Shukriya Dada Abbu - Article No. 2420

Shukriya Dada Abbu

شکریہ دادا ابو - تحریر نمبر 2420

میرے سب سے اچھے،سب سے پکے دوست مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور چلے گئے

جمعرات 22 دسمبر 2022

عروج سعد
آج بھی ننھے عاشر کے چہرے پر اُداسی چھائی ہوئی تھی اور شاید آنکھوں میں نمی بھی تھی۔اس بات کو محسوس کرکے سب ہی پریشان ہو گئے۔امی نے عاشر کو چمٹا لیا اور ابو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:”جب سے بابا کا انتقال ہوا ہے،یہ ایسے ہی چپ چاپ سا رہتا ہے۔“
دادا کا ذکر سن کر عاشر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا،میرے سب سے اچھے،سب سے پکے دوست مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور چلے گئے۔
وہی تو تھے جو مجھے ”عاشو بچہ“ اور ”میرا لڈو“ کہہ کر پکارتے تھے۔“
ابو نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے باہر لان میں لے آئے اور بولے:”آپ دادا کو ضرور یاد کریں۔اُن کے لئے مغفرت کی دعا کریں اور جو اچھی اچھی باتیں انھوں نے آپ کو سکھائیں ہیں،انھیں بھی یاد رکھیں۔

(جاری ہے)

اگر آپ یہ سب کریں گے تو یقین کریں کہ اُن کی روح بے حد خوش ہو گی۔


عاشر نے پوچھا:”اب میں مسجد کس کے ساتھ جایا کروں؟کہانیاں کس سے سنا کروں؟“
ابو اس سوال کے لئے پہلے سے تیار تھے،فوراً جواب دیا:”پڑوس والے امین دادا ہیں نا،دادا ابو ان کے بھی تو پکے دوست تھے۔وہ بھی تو دادا ابو کے جانے کے بعد سے کتنے غم زدہ اور تنہا رہتے ہوں گے۔آپ کو تو ان کا خیال بھی نہیں آیا۔جیسے آپ دادا ابو کی زندگی میں امین دادا کے گھر جاتے تھے۔
اسی طرح اب بھی جایا کریں۔“
یہ بات عاشر کے دل کو لگی اور اگلے ہی دن وہ امین دادا کے گھر پہنچ گیا۔
دن گزرتے گئے۔عاشر اور امین صاحب کی دوستی پروان چڑھتی گئی۔عاشر کو امین صاحب کی شکل میں اپنے دادا ابو کا عکس نظر آتا تھا۔جب امین صاحب مسکراتے تو اسے لگتا کہ جیسے اس کے دادا ابو مسکراتے ہوئے اسے شفیق نظروں سے دیکھ رہے ہوں۔عاشر پانچویں سے بارہویں جماعت میں پہنچ گیا۔
پڑھائی،کھیل اور دیگر مصروفیات کے باوجود وہ بلاناغہ امین صاحب کے پاس جاتا۔کبھی ان کو اخبار پڑھ کر سناتا،کبھی لوڈو کھیلتا،کبھی ان کا سر دباتا اور کبھی ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں چہل قدمی کرانے نکل جاتا۔اس دوران وہ ہر موضوع پر باتیں کرتے۔امین صاحب جب اپنے تجربات اور واقعات اسے سناتے تو وہ بہت لطف اندوز ہوتا اور ان سے سبق بھی حاصل کرتا۔
اسی وجہ سے وہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ سمجھ دار اور تمیز دار نظر آتا۔فضول باتوں اور کاموں میں وقت ضائع نہ کرتا۔
کچھ دنوں تک امین صاحب کی طبیعت خراب رہی،پھر ایک دن اچانک وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔عاشر کو ایسا محسوس ہوا جیسے ایک بار پھر اس کے دادا ابو اُسے اکیلا چھوڑ گئے ہوں۔وہ ایک مرتبہ پھر غم زدہ اور بے چین رہنے لگا۔ابو اس کی اس کیفیت کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔
آخر ایک دن اسے لان میں تنہا دیکھ کر انھوں نے کہا:”بیٹا!میں دیکھ رہا ہوں امین صاحب کے انتقال کے بعد سے آپ گم صُم رہنے لگے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ آپ نے ان کے جانے کا بہت زیادہ اثر لے لیا ہے۔“
عاشر نے سر جھکاتے ہوئے کہا:”جی ابو!ایسا ہی ہے۔دادا ابو کے بعد امین دادا مجھے بہت عزیز ہو گئے تھے۔مجھے ایسا لگتا تھا کہ مجھے جو بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے،وہ انہی کی دعاؤں کی وجہ سے ہوئی ہے،مگر اب تو مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
ابو!آپ ہی بتائیں،آخر میں کیا کروں کہ میرا دل مطمئن ہو جائے؟“
ابو اپنے حساس بیٹے کی باتیں سن کر بہت متاثر ہوئے اور کہا:”اچھا تو یہ بات ہے۔آپ کے خیالات قابلِ قدر ہیں۔واقعی جو انسان اپنے بزرگوں سے محبت اور ان کی قدر کرتا ہے،دنیا اور آخرت میں ضرور سرخرو ہوتا ہے،مگر ایسے بھی بدقسمت لوگ ہیں جو اپنے بزرگوں کی عزت کرنے کے بجائے انھیں بوجھ سمجھتے ہوئے انھیں گھر سے بے گھر کر دیتے ہیں۔
ایسے افراد کی دیکھ بھال کے لئے کئی ادارے قائم ہیں۔آپ چاہیں تو ایسے ہی کسی ادارے میں رضاکارانہ طور پر کام کر سکتے ہیں۔وہاں ایک نہیں کئی بزرگ ہوں گے جنہیں آپ دادا ابو کہہ کر پکار سکیں گے اور جن کی خدمت کرکے آپ ڈھیر ساری دعائیں لے سکیں گے۔“
عاشر فوراً بول پڑا:”ابو!آپ مجھے ایسے ہی کسی ادارے میں لے چلیں،تاکہ میں رضاکار کے طور پر اپنا نام بھی لکھوا دوں؟“
ابو نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا:”کیوں نہیں،بلکہ آپ چاہیں تو اپنے دوستوں کو بھی اس نیک کام میں شامل کر سکتے ہیں۔

یوں عاشر اور اس کے چند دوستوں نے بزرگ افراد کی دیکھ بھال کرنے والے ایک اولڈ ہوم میں شام کے وقت دو گھنٹے گزارنے شروع کر دیے۔رفتہ رفتہ وہاں موجود بزرگوں سے ان کی قربت ہو گئی۔جب وہ ان کے ساتھ مل کر حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتا،ان کو دوائیں دیتا،ان کی الماریوں میں چیزوں کی ترتیب درست کرتا تو یہ بوڑھے لوگ اسے دل کی گہرائیوں سے دعائیں دیتے اور عاشر کو یوں محسوس ہوتا کہ اسے دنیا کی سب سے بڑی دولت مل گئی ہو۔

چند ہی سالوں میں پڑھائی مکمل ہو گئی اور عاشر نے ایک ماہر تعمیر کی حیثیت سے ایک بڑی کمپنی میں ملازمت شروع کر دی،مگر اولڈ ہوم سے اس کا تعلق برقرار رہا،وہ اب بھی چھٹی کے دن وہاں جاتا۔اب اس نے وہاں اپنے خرچ پر دو تربیت یافتہ نرسوں اور کچھ وہیل چیئرز کا انتظام بھی کر دیا تھا،تاکہ وہاں موجود افراد کی بہتر دیکھ بھال ہو سکے۔
آفس میں اسے سب ”عاشر صاحب“ کہتے تھے۔اولڈ ہوم میں آتے ہی ”عاشو بچہ“ بن جاتا اور اس کے چہرے پر بھی وہی بچوں کی سی معصومیت واپس آ جاتی۔
عاشر اپنے دادا ابو کا دل سے شکر گزار تھا،جن کی تربیت اور محبت نے اسے نیکی کے راستے پر چلنے کی ترغیب دی تھی۔

Browse More Moral Stories