Sitara Pari - Article No. 1390

Sitara Pari

ستارہ پری۔۔تحریر:مختار احمد - تحریر نمبر 1390

نجمہ پری کی آنکھوں میں آنسو لرزنے لگے، وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی- "ستارہ پری میرا چچا بہت لالچی آدمی ہے- جب اس نے یہ سنا کہ اس کا نیلا کبوتر بادشاہ سلامت کی امی کے مرض کا واحد علاج ہے تو اس نے یہ منصوبہ بنایا کہ میری شادی بادشاہ سے کرا دے گا تاکہ جب میں ملکہ بن کر محل میں جاوٴں تو وہ بھی میرے ساتھ محل میں رہنے لگے

جمعہ 26 اپریل 2019

پرستان کی شہزادی ستارہ پری کو اس بوڑھے پریزاد بڑھئی کا مکان بڑی مشکل سے ملا تھا، جس سے ملنے کے لیے وہ بادشاہ اور ملکہ سے چھپ کر آئی تھی- اس نے پریزاد بڑ ھئی کے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا- تھوڑی دیر بعد دروازہ کھل گیا- دروازہ کھولنے والی ایک نہایت حسین و جمیل پری تھی- وہ ستارہ پری کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگی-"کیا ا عظم بڑھئی کا گھر یہ ہی ہے؟" "ہاں وہ میرے چچا ہیں مگر تمہیں ان سے کیا کام ہے؟""شاید تم مجھے نہیں جانتی ہو- میں ستارہ پر ہوں اور میں پرستان کے بادشاہ کی لڑکی ہوں"- ستارہ پری نے بتایا- وہ پری چونک گئی اور بولی- " میں نے تمہیں کبھی نہیں دیکھا تھا ، اس لیے تمہیں نہیں پہچان سکی- آوٴ گھر میں آجاوٴ- میرے چچا تو ایک ضروری کام سے گئے ہوئے ہیں- شام تک واپس آئیں گے- کیا کوئی ضروری کام تھا؟"- "دراصل میں تمھارے چچا سے نہیں تم سے ملنا چاہتی ہوں- تمہاری وجہ سے میری امی حضور سخت پریشان ہو گئی ہیں اور اسی پریشانی نے انھیں بیمار کر کے بستر سے لگادیا ہے"- ستارہ پری بولی-"میری وجہ سے تمہاری امی بیمار ہوگئی ہیں مگر کیوں؟"- نجمہ پری حیرت سے بولی- "تمہیں یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں میری دادی حضور سخت بیمار پڑ گئی تھیں- حکیموں نے جواب دے دیا تھا اور نجومیوں نے یہ بتایا تھا کہ اس شہر میں اعظم نامی ایک بڑھئی رہتا ہے، اس کے پاس ایک نیلے رنگ کا کبوتر ہے- اگر اس کبوتر کا گوشت مریضہ کو کھلا دیا جائے تو وہ تند رست ہوسکتی ہیں- جب میرے ابّا حضور تمھارے چچا کے پاس پہنچے تو انہوں نے وہ کبوتر اس شرط پر دینے کہ و عدہ کیا کہ بادشاہ سلامت یعنی میرے ابّا حضور تم سے شادی کرلیں- میرے ابّا حضور کو چونکہ دادی جان سے بے حد محبت ہے اس لیے انہوں نے اس شرط کو منظور کر لیا مگر جب سے امی حضور نے یہ بات سنی ہے ان کا چین و سکون ا ڑ گیا ہے- وہ یہ سمجھتی ہیں کہ دوسری شادی کے بعد ابّا حضور ان کی طرف توجہ نہیں دیں گے اور ان کی اہمیت ختم ہو جائے گی- اسی فکر نے انھیں بیمار کردیا ہے- اچھی نجمہ پری کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ تم میرے ابا حضور سے شادی نہ کرو تم انکار بھی تو کر سکتی ہو- میں تمھارے پاس بہت سی امیدیں لے کر آئی ہوں"- نجمہ پری کی آنکھوں میں آنسو لرزنے لگے، وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی- "ستارہ پری میرا چچا بہت لالچی آدمی ہے- جب اس نے یہ سنا کہ اس کا نیلا کبوتر بادشاہ سلامت کی امی کے مرض کا واحد علاج ہے تو اس نے یہ منصوبہ بنایا کہ میری شادی بادشاہ سے کرا دے گا تاکہ جب میں ملکہ بن کر محل میں جاوٴں تو وہ بھی میرے ساتھ محل میں رہنے لگے اور وہاں رہ کر چوری چوری شاہی خزانے سے دولت نکال کر جمع کرتا رہے- یہ ہی بات سوچ کر اس نے بادشاہ سلامت کے سامنے اپنی یہ شرط رکھی تھی"-"تمہارا چچا تو بہت چالاک آدمی ہے"- "تم نے پوری بات تو سنی ہی نہیں تم یہ سن کر شائد حیرت کرو گی کہ میں شادی شدہ ہوں مگر میرے ظالم چچا نے میرے شوہر کو نہ جانے کہاں قید کر دیا ہے- میرے مکّار چچا نے مجھے اس بات کی بھی دھمکی دی ہے کہ یہ راز اگر کسی کو بتایا تو وہ میرے شوہر کو قتل کردے گا"- وہ رونے لگی- ستارہ پری جانے کے لیے اٹھی، اچانک کمرے کی کھڑکی میں سے ایک خوبصورت پرندہ اندر داخل ہوا اور کمرے کے دو تین چکر لگانے کے بعد نجمہ کے شانے پر بیٹھ گیا- ستارہ پری نے بے ساختگی سے اسے پکڑ لیا اور اس کے سر پر باتھ پھیرتے ہو? بولی- "کس قدر خوبصورت پرندہ ہے یہ"- اچانک سر پار ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ چونکی- اس کی انگلی سے کوئی سخت سی چیز ٹکرائی تھی- اس نے چونک کر پرندے کے سر کو ٹٹولا تو وہاں پر ایک سونے کی کیل گڑی ہوئی نظر آئی- ستارہ پری نے اسے جلدی سے کھینچ کر باہر نکال لیا- سونے کی کیل جیسے ہی باہر نکلی ویسے ہی پرندہ ستارہ پری کے ہاتھوں سے گر کر زمین پر تڑپنے لگا اور تھوڑی ہی دیر میں اس نے ایک خوبصورت پری زاد کی شکل اختیار کر لی- نجمہ پری حیرت اور خوشی سے چلا پڑی- یہ اسکا شوہر آفتاب تھا- آفتاب پری زاد کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو رہا تھا- اس نے اپنی بیوی سے کہا- "میں بڑی مشکلوں سے تمھارے چچا کے ہاتھوں سے بچ کر آ رہا ہوں- تمہارے چچا نے تمہاری شادی بادشاہ سلامت سے کرانے کے لالچ میں مجھے پرندہ بنا کر ایک پنجرے میں بند کر دیا تھا- آج وہ مجھے لے کر ایک ویران علاقے میں گیا تا کہ میری گردن مروڑ کر میرا کام تمام کر دے مگر اس نے جیسے ہی مجھے اپنی گرفت میں لینے کے لیے پنجرے میں ہاتھ ڈالا میں نے زور سے اس کی ہتھیلی کی پشت پر چونچ ماری- درد کے مارے اس کی چیخ نکل گئی- اس نے جلدی سے اپنا باتھ باہر کھینچ لیا- میں پھرتی سے پنجرے کے کھلے دروازے سے باہر نکل آیا اور ایک طرف کو پرواز کرنے لگا- وہ کافی دیر تک میرے پیچھے بھاگتا رہا مگر پھر میں ایک گھنے درخت کے پتوں میں چھپ گیا- وہ مجھے ادھر ادھر ڈھونڈتا رہا پھر مایوس ہو کر چلا گیا- اب میں سیدھا یہیں آ رہا ہوں"- نجمہ گھبرا کر بولی- "خدا کے لیے آپ کہیں چھپ جائیے- ایسا نہ ہو کہ وہ پھر آپ پر جادو کردے"- پھر ابھی اس کی بات مکمل ہوئی ہی تھی کہ باہر کا دروازہ بڑے زور سے کھلا، نجمہ پری بوکھلا گئی، جلد ی سے بولی- "آپ اس پلنگ کے نیچے چھپ جا ئیے، شائد وہ آ گیا ہے"- آفتاب کے لیے چھپنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا- وہ جلدی سے پلنگ کے نیچے گھسنے لگا، مگر اتنے میں وہ مکّار بوڑھا ا عظم آگیا- اس نے نہایت غصے سے کہا- "آفتاب اب تیرا چھپنا بے کار ہے، میں نے تجھے دیکھ لیا ہے اور اب میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا کیونکہ تو نے میرے ہاتھ پر اتنی زور سے اپنی چونچ ماری ہے کہ اس میں سے خون نکلنے لگا ہے اور مرچیں بھی لگ رہی ہیں- چل باہر نکل آ، ورنہ پکڑ کے کھینچتا ہوں تیری ٹانگ"- آفتاب پری زاد بے چارہ چپ چاپ باہر نکل آیا- نجمہ پری کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے اور ا عظم پریزاد آفتاب کو گھورنے لگا- چونکہ وہ خشمناک نظروں سے آفتاب کو گھورنے میں لگا ہوا تھا، اس لیے وہ ستارہ پری کو نہ دیکھ سکا جو دبے قدموں اس کی طرف پیچھے کی جانب سے بڑھ رہی تھی- اس کی ہاتھ میں وہ ہی سونے کی کیل تھی جو اس نے آفتاب کے سر سے نکالی تھی- ا عظم کے قریب پہنچ کر ستارہ پری نے اچھل کر وہ کیل اس کے سر میں پیوست کر دی- ا عظم زمین پر گر کر تڑپنے لگا اور پھر زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہ ایک پرندہ بن کر اڑا اور کھڑکی میں بیٹھ گیا- اب وہ ستارہ پری کو گھور رہا تھا-اپنے ظالم اور لالچی چچا سے نجات پا کر نجمہ پری بے حد خوش نظر آنے لگی تھی- اس نے ستارہ پری کے سر پر باتھ پھیرتے ہوے اس کی عقلمندی اور پھرتی کی تعریف کی- آفتاب نے بھی اس کو شاباش دی-باہر گلی میں چند پریوں کے شریر بچے غلیل سے درختوں میں لگے ہوئے پھلوں اور چھوٹے پرندوں کا نشانہ لے لے کر پتھر مار رہے تھے-اچانک ایک بچے کی نظر کھڑکی میں بیٹھے ہوئے بوڑھے اعظم پر پڑی جو پرندے کا روپ دھار چکا تھا- اس نے تاک کر جو غلیل سے ایک پتھر مارا تو اس کی کھوپڑی کے دو ٹکڑے ہو گئے-وہ تڑ سے کمرے کے فرش پر گرا- کھوپڑی ٹوٹنے کی وجہ سے جادو کی کیل بھی نکل گئی تھی اور وہ اب پھر اپنی اصل شکل میں آگیا تھا-آفتاب نے مردہ اعظم کی طرف نفرت سے دیکھا اور بولا- "لالچ اور ظلم کا یہ ہی انجام ہوا کرتا ہے- اچھا ہوا جو یہ مر گیا ورنہ پھر کوئی مصیبت کھڑی کر دیتا"-آفتاب نے ستارہ پری کا بہت بہت شکریہ ادا کیا- نجمہ بولی- "جاوٴ بہن - اب تمہیں ہماری طرف سے کوئی شکایت نہیں ہوگی"- پھر ستارہ پری اس سے اجازت لے کر اڑتی ہوئی اپنے محل میں آئی- اس نے بادشا ہ اور ملکہ کو اس مکّار بڑھئی کی چالاکی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا کہ وہ کس طرح ہوشیاری اور بیایمانی سے نجمہ پر ی کی شادی بادشاہ سے کرا کے شاہی خزانے سے دولت حاصل کرنا چاہتا تھا- بادشاہ نے سب کچھ سنا اور کہنے لگا - "بیٹی دراصل مجھے تمہاری دادی سے اتنی محبت ہے کہ میں انہیں کسی تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور ان کی بیماری کے پیش نظر میں نے مکّار اعظم سے اس کی بھتیجی سے شادی کی بات بھی قبول کر لی تھی- مجھے اس کے دل کی بات کا کوئی پتا نہ تھا کہ وہ اس شادی کے پیچھے کون سا مطلب رکھتا تھا"- "چلو اچھا ہوا ہم اس کی چالاکی اور فریب سے بچ گئے"- ستارہ کی امی نے کہا-اور پھر بادشاہ اور ملکہ کے علاوہ دادی جان نے بھی اس واقعہ پر بہت افسوس کا اظہار کیا- بادشاہ تو خود ہی دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا تھا وہ تو ایک مجبوری کے تحت اس بات پر راضی ہوگیا تھا- ملکہ کے لیے بھی اب پریشانی کی کوئی بات نہ رہی تھی کیونکہ جس خطرے کے وجہ سے وہ بیمار پڑی تھی وہ ٹل چکا تھا- وہ بھی چند دنوں بعد بھلی چنگی ہوگئی اور کسی قسم کی کوئی بیماری نہ رہی-دادی جان بھی بیماری سے صحت یاب ہوگئیں کیونکہ نجمہ پری نے نیلا کبوتر ستارہ پری کے ہاتھ بھیج دیا تھا-اس کے بعد سب ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے-

Browse More Moral Stories