Sehrai Thar - Article No. 1566

Sehrai Thar

صحرائے تھر - تحریر نمبر 1566

صحرائے تھر دنیا کا نواں بڑا گرم ترین صحرا ہے۔اس کا کل رقبہ100,000مربع میل(160,000مربع کلو میٹر)ہے۔

جمعرات 7 نومبر 2019

محمد فرحان اشرف
صحرائے تھر دنیا کا نواں بڑا گرم ترین صحرا ہے۔اس کا کل رقبہ100,000مربع میل(160,000مربع کلو میٹر)ہے۔صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرق اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔اس صحرا کی350کلو میٹر طویل سرحد بھارت سے ملتی ہے۔تھر میں مسلمان اور ہندورہائش پذیر ہیں۔پاکستانی تھر میں آباد غیر مسلموں کو لھی،بھیل میگواڑ،ہندوبنیے،جوگی آباد ہیں۔

جب کہ مسلمانوں میں راحماں،سمیجا،نوھڑی اور منگریا آباد ہیں۔بھارت کی ریاست راجھستان کی40فیصد آبادی بھارتی تھر میں رہائش پذیر ہے۔کہا جاتاہے کہ ہزاروں برس قبل تھرکا علاقہ سمندر کا حصہ تھا۔موسمی تبدیلیوں کے باعث سمندر پیچھے ہٹتا گیا اور بارش کی کمی اور دیگر اسباب نے مل کر اسے ایک بے آب وگیاہ صحرامیں بدل دیا۔

(جاری ہے)


اس صحرا میں تاریخی مساجد،مندر ،گرینائٹ کے پہاڑ،نمک کی جھیلیں اور زیر زمین کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔

نباتات اور حیوانات سے مزین یہ خطہ اپنی خوب صورتی میں منفرد ہے۔یہ صحرا ”عظیم ہندوستانی صحرا“بھی کہلاتاہے۔اسلام کوٹ کے نزدیک کوئلے کے بڑے ذخائر ہمیں تحقیق کی دعوت دے رہے ہیں۔کراچی سے کم وبیش چار سوکلو میٹرکی مسافت پر یہ صحرا ہے۔تھر پار کر دو لفظوں کا مجموعہ ہے ،تھر اور پارکر۔پاکستان بننے سے قبل تھر پار کر صوبہ سندھ کا سب سے بڑا ضلع تھا،جس کا دارلحکومت میر پور خاص تھا۔
جسے تقسیم کرکے چار اضلاع میرپور خاص ،سانگھڑ ،تھرپار کر اور عمر کوٹ بنادئیے گئے۔
تھر میں ننگر پار کر،مٹھی ،اسلام کوٹ ،چھاچھر و،کانٹیو،چیلہار ،کھینسر اور ڈیپلو کو نمایاں مقام حاصل ہے۔مٹھی اس کا ضلعی ہیڈ کواٹر ہے۔ماروی کے دیس میں16لاکھ سے زائد افراد بستے ہیں۔ مقامی آبادی جھونپڑیوں میں رہتی ہے جسے چونرا کہا جاتاہے ۔واضح رہے کہ تھر میں گول جھونپڑی کو چونرا اور کمرے یا بر آمدے کی شکل والی جھونپڑی کو لانڈھی کہا جاتاہے۔
تھر کے مسلمانوں اور ہندوؤں کی جھونپڑیاں عموماً مختلف ہوتی ہیں،مگر ایسا ضروری بھی نہیں ۔مسلمان اپنے چونرے کی چھت گنبد کی طرح گول بناتے ہیں جب کہ ہندو کے چونروں کی چھت پنسل کی نوک کی مانند ہوتی ہے۔یہ چونرا گندم کے بھوسے یاروئی ملے کیچڑ(گارے)سے تعمیر کیا جاتاہے۔
گول دیوارکے اوپر لکڑی سے بنا فریم رکھا جاتاہے۔جس میں صحرائی گھاس شامل ہوتی ہے اور اس کی شکل چھتری کی طرح ہوتی ہے۔
یہ طرز تعمیر افریقا میں موجود گول کمروں سے مماثلت رکھتا ہے۔اکثر گاؤں دس بارہ چونروں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔آبادی ایسے مقام پر ہوتی ہے جہاں دوریت کے بڑے ٹیلوں کے مابین پانی جمع ہو سکے جسے مقامی زبان میں ”بھٹ“کہا جاتاہے۔بھٹ کے معنی ہیں”ٹیلہ“۔پانی کے قدرتی تالاب کو”ترائی“کہا جاتاہے۔
تھر کے موسموں میں”چوماسہ“کو خصوصی مقام حاصل ہے۔
یہ موسم چار مہینے رہتاہے۔اس دوران برسات میں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آتاہے۔اس موسم کی خنک ہوائیں انسانی وجود پر رومانوی سحر طاری کر دیتی ہیں۔یہاں کی زراعت میں کالا تل،سفید تل،گوارا،جوار،ٹماٹر،تربوز،تھری خربوزہ اور چبڑی کی کاشت بھی ہوتی ہے۔اس کے علاقہ ڈیپلو میں بغیر کھادکے بھی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں ۔لوبان اور چندن کے درخت بھی کہیں کہیں موجود ہیں۔
مور ،تلور،تیتر،بھٹ تیتر اور ہرن جیسے خوب صورت جانور تھر کی جنگلی حیات کا حصہ ہیں۔پانی کی کمی اور غیر قانونی شکار کی وجہ سے یہ روز بہ روز نا پید ہوتے جارہے ہیں۔
صحرائے تھر میں سواری کے لیے اونٹ یا پھر جنگ عظیم دوم کے ٹرک استعمال ہوتے ہیں،جنھیں ”کیکڑا“کہا جاتاہے۔البتہ اب کئی علاقوں میں سڑکیں بن جانے کی وجہ سے جدید ٹرانسپورٹ بھی آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہے،مگر ایسے علاقے محدود ہیں۔
میرپور اور مٹھی کی رابطہ سڑک کی تعمیر ہو چکی ہے۔ضلع تھر کو عمر کوٹ اور بدین سے بذریعہ سڑک ملا دیا گیا ہے۔فراہمی آب کے بہت سے منصوبے بھی مکمل ہو چکے ہیں۔
صحرائے تھر میں زہریلے سانپوں کی کثرت ہے۔مرکز صحت صرف قصبوں نما شہروں میں واقع اور وہاں بھی سانپ کاٹنے کی ویکسین کی عدم دستیابی کی شکایت رہتی ہے۔ننگر پار کر کا علاقہ عمر کوٹ سے کم وبیش 200کلو میٹرکی مسافت پر رن کچھ اور تھر کے سنگم پر بھارتی سر حد کے نزدیک واقع ہے۔
ننگر پار کر سے قبل ایک چھوٹا سا گاؤں بھالو ہے۔جو سندھ کی معروف لوک داستان عمر ماروی کی ہیروئن کا گاؤں تھا۔بھالو کے بعد بوڈ یسر کا علاقہ ہے،جہاں بارانی جھیل کے قریب اکثر مورمحورقص ہو کر جنگل میں منگل کا سماں باندھ دیتے ہیں۔تھر موسم برسات میں نہایت حسین ہو جاتاہے۔

Browse More Moral Stories