Subha Ka Bhola - Pehla Hissa - Article No. 2445

Subha Ka Bhola - Pehla Hissa

صبح کا بھولا (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2445

جاب تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے میں کوئی انجینئر بن جاؤں گا،اور مجھے اچھی کمپنی میں جاب ملے گی۔یا میں وزیر اعظم بن جاؤں گا۔

جمعرات 26 جنوری 2023

ریحانہ اعجاز
حسن سمیت چار بہن بھائی اپنی امی،ابو کی آنکھوں کے تارے تھے۔سب سے بڑا احسن،اس سے چار سال چھوٹی حرا،حرا سے دو سال چھوٹی حنا اور پھر سب سے چھوٹا احسن۔ابو گورنمنٹ کے ادارے میں کلرک تھے۔قلیل آمدنی،چار بچے۔
بچوں کی پڑھائی لکھائی گھر کے اخراجات،زندگی کسی نہ کسی طرح چل ہی رہی تھی ایسے میں بھی امی اور ابو ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے،جن کے پاس رہنے کے لئے باپ دادا کی عنایت کردہ سر پر ایک چھت بھی تھی اور تین وقت پیٹ بھر کر کھانے کو رزق بھی۔
چاروں بچوں کو گورنمنٹ سکول میں تعلیم دلوائی جا رہی تھی۔آج کی نئی نسل میں ہر بچہ چاہے وہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہے ذہانت کی دولت سے مالا مال ہے۔بس اُسے صحیح اور مثبت رہنمائی کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

امی،ابو کے بھی چاروں بچے ذہین تھے۔امی سادہ کم گو خاتون تھیں تھوڑی بہت پڑھی لکھی بھی تھیں۔
بچوں پر پوری توجہ دینے کی کوشش کرتی تھیں۔خود ہی انہیں ہوم ورک کرواتیں۔

قناعت کے سبق دیتیں لیکن حسن بہت ناشکرا بچہ تھا۔باقی بچے اپنے حال میں مگن تھے۔جو مل جاتا کھا لیتے۔جو مل جاتا پہن لیتے لیکن حسن جوں جوں بڑا ہو رہا تھا اس کی ڈیمانڈ بڑھتی جا رہی تھیں۔اُسے اچھے کھانے،اچھے کپڑوں،قیمتی جوتوں کی طلب رہنے لگی تھی۔
وہ اپنی غربت پر کڑھتا رہتا۔اس نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ جتنا پڑھ سکے گا پڑھے گا پھر کسی بھی طریقے سے اس ملک سے نکل جاؤں گا جہاں غربت اور ڈپریشن کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
سکول میں تو سب ایک جیسے طبقے کے بچے پڑھتے تھے کہ ذرا سا متمول گھرانہ بھی پرائیویٹ سکولز ہی ترجیح دیتا ہے۔البتہ گورنمنٹ کالج میں اچھے امیر گھرانوں کے بچے بھی بڑی تعداد میں زیر تعلیم تھے۔حسن کالج میں گیا تو اس نے کئی خوشحال لڑکوں کو اپنی موٹر سائیکل،گاڑی چلاتے دیکھا تو مزید احساس کمتری کا شکار ہونے لگا۔
رہی سہی کسر ہالی ووڈ کی موویز نے پوری کر دی جو وہ دوستوں کے ساتھ مل کر ان کے گھر میں بڑی دلچسپی سے دیکھا کرتا تھا۔
موویز میں غیر ممالک کے حسین و دلفریب مناظر،چمچماتی گاڑیاں،پیسہ اُڑاتے،موج مستی کرتے نوجوان،بے فکری و لاپرواہی کی اِک ایسی دنیا جہاں کسی کو کوئی غم نہیں ہوتا۔یہ سب دیکھ دیکھ کر حسن دن رات اس فکر میں رہنے لگا کہ کسی طرح وہ بھی امریکہ،لندن پیرس یا کسی بھی ملک پہنچ جائے۔
وہاں جا کر ڈھیر سارا روپیہ،پیسہ کمائے،اپنے ماں باپ کو بھی عیش کروائے اور بہن بھائیوں کو بھی۔

امی،ابو اس کے ارادوں سے گاہے گاہے آگاہ ہوتے رہتے تھے جو وہ کھانا کھاتے ہوئے،سادہ کھانوں کو دیکھ کر مرغن کھانوں کے تصور میں آہیں بھرتے ہوئے اپنے ماں باپ کے گوش گزارتا۔
”دیکھنا ابو جی،میں ایک دن امریکہ جاؤں گا،وہاں اتنا روپیہ کماؤں گا کہ ہر مہنگے سے مہنگا کھانا،کپڑا،جوتا،گاڑی،ایک منٹ میں خرید لوں گا،میں کبھی پاکستان واپس نہیں آؤں گا۔
بلکہ آپ سب کو بھی وہیں بلا لوں گا،یہاں بھلا کیا رکھا ہے۔“
اکثر یونہی کھانا سامنے آنے پر وہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتا اور لاحاصل خواہشات میں گھرا اپنے ملکہ کو بُرا بھلا کہتے ہوئے غیر ممالک کی شان میں قصیدے پڑھنے لگتا۔اسے لگتا وہاں ڈالر درختوں پر لگتے ہیں جو بنا محنت کے ہی حاصل ہو جاتے ہیں۔امی،ابو کئی بار اسے پیار محبت سے سمجھا چکے تھے۔

”بیٹا،اپنا ملک اپنا ہوتا ہے۔تھوڑا صبر سے کام لو۔جب تم پڑھ لکھ جاؤ گے،جاب پر لگو گے تو انشاء اللہ ہمارے گھر میں بھی خوشحالی آ جائے گی۔تم اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہو اگر تم ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تو ہم کیا کریں گے؟
ابو اسے ہمیشہ صبر کی تلقین کرتے۔
”جاب۔“
حسن استہزائیہ ہنستا۔
جاب تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے میں کوئی انجینئر بن جاؤں گا،اور مجھے اچھی کمپنی میں جاب ملے گی۔
یا میں وزیر اعظم بن جاؤں گا۔بی ایس سی کے بعد کون سی اچھی جاب مل جاتی ہے؟زیادہ سے زیادہ میں بھی آپ کی طرح کہیں کلرک لگ جاؤں گا۔“
تلخ لہجے میں بولتا ہوا حسن ماں باپ کا دل دکھا جاتا۔وہ بھول جاتا کہ اتنی تعلیم کے ساتھ جب پاکستان میں کوئی جاب ممکن نہیں تو باہر کے ملک میں کیسے مل سکتی ہے؟
بی ایس سی کا آخری پیپر دیتے ہی حسن نے باہر جانے کی کوششیں شروع کر دیں۔
ایسے رزلٹ کا بھی انتظار نہیں تھا۔بی،ایس،سی بھی اس نے مارے باندھے،امی،ابو کی وجہ سے کیا تھا۔
ماں باپ نے لاکھ دہائی دی کہ کیسے باہر جاؤ گے؟
کیسے بنا کسی بڑی ڈگری کے باہر جاب ملے گی؟
لیکن حسن کی ایک ہی ضد تھی،ایسے ہر حال میں باہر جانا ہے۔
دوستوں کی منتیں کیں،کئی ایک سے قرض کے نام پر رقم مل گئی جسے جلد لوٹانے کا وعدہ کر لیا۔

ابو نے اس کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنے محکمے سے بطور قرض بڑی رقم لے کر حسن کو باہر بھجوانے کا انتظام کیا۔بالآخر حسن لندن پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
مارے خوشی کے حسن کے پاؤں جیسے زمین پر نہ ٹکتے تھے۔سب سے پہلے حسن کے لئے رہائش کا مسئلہ تھا۔کوئی جان پہچان والا نہ تھا۔تین دن حسن نے فٹ پاتھ پر گزار دیئے۔لیکن ابھی لندن پہنچنے کا سرور تکلیف وہ حقائق پر حاوی تھا۔نوکری کی تلاش نے اس کے پاؤں میں چھالے ڈال دیئے تھے۔ہر کوئی اس کی تعلیم سن کر ہری جھنڈی دکھا دیتا ہے۔اب حسن کو صحیح معنوں میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوا تھا۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories