Sunehre Din - Article No. 2011

Sunehre Din

سنہرے دن - تحریر نمبر 2011

بچپن کا زمانہ کون بھول سکتا ہے

جمعرات 8 جولائی 2021

عروج سعد
آج تو ابا کا موڈ بڑا خوشگوار تھا،کیونکہ لندن سے چاچو کا فون آیا تھا کہ وہ پاکستان آرہے ہیں۔دو دن کسی سیمینار میں شرکت کریں گے۔ابا چاہتے تھے کہ ان ہی دنوں تایا ابا بھی انڈیا سے آجائیں،تاکہ تمام بھائی اکٹھے ہو جائیں۔
اتفاق سے تایا ابو کو ویزا مل گیا تھا۔ابا کی خوشی تو دیکھنے والی تھی۔ہم سب تو ان لوگوں سے پہلی مرتبہ مل رہے تھے۔
ابا کے ساتھ ہم لوگ ایئرپورٹ گئے۔ان دونوں چچاؤں کو دیکھ کر ہم سب کو بڑی حیرت ہو رہی تھی کہ یہ تینوں ایک دوسرے سے کس قدر ملتے جلتے ہیں۔آنکھیں، مسکراہٹ،بات کرنے کا انداز،محبت خلوص پیار سب کچھ ہی تو ایک جیسا تھا اور ایک ہم بھائی بہن تھے ،جو ہر وقت لڑنے جھگڑنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
گھر آنے کے بعد ابا کے ساتھ ساتھ چاچو اور تایا ابا کے قہقہے گھر میں خوب گونج رہے تھے۔

(جاری ہے)

ان کے بچپن کے قصے سن کر ہم نے بھی خوب لطف اُٹھایا۔اچانک یاد آیا کہ بازار سے ہم چاکلیٹ لائے تھے اور فریج میں رکھی تھی۔جلدی سے بھاگ کر فریج کھولا تو چاکلیٹ غائب تھی۔ہم نے دل میں سوچا ہو نہ ہو یہ ٹیپو ہی ہو گا۔آج اس کی خوب پٹائی کریں گے۔ہاتھ کیسے لگایا اس نے ہماری چاکلیٹ کو۔
ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے،ہم اسٹول پر پاؤں رکھ کر دیوار کے اوپر چڑھے امرود توڑ رہے تھے کہ نیچے رکھا ہوا اسٹول غائب ہو گیا۔
جب ہم نے شور کیا تو اس نے ہماری ٹانگ زور سے کھینچ کر ہم کو نیچے گرا دیا۔
”بس بہت ہو گیا۔“ہم نے غصے سے کھولتے ہوئے سوچا۔
ابھی اس کو مزہ چکھانے جا ہی رہے تھے کہ ٹی وی لاؤنج سے چاچو کی آواز گونجی:”بھائی صاحب!یاد ہے،آپ کو ہمیشہ میری پلیٹ میں کھانا پسند تھا۔جب کہ وہی کھانا میز پر بھی رکھا ہوتا تھا،لیکن آپ اکثر میری ہی پلیٹ میں کھاتے۔
میں بھی خوب غصہ کرتا تھا۔میں اپنا کھانا چھوڑ دیتا کہ اب آپ ہی سب کھائیں۔پھر آپ مجھے منانے لگتے،لیکن میں ضد پر اَڑ جاتا اور دل ہی دل میں جلتا کڑھتا بھی رہتا کہ مزید کیوں نہیں منا رہے ہیں اور آپ بھی خوب مزے سے ساری پلیٹ صاف کر دیتے۔“
نعمان چاچو ہنستے ہوئے پھر بولے:”پتا نہیں کیوں اتنا چڑتا تھا میں بالکل پاگل تھا۔“
ابا بولے:”میاں!بچپن کا زمانہ کون بھول سکتا ہے۔
بچہ تو بچہ ہی ہے ناں ایک بات اور تمہیں بتائیں،کھانا مجھے تمہاری ہی پلیٹ میں سچ مچ بہت لذیذ لگتا تھا۔تم سب سے چھوٹے جو تھے۔تمہیں تنگ کرنے کا تو مزہ ہی کچھ اور تھا اور بعد میں خوب پیار بھی آتا تھا۔“ابا نے چاچو کو لپٹا کر پیار کرتے ہوئے کہا:”میرا جگر کا ٹکڑا۔“
نعمان چاچو ہنستے ہوئے بولے:”بھائی!اب میرا بہت دل چاہتا ہے کہ آپ پھر سے مجھ کو تنگ کریں،میری پلیٹ چھین لیں،میرے ساتھ کھانا کھائیں،ہم سب پھر سے ایک ساتھ رہیں،اپنے اس دور کا لطف اُٹھائیں۔

تایا ابو بولے:”اللہ کا احسان ہے کہ میرے پاس دنیا کی ہر چیز ہے،مگر وہ محبت،خلوص،پیار،ایثار،اپنائیت کہیں نہیں ہے۔“
چاچو نے کہا:”کتنے خوبصورت دن تھے وہ جب ہم سب ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔“
”ابا بولے:”تم یہ دیکھو کہ ہم نے کبھی لڑائیوں کو دل پہ نہیں لیا۔صبح لڑتے تو شام تک بھول جایا کرتے کہ لڑے کس بات پر تھے۔
ہم لڑتے ضرور تھے،مگر محبت بھی کم نہیں تھی۔سب سے زیادہ مزہ تو اس وقت آتا جب ہم دو ایک طرف ہو جاتے اور نعمان کو تنگ کرتے۔تھوڑی دیر میں ہمیں رحم بھی آجاتا تھا۔“
تایا ابا بولے:”جب بھی ہم بھائیوں میں لڑائی ہوتی تو اماں ابا بات کرنے سے منع کر دیتے تھے کہ اب بات کرتے نہ دیکھوں تم لوگوں کو آپس میں۔اس حکم سے ہم لوگوں کو تکلیف ہوتی،سارے قصے کہانیاں یاد آتیں اور ایک دوسرے سے بات کرنے کے لئے تڑپنے لگتے۔

”پھر تو اماں بھی خوب ہنستیں اور کہتیں:”نکٹا مجھے بھائے نہ اور نکٹے بنا رہا جائے نہ۔“پتا نہیں کچھ ایسا ہی محاورہ تھا۔ابا یاد کرتے ہوئے بولے۔
”سچ تو یہ ہے کہ روپیہ پیسہ سب مل جاتا ہے،نہیں ملتے تو یہ انمول خوبصورت رشتے نہیں ملتے۔“ابا نے کہا۔
چاچو بولے:”’میں سمجھتا ہوں جن لوگوں کے نزدیک صرف پیسہ ہی سب کچھ ہوتا ہے وہ جذبہ انسانیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

تایا ابو نے کہا:”نوک جھونک کہاں نہیں ہوتی،جہاں محبتیں ہوتی ہیں وہاں چھیڑ چھاڑ بھی ہوتی ہے۔سچ پوچھو تو میں نے بہت تنگ کیا ہے تم سب کو،لیکن خدا نخواستہ کبھی بُرا نہیں چاہا،نہ کبھی نفرت کی،ہاں شرارتیں تو خوب کی تھیں۔“
ہم جو خاموشی سے بزرگوں کی یادیں،باتیں،قصے،کہانیاں سن رہے تھے،پہلے دل ہی دل میں ٹیپو کو گھونسے،مکے،لاتیں،تھپڑ سب ہی کچھ مار مار کے خوش ہو رہے تھے کہ ایک دم سے دل کے ایک کونے سے آواز آئی:”کوئی بات نہیں،ٹیپو نے ہماری چاکلیٹ کھا لی تو کیا ہوا،وہ ہے تو ہمارا بھائی چھوٹا سا،اس پہ تو سو چاکلیٹیں بھی قربان۔ہماری جان و روح ہمارا بھائی۔“یہ سوچ کر ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔سچ مچ محبت کے آنسو۔

Browse More Moral Stories