اوسان اور بھی خطا ہو گئے۔ملازم کے پیچھے پیچھے بہت آہستہ اور مری ہوئی چال میں جب ہم نے اسکول کے اندر قدم رکھا توہر طرف سے بے شمار آنکھیں یوں گھورتی ہوئی نظر آئیں، جیسے کوئی چڑیا گھر کا جانور سکول میں آگھسا ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد چوتھے درجے کے ماسٹر صاحب مجھے کمرے میں ساتھ لے گئے اور کہا:جہاں جی چاہے بیٹھ جاوٴ۔
ہمارا شہر بھی غریب تھا اور یہ سکول بھی غریب، پڑھنے والے بھی غریب تھے،پڑھانے والے بھی غریب۔ کمرے میں مٹی کے فرش پر کٹا پھٹا سا ٹاٹ بچھا ہوا تھا، اور اس پر ویسے ہی کٹے پھٹے کپڑوں والے بہت سے لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔میں جب ان میں جا کر بیٹھا تو میرا جی چاہا کہ کوئی جن یا پری آئے اور چپکے سے میرے سب کپڑے لے جائے اور مجھے اپنے ساتھیوں کا سا پھٹا پرانا کرتا اور پاجامہ لا دے۔وہ سارا دن میں لڑکوں کے مختلف فقرے اور پھبتیاں سنتا رہا، اورمیرے ہم جماعت لڑکوں کی آنکھوں سے سارا دن طنز اور حقارت برستی رہی۔جب مجھے محسوس ہوا کہ زرق برق لباس اور ظاہری ٹھاٹھ باٹھ سے اپنے یا اپنے گھر والوں کے مال اور دولت کی نمائش کرنا بہت ہی گھٹیا اور مہمل بات ہے اور جب سے مجھے ان چیزوں سے نفرت ہو گئی۔ مجھے یہ بھی احساس ہو اکہ آدمی ٹھیک سے جبھی رہ سکتا ہے ، کہ اپنے ساتھیوں، ہم جولیوں اور ہم وطنوں سے مل جل کر، اور ان سابن کر رہے۔ دوسروں سے الگ اور بڑھیا نظر آنے کا چاوٴ نا پسندیدہ اور تکلیف دہ بات ہے.
مزید اخلاقی کہانیاں

تین منٹ
3 Minute

بچوں میں کارٹون کا کریز
Bachoon Main Cartoon Ka Craze

سات سال بعد
Saat Saal Baad

خزانے کی چوری۔۔تحریر:مختار احمد
Khazanay Ki Chori

محنت میں عظمت کی کہانی
Mehnat Main Azmat Ki Kahani

ننھا مجاہد
Nanna Mujahid

ایمانداری کا انعام
Imaandari Ka Inaam

آخری قیمت
Akhari Keemat

جوہوا اچھا ہوا
Jo Huwa Acha Huwa

معلومات
Malomat

نیک دل شہزادہ
Naik Dil Shehzada

حقیقی خوشی
Haqeeqi Khushi
Your Thoughts and Comments
مزید مضامین
-
چھوٹے مگر مچھ کی مسکراہٹ
Chotay Magarmach Ki Muskarahat
-
میں ہوں․․․مانو بلی
Main Hoon Mano Billi
-
شیر شاہ سوری ایک عطیم بادشاہ
Sher Shah Suri ek azeem badshah
-
فلاحی مملکت سبق آموز مثال
Falahi Mumlekat
-
چمکتا چاند ستارہ رہے
Chamakta Chand Sitara Rahe
-
کسان اور شیطان
Kisaan Or Shettan
-
درزی اور سپاہی
Darzi Aur Sipahi
-
سونے کی باٹ
Sonay Ki Baat
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2021, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.