Shehad Ki Aik Boond - Pehla Hissa - Article No. 2146

Shehad Ki Aik Boond - Pehla Hissa

شہد کی ایک بوند (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2146

شکاری نے دیکھا کہ غار کے آس پاس شہد کی مکھیاں پرواز کر رہی تھیں اور ایک پتھر کے سوراخ سے شہد قطرہ قطرہ ٹپک رہا تھا

جمعرات 23 دسمبر 2021

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تھا شکاری۔اس کے پاس ایک خوب سدھایا ہوا شکاری کتا بھی تھا جو اس کا خدمت گزار تھا۔شکاری کتے کی کمر باریک اور ہاتھ پاؤں پتلے پتلے اور لمبے تھے۔وہ ہر جانور سے زیادہ پھرتیلا تھا اور تیز دوڑتا تھا۔جونہی شکاری اسے ہشکارتا وہ خرگوشوں اور ہرنوں کے پیچھے بھاگتا،انہیں اپنی گرفت میں لاتا اور اپنے مالک کے پاس لے آتا۔
جب کبھی شکاری تیر سے کسی پرندے کو نشانہ بناتا تو کتا تیزی سے دوڑتا اور اس سے پہلے کہ شکار مر جائے،اسے زندہ حالت میں شکاری کے قدموں میں ڈال دیتا۔
ایک روز شکاری،کتے کو ساتھ لیے شکار کی غرض سے نکلا اور ایک ہرن کا پیچھا کرتے کرتے ان کا گزر ایک سرسبز و شاداب پہاڑی علاقے سے ہوا۔اس کے نشیب و فراز میں طرح طرح کے درخت،پھول اور سبزہ بہار دکھا رہے تھے۔

(جاری ہے)

جلد ہی وہ اس پہاڑی علاقے کے ایک غار تک جا پہنچے۔
شکاری نے دیکھا کہ غار کے آس پاس شہد کی مکھیاں پرواز کر رہی تھیں اور ایک پتھر کے سوراخ سے شہد قطرہ قطرہ ٹپک رہا تھا۔وہ سمجھ گیا کہ مکھیوں نے پتھروں کے سوراخوں میں چھتے بنا رکھے ہیں اور جیسا کہ آثار سے پتا چلتا ہے کسی انسان کا ایک عرصے سے اُدھر سے گزر نہیں ہوا چنانچہ وہاں شہد بڑی مقدار میں جمع ہو چکا ہے،پتھروں کی تہیں شہد میں بھر چکی ہیں اور ان کے شگافوں سے شہد بہہ نکلا ہے اور زمین پر گر گر کر خشک ہو رہا ہے۔

شکاری یہ سب کچھ دیکھ کر بڑا خوش ہوا اور اپنے آپ سے کہنے لگا:اگر کوئی دوسرا شخص کبھی یہاں تک نہ پہنچ پایا تو میں ایک مدت تک شکار کی زحمت سے بچ جاؤں گا۔میں ہر روز یہاں آیا کروں گا،تھوڑا سا شہد یہاں سے شہر لے جا کر بیچ دیا کروں گا اور اس آمدنی سے اپنی گزر بسر کروں گا۔
میرا خیال ہے کہ شہد کا یہ ذخیرہ مدتوں تک ختم نہیں ہو گا کیونکہ پہاڑ اور جنگل کا بڑا حصہ سبزہ و گل سے بھرا ہوا ہے اور شہد کی مکھیاں جن کا یہ ٹھکانا ہے،بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ان کا کام ہی شہد بنانا ہے۔

شکاری کو صرف ایک مشکل درپیش تھی یعنی مکھیوں کا ہجوم مگر دنیا میں کوئی کام بھی مشقت اور تکلیف اُٹھائے بغیر ممکن نہیں۔شکاری نے اپنے لباس کو خوب کس لیا اور اپنے چہرے کو ایک رومال سے ڈھانپ کر،اپنے پینے کے پیالے کو جسے وہ اپنے ساتھ رکھتا تھا،شہد سے بھر لیا اور شہر کا رخ کیا تاکہ بازار میں اسے بیچ دے۔اس کا کتا اس کے ساتھ تھا۔
شکاری ایک کریانہ فروش کے پاس گیا اور کہا:”میرے پاس تھوڑا سا خالص شہد ہے،اسے بیچنا چاہتا ہوں۔
کریانہ فروش نے شہد کا پیالہ تھاما،تھوڑا سا شہد لے کر چکھا اور کہا:اس شہد کے کیا کہنے اور آپ پر آفرین!میرے پاس ہمیشہ کئی قسم کا شہد رہتا ہے جسے میں خود دیہاتوں سے لاتا ہوں۔اسے صاف کرتا ہوں اور اس سے موم الگ کرتا ہوں اور پھر خالص شہد بیچتا ہوں۔ایک اور قسم کا شہد بھی میرے پاس ہوتا ہے جسے لوگ موم کے ساتھ چھتے سے نکالتے ہیں،میرے پاس لے آتے ہیں اور میں اسے خرید لیتا ہوں اور اسے موم سمیت بیچتا ہوں۔
ایک اور قسم کا شہد بھی ہے جسے لوگ صاف کرکے میرے پاس لاتے ہیں اور میں اس کی الگ سے خرید و فروخت کرتا ہوں۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگ شہد میں چینی اور مربے کی چاشنی کی ملاوٹ کر دیتے ہیں اور شہد کی پہچان رکھنے والے ایسے شہد کو ناپسند کرتے ہیں۔جو خالص شہد جس علاقے سے آتا ہے،اپنا ایک مخصوص ذائقہ رکھتا ہے۔لیکن یہ شہد تو ان تمام سے بہتر ہے۔
اس کی خوشبو اور ذائقے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل خالص ہے اور کسی ایسے علاقے سے آیا ہے جہاں کے پھول اور پودے بہت خوشبودار ہوتے ہیں۔میں انصاف پسند آدمی ہوں اور اپنے ہاں کے بہترین شہد کی قیمت فروخت سے بڑھ کر قیمت ادا کروں گا ہاں تم مجھ سے یہ وعدہ کرو کہ تمہارے پاس جتنا بھی شہد ہو،میرے لئے لاتے رہنا۔
شکاری یہ سن کر خوش ہوا اور کہا:بہت اچھا،میں وعدہ کرتا ہوں۔
میں کسی دوسرے خریدار سے نہیں ملا اور میرے پاس شہد بھی کافی مقدار میں ہے۔اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ تم نے شہد صحیح قیمت پر خریدا ہے اور میرے ساتھ دھوکا نہیں کیا تو میں ہر روز تمہارے لئے خالص شہد کا ایک کوزہ لایا کروں گا۔
کریانہ فروش کو یہ سن کر خوشی ہوئی۔اس نے شہد کا کوزہ ترازو پر رکھا اور اس کا وزن کیا۔پھر اس نے چاہا کہ شہد کو کسی دوسرے برتن میں انڈیل کر خالی کوزے کا بھی وزن کرے تاکہ اسے شہد کا خالص وزن معلوم ہو سکے۔

کریانہ فروش کی دکان میں ایک نیولا بھی تھا جسے اس نے ایک بلی کی جگہ پال رکھا تھا کہ وہ دکان میں موجود چوہوں کا خاتمہ کر سکے۔ جس وقت کریانہ فروش شہد دوسرے برتن میں انڈیل رہا تھا،شہد کی ایک بوند زمین پر گری۔نیولا جو کریانہ فروش کے کاموں کی نگہداشت کرتا تھا، فوراً آگے لپکا تاکہ زمین پر گرے شہد کے قطرے کو چاٹ لے۔اسی وقت شکاری کتے نے۔
جو اس شکاری کے ساتھ تھا اور شروع ہی سے نیولے کو دیکھ کر ناخوش تھا،بڑھ کر نیولے پر حملہ کر دیا اور اس کی گردن پر کاٹ لیا جس سے اس کی گردن سے خون جاری ہو گیا۔
کریانہ فروش نیولے سے بہت محبت کرتا تھا۔وہ نیولے پر شکاری کتے کے حملے سے سخت طیش میں آگیا اور اس نے برا بھلا کہتے ہوئے ترازو کی ڈنڈی ہاتھ میں لے کر کتے کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ چکرایا اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔
میاں شکاری،جسے اپنا کتا بہت عزیز تھا،نہایت غصے میں آیا۔اس نے وہی شہد سے خالی کوزہ اُٹھایا اور کریانہ فروش کے سر پر پٹخ دیا۔کریانہ فروش ایک چیخ مار کر بے ہوش ہو گیا۔ کریانہ فروش کی دکان کے بالمقابل اس کے ہمسائے نے جو اس تمام جھگڑے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا،اہل بازار کو اطلاع کر دی اور شکاری کے گرد لوگوں کا ایک ہجوم آن اکٹھا ہوا اور اسے گالیاں دیتے ہوئے،لاٹھیوں سے پیٹنے لگا۔
شکاری نے جب اتنے ہجوم کے مقابل خود کو اکیلا پایا تو اپنا شکاری چاقو اپنی کمر سے کھینچا اور کئی لوگوں پر وار کرکے انہیں زخمی کر دیا۔اب ہر طرف داد فریاد کا عالم تھا۔اسی اثناء میں پولیس کے سپاہی آن پہنچے۔انہوں نے شکاری میاں اور بازار کے چند لوگوں کو گرفتار کیا اور داروغہ شہر کے پاس لے گئے اور کہنے لگے:اس شکاری نے بازار میں ہنگامہ کیا اور یہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو گئے۔

Browse More Moral Stories