Shararat Ka Anjaam - Article No. 1991

Shararat Ka Anjaam

شرارت کا انجام - تحریر نمبر 1991

اگر اب میں کسی کو بے وقوف بناؤں تو خدا کرے کہ میری ساری کھال ادھڑ جائے

پیر 14 جون 2021

عائشہ جمال
ایک سفید خرگوش دریا کے کنارے رہتا تھا۔وہ روزانہ اپنے گھر سے نکل کر ایک پتھر پر بیٹھ جاتا اور دوسرے کنارے کے خوبصورت باغوں کو بڑی حسرت ہے تکا کرتا۔وہ تمام دن یہ سوچ کر کاٹ دیتا کہ کاش وہ بھی وہاں تک پہنچ سکتا اور ان خوبصورت باغوں کی خوب خوب سیریں کرتا!دوسرے کنارے تک تو صرف تیر کر پہنچا جا سکتا تھا،مگر خرگوش تیرنا نہیں جانتا تھا اور ادھر دوسرے کنارے کے پیارے پیارے نظارے اسے ہر وقت پکارتے رہتے۔
ایک دن سفید خرگوش اسی سوچ بچار میں غرق تھا کہ یکایک وہ اچھل پڑا۔اسے دریا پار کرنے کی بڑی اچھی ترکیب سوجھ گئی تھی۔وہ کنارے پر آکر بیٹھ گیا اور جب مگرمچھ نے اپنا لمبوترا منہ پانی سے نکالا تو خرگوش نے اس سے پوچھا’کیوں بھائی مگرمچھ‘تم بتا سکتے ہو کہ دوست کس کے زیادہ ہیں،تمہارے یا میرے؟“
مگرمچھ نے جواب دیا”خرگوش صاحب،بڑہانکنے کی ضرورت نہیں۔

(جاری ہے)

دوست میرے ہی زیادہ ہیں۔تمہیں کون پوچھتا ہے۔“
”اچھا!“خرگوش نے کہا”اگر یہ بات ہے تو ایسا کرو کہ اپنے دوستوں کو بلاؤ اور انہیں ایک قطار میں کھڑا کر دو۔میں ان سب کو گن کر دیکھوں گا کہ کس کے دوست زیادہ ہیں۔میں اپنے دوستوں کو بلاؤں گا اور تم انہیں گن لینا۔منظور ہے؟“
مگرمچھ راضی ہو گیا۔اس نے پانی میں غوطہ مار کر اپنے تمام مگرمچھ دوستوں کو پکارا اور ان کو ایک قطار میں پھیل جانے کا کہا۔
مگرمچھ کے دوست اتنے زیادہ تھے کہ جب وہ ایک قطار میں پھیلے تو اس کنارے سے اُس کنارے تک مگرمچھ ہی مگرمچھ تھے۔
سفید خرگوش شرارت سے مسکرایا،کنارے پر سے چھلانگ مار کر مگرمچھ کی پیٹھ پر آبیٹھا اور بولا”ایک۔“اچھل کر دوسرے مگرمچھ کی پیٹھ پر آبیٹھا اور بولا”دو۔“اور اسی طرح وہ مگرمچھوں پر کودتا پھاندتا تین،چار،پانچ،چھ،سات،آٹھ گنتا چلا گیا اور آخری مگرمچھ کی پیٹھ پر سے کود کر دوسرے کنارے پر جا پہنچا۔

جب سفید خرگوش کی خواہش پوری ہو گئی تو وہ شوخی میں آگیا اور بولا”مگرمچھ بھائیوں!تمہارا بہت شکریہ۔ہا․․․․․ہا․․․․ہا․․․․․!دریا پار کرنے کے لئے میں نے تمہیں کیسا بے وقوف بنایا۔“
خرگوش کی بات سن کر مگرمچھوں کو سخت غصہ آیا۔وہ اپنے خوف ناک منہ کھول کر اس پر جھپٹے،لیکن خرگوش بھاگ نکلا۔پھر بھی ایک مگرمچھ کے منہ میں اس کی دم آگئی اور وہ زخمی ہو گیا۔
زخم کی وجہ سے خرگوش اپنی ساری شرارت بھول گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔بوڑھے مالی نے اس کے رونے کی آواز سنی تو بھاگا آیا۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک ننھا منا خرگوش زمین پر پڑا رو رہا ہے۔
مالی کو اس پر بہت رحم آیا اور رونے کی وجہ پوچھی۔خرگوش نے اسے اپنی ساری کہانی کہہ سنائی۔
مالی نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا․․․․”برخودار‘تم نے بہت بُرا کیا۔
اگر تم وعدہ کرو کہ پھر کسی کو بے وقوف بنا کر اپنا کام نہیں نکالو گے تو میں تم کو اچھا کر دوں گا۔“
خرگوش بولا”وعدہ کرتا ہوں،چاچا مالی۔بس میرا یہ زخم اچھا کر دو۔“
مالی نے ایک درخت سے بہت سے بڑے بڑے پتے اور نرم نرم ڈالیاں توڑ کر خرگوش کے لئے ایک گدگدا سا گھونسلا بنایا اور اس سے کہا ”اب تم اس گھونسلے میں آرام سے رات بھر لیٹو صبح سو کر اٹھو گے تو یہ زخم خدا کے فضل سے اچھا ہو جائے گا۔

خرگوش گھونسلے میں آیا اور آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی اور جب صبح کو جاگا تو زخم بھر چکا تھا۔خوش ہو کر سامنے دیکھا تو بوڑھا مالی کھڑا مسکرا رہا تھا۔چھلانگ مار کر وہ مالی کے قدموں میں جا بیٹھا اور بولا”اگر اب میں کسی کو بے وقوف بناؤں تو خدا کرے کہ میری ساری کھال ادھڑ جائے۔“

Browse More Moral Stories